مسخ شدہ جنگل کی ایک نئی تصویر


وہ جنگل کی ایک اداس کن سیاحت تھی جس میں میری صورت مجھ سے جدا ہو گئی تھی۔ مجھے یاد نہیں، مگر یہ سچ ہے کہ میں اپنا چہرہ بھول چکا تھا۔ اس کے خد و خال اور رنگ تک مجھے یاد نہیں رہے تھے۔ کیوں کہ میری آنکھوں میں راحت کا چہرہ آ گیا تھا۔ ابھی جس دم میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں، وہ میرے نزدیک بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ مجھ سے خفا ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ میں ہمارے سیر سپاٹے کے واقعات آپ تک پہنچاؤں۔ وہ ہم سے جڑی بھولی بسری یادوں کو تحریر کی کچی روشنائی میں اتارنے کے لیے تیار نہیں۔

اس کے چہرے پہ غصہ سمیت بہتے پانی سی پر شوق مسکراہٹ ہے جو چشم آہو سے نکل کر اس کے گندمی رخسار کی چکنائی پر آہستہ آہستہ پھسل رہی ہے۔ وہ خود کو کشتی میں سوار دیکھ سکتی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ سکتی ہے کہ روشن سورج کی ہنسی بڑی خوشگوار ہو چلی ہے۔ اس کا سوزیدہ جسم افق کے حوض میں ڈوب رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ٹھنڈی چمک ہے اور اس کی دھیمی حرارت نے آسمان سمیت چتکبرے بادلوں کو بھی سرخ کر دیا ہے۔ جنگل گہری خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے۔

سوائے کوئل کی کوکو کے کوئی آواز نہیں۔ لب دریا چھوٹی چھوٹی کشتیاں پانی کی سطح پر جنبش کر رہی ہیں اور وسط دریا کچھ کشتیاں شارک کی طرح پانیوں کو چیرتی ہوئیں تیزی سے ہماری طرف آ رہی ہیں۔ جنگل اور دریا کے بیچ ایک چھوٹی اور خوبصورت کائنات رچ بس گئی ہے، جو مجھے اور اسے اپنی آغوش میں پناہ دینے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔

یہاں گیدڑ اور بندر بہت ہوں گے اور زہریلے قسم کے سانپ بھی۔ ہم جب تک یہاں رہیں گے کوئی نہ کوئی حادثہ ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔

پہلے تو تم اس خوف سے باہر آؤ، کیوں کہ جانور ہم سے زیادہ معصوم ہوتے ہیں۔
ہوتے ہوں گے مگر بندر معصوم کے ساتھ کافی چلبلے اور شوخے بھی ہوتے ہیں۔
تب تو بندر میں بھی ہوں۔ مجھ سے بھی ڈرنا چاہیے تمہیں۔
شاید، ہاں۔

میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ دفعتا اس کی آنکھیں جامنی کے ایک خشک درخت پر ٹھہر گئیں، اس نے اس کے اردگرد گھنے دار درختوں کو بھی یکے بعد دیگرے فسوں نگاہی سے دیکھا۔ وہ پہلے بھی یہاں آ چکی تھی۔ اس کے بچپن کی بہت ساری یادیں یہیں سے جڑی ہوئی ہیں۔ مگر یہاں پہلے جیسا اب کچھ بھی نہیں تھا۔ ہاں اس کے زمانے کے کچھ درخت تھے جو اب بوڑھے ہو چکے تھے اور کچھ تھے جو کاٹ لیے گئے تھے اور کچھ تھے جو غائب کر دیے گئے تھے۔

ہم جنگل میں داخل ہوئے، ہم نے دیکھا کہ یہاں کی گھاس بہت نرم ہے۔ کچھ انسانی جوڑے اس پر رومانیت کے چاند ستارے اگا رہے ہیں۔ کچھ جنسی میلانات کی آنچ سے اپنے جسم کی تپش کو بجھا رہے ہیں۔ سگریٹ اور کنڈوم کی بہت ساری بوسیدہ ڈبیاں بکھری ہوئیں ہیں۔ ایک دوشیزہ نے اپنے مکمل ننگ وجود کو سیاہ چادر کے حوالے کیا ہوا ہے۔ اس کا جسم سفید گلاب کی طرح درخشاں ہے اور وہ اپنا خوابیدہ چہرہ آسمان کی طرف کیے سگریٹ کی کش لگا رہی ہے اور ایک عمر رسیدہ شخص اس پر اسی طرح جھکا ہوا ہے جیسے کوئی جنگلی درندہ، ہرنی کا شکار کر کے اس پر جھک جاتا ہے۔ راحت ناقابل برداشت ہوئی اور ایک تیز روشنی میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئی۔

کیا تھا یہ؟ شاید راحت کا زور دار تھپڑ رہا ہو۔
شاید نہیں یقیناً۔

میں نے آپ سے کہا تھا نا یہ روداد اس کے سامنے بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ وہ بھڑک گئی ہے کہ میں ان سب واقعات کا ذکر کیوں کر کر رہا ہوں۔ خدا ہی جانے کہ میں اب کس بہانے اس لڑکی کی زد و کوب کا نشانہ بن جاؤں۔

وہ کافی دیر سے دائیں بائیں دیکھ رہی تھی، پھر اس نے دفعتا مجھ سے کہا۔
سنو، یہاں کہیں پھونس کی ایک جھونپڑی ہوا کرتی تھی، ذرا ڈھونڈو گے؟
ہاں، مگر اس میں تمہاری اس قدر دلچسپی کیوں؟
نہیں، اس میں ایک کھیون ہار ہوا کرتا تھا۔ ہم اسے شیام لال ماموں کہہ کر پکارتے تھے۔
وہ بہت اچھا انسان تھا۔ مگر اب وہ زندہ کہاں، وہ تو کب کا مر گیا۔
چلو تو سہی، وہ نہیں، اس کا کوئی تو ہو گا، اسی سے مل لیں گے۔

ہم نے ڈھونڈنا شروع کیا تو واقعی وہ جھونپڑی پہلے سے زیادہ سالم اور برقرار تھی۔ مگر اب وہ ایک ایاغ خانہ میں تبدیل ہو چکی تھی جہاں بہت سے بیگانے اکٹھے تھے اور ایک لڑکی انہیں جام پلا رہی تھی۔

یہ جھونپڑی تو شیام لال ماموں کی ہوا کرتی تھی؟ راحت اس لڑکی کے قریب پہنچ گئی۔
تم شکیل چاچا کی بیٹی ہو؟ اجنبی لڑکی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ہاں، مگر تمہیں کیسے پتا؟

پتا تو ہو گا نا، ہمارے پتا جی کے ایک ہی دوست تھے، وہ بھی مسلمان۔ آپ کی اماں انہیں بہت مانتی تھی۔ آپ کی اماں ہمیشہ ہمارے پتا جی کو بھائی جان کہہ کر پکارتی تھی۔ کوئی مسلم لڑکی میرے پتا جی کو ماموں کہے تو میں سمجھ سکتی ہوں کہ وہ کون ہوگی۔

راحت آب دیدہ ہو گئی۔ لڑکی نے بصد احترام اپنے تمام گاہکوں سے کہہ دیا کہ تھوڑی دیر کے لیے وہ یہ جگہ خالی کر دیں۔ وہ سب چلے گئے۔ اس نے جگہ کی صفائی کی اور ہمیں بیٹھنے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا ہانپتا ہوا آیا۔

پرنام (سلام) بہنا۔ کیسی ہو؟ یہاں کیسے آ گئی؟ ہے بھگوان کتنی بڑی ہو گئی ہو اور کتنی سندر لگ رہی ہو۔
نہ نہ، یہ بتاؤ کہ ماموں کو ہوا کیا تھا؟

جانے والے چلے جاتے ہیں۔ اور واپس نہیں آتے۔ ہم بھی چلے ہی جائیں گے، ان پہ رونا کیسا؟ تم بیٹھو، میں ابھی آیا۔ شاید وہ رونے کے واسطے خود کو ہم سے روپوش کرنا چاہ رہا تھا۔

نہیں، میں جا رہی ہوں۔ اب اس جنگل سے مجھے وحشت آتی ہے۔ یہاں سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے اور شاید اب بھی بہت کچھ تبدیل ہونا باقی ہے۔ مگر تم لوگوں نے یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟

بہن، غربت ہمارا شکار کرتی ہے۔ کاش روزی بھی ہمارا شکار کرتی، یہ محض کہنے کی بات نہیں ہے کہ پتا جی کی موت سے لے کر جنگل کی تبدیلی تک میں غربت کا خون شامل ہے۔ اور صرف جنگل کہاں بدلا، پوری کی پوری تہذیب بدل گئی، وقت بدل گیا، انسان بدل گئے۔

تو کیا ہوا؟ زمین اور آسمان تو وہی ہے نا؟ اس نے اسے تسلی دینے کی ناکام کوشش کی۔

ہاں وہی ہے، مگر اب وہ پہلے کی طرح ٹھہری ہوئی نہیں ہے، آسمان کی گردش میں بہت تیزی آ گئی ہے، بادلوں سے اترنے والی بارشیں بھی وہی ہیں مگر ہواؤں کا رخ کسی اور سمت ہے اور پانیوں سے تعفن زدہ خون کی بو آتی ہے۔

وہ وہاں سے اداس چہرہ لیے گھر واپس ہوئی اور بھول گئی کہ علاوہ ازیں اور بھی اس کی بہت ساری یادیں تھیں جو یا تو کہیں کھو گئی تھیں یا اسی جنگل کے کسی پیچ دار درخت کی جڑ میں دفن ہو گئی تھیں۔ اس نے واپسی کے وقت بھی آسمان کو غور سے دیکھا تھا، جنگل کا اوپری حصہ کھلا ہوا تھا اور آسمان اس وقت بھی سرخ بادل کی چادروں میں لپٹا ہوا تھا۔ وہ گدھ، چیل، شکرے، طوطے اور بلبل جیسے پرندوں کو ڈھونڈ رہی تھی مگر پرندے اب غائب ہوچکے تھے اور فضاء میں ایک موہوم سناٹا تیر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments