صحافی کب پارٹی کارکن بن جاتا ہے؟


نئے پاکستان کے خواب کے ساتھ ملک میں سیاسی گروہ بندی میں ہی شدت اور سخت گیری دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ اب سیاسی گروہوں نے اپنے اپنے صحافی رکھنے کی ناقابل فہم روایت کو راسخ کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ صحافی و اینکر عمران ریاض کی گرفتاری پر تحریک انصاف اور اس کے لیڈروں کا واویلا ملک میں ایک ایسی نئی تقسیم کا اعلان کررہا ہے جو عوام کے حق کی بجائے کسی ایک لیڈر کا بت تراشنے اور اس کے مخالفین کی کردار کشی کے نت نئے طریقے تلاش کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

اس میں دو رائے نہیں ہونی چاہئیں کہ کسی بھی شخص کو اختلافی رائے کی بنیاد پر نشانہ ستم نہیں بنایا جاسکتا۔ اس اصول پر بھی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف صحافیوں یا اینکرز کے خلاف ملک دشمنی اور بغاوت کے الزام میں مقدمات قائم کئے جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سیاسی گروہوں کا یہ طرز عمل بھی ناقابل قبول ہے کہ وہ صرف ایسے صحافیوں اور اینکرز کے خلاف کسی قسم کی کارروائی پر احتجاج کریں جنہیں کسی ایک خاص پارٹی یا لیڈر کے قریب سمجھا جاتا ہے اور اس موقع پر آزادی رائے پر حملوں کی دردناک کہانیاں عوام کے کانوں میں انڈیلی جائیں لیکن اپنے ہی دور حکومت میں ان صحافیوں کے خلاف کی جانے والی زیادتیوں پر کوئی پریشانی لاحق نہ رہی ہو جو ان کے خیال میں مخالف سیاسی پارٹی کے حامی تھے۔

اس معاملہ میں پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان تنہا نہیں ہیں بلکہ اس وقت حکومت میں شامل جماعتیں بھی اسی رویہ کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ اگرچہ ایاز امیر کے ساتھ جسمانی تشدد پر وزیر اعظم اور دیگر حکومتی زعما نے بیانات کی حد تک مذمت کی تھی لیکن عمران ریاض کی گرفتاری پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ حتی کہ پنجاب پولیس کسی بھی طرح انہیں زیادہ سے زیادہ مدت تک زیر حراست رکھنا چاہتی ہے۔ یہ باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی بالواسطہ منظوری کے بغیر پنجاب پولیس ایسا رویہ اختیار کرسکتی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا یہ بیان کہ ’صحافی اور مجرم میں فرق کرنا چاہئے‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت اس معاملہ میں اتنی معصوم نہیں ہے جتنا وہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح لاہور سے سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے لیڈر حلیم شیخ کی گرفتاری اور پھر لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت پر ان کی رہائی بھی اسی حکومتی رویہ کا اشارہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے خلاف شکنجہ سخت کرنا چاہتی ہے۔ اگر یہ طریقہ مزید واضح ہوتا ہے تو پوچھنا پڑے گا کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے جن اقدار کی دہائی دی جاتی ہے، اب ان کا کیا ہؤا۔ ملک میں جمہوری نظام کو پائیدار کرنے کے لئے یہ بے حد اہم ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی سیاسی پارٹیاں اسی اخلاقی معیار کی پابندی کریں جس کی امید اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت وقت سے کی جاتی ہے۔

عمران خان کی باتوں میں کچھ سیاسی رنگ آمیزی بھی ہوگی لیکن گزشتہ چند روز سے انہوں نے تواتر کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگر ان کے حامی صحافیوں کو ہراساں کرنے سے اپوزیشن کے اہم لیڈر کو پریشان کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے تو اسے نرم ترین الفاظ میں بھی عاقبت نااندیشی اور بنیادی جمہوری تصور کے خلاف سمجھا جائے گا۔ یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ عدم اعتماد کی جس تحریک کو ایک آئینی اور جمہوری عمل قرار دیا جارہا ہے، اسے کامیاب کروانے کے لئے آصف زرداری اور شہباز شریف نے کون سے پاپڑ بیلے تھے اور کن حلقوں کی حمایت حاصل کی گئی تھی۔ پاکستانی سیاست میں چونکہ بہت سی باتیں خفیہ رکھی جاتی ہیں، اس لئے اس حوالے سے محض قیاس آرائیاں ہی ہوتی ہیں یا اشاروں کنایوں میں باتیں کی جاتی ہیں۔ البتہ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے بعد یہ اشارے کنائے زیادہ واضح ہونے لگے ہیں اور سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت کے حوالے سے زیادہ کھل کر بات ہونے لگی ہے۔ اسلام آباد کے سیمنار میں ایاز امیر نے کچھ ایسی ہی باتیں کی تھیں۔ عام طور سے سمجھا جارہا ہے کہ لاہور میں ان پر حملہ اسی پاداش میں ہؤا تھا۔ اسی طرح عمران ریاض کی گرفتاری کا تعلق بھی درحقیقت عسکری اداروں کے بارے میں ان کے تبدیل شدہ رویہ سے ہی ہے۔ یہی اینکر و صحافی تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں فوج کی خدمات اور اس کے عزت و وقار کے لئے رطب اللساں رہتے تھے تاہم عمران خان کے اقتدار سے محرومی کے بعد اس رویہ میں وہی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے جو تحریک انصاف کے رویہ میں نوٹ کی جارہی ہے۔

یہ تسلیم کرنا تو مشکل نہیں ہے کہ کوئی بھی صحافی جب چاہے اپنی رائے سے رجوع کرلے اور کسی نئے مؤقف کو درست قرار دے کر اس کی ترویج شروع کردے تاہم جب یہ طرز عمل کسی ایک خاص پارٹی یا لیڈر سے انسیت یا وفاداری کی بنیاد پر نمایاں ہوگا تو صحافیوں کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے بارے میں بھی سوال سامنے آئیں گے۔ موجودہ صورت حال میں اس وقت پاکستانی معاشرے اور خاص طور سے صحافی برادری کو انہی مشکل سوالات کا سامنا ہے لیکن ان کا جواب تلاش کئے بغیر ملک میں صحت مند سیاسی کلچر کے فروغ میں میڈیا کے کردار کا تعین نہیں ہوسکتا۔ اس لئے یہ جاننا اہم ہے کہ کوئی صحافی جب کسی پارٹی کا ورکر بن کر کام کرنا شروع کردے تو اس کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے۔ ایک طریقہ تو وہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت پنجاب حکومت کر رہی اور جس کا اشارہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے حامی صحافیوں کی زندگی اجیرن کردی جائے۔ دوسرا طریقہ آزادی رائے کے جمہوری اصولوں پر استوار ہوسکتا ہے اور اس کے لئے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ البتہ اس آواز کو توانا بنانے کے لئے انسانی حقوق تنظیموں یا صحافی برادری کی طرف سے مذمتی بیانات ہی کافی نہیں ہیں بلکہ پیشہ وارانہ اصولوں کو نمایاں کرکے صحافی کے طور پر کام کرنے والے تمام لوگوں سے بعض بنیادی اصولوں کا احترام کرنے کا تقاضہ بھی ہونا چاہئے۔

دنیا بھر میں صحافی تنظیمیں ضابطہ اخلاق بناتی ہیں اور اپنے ارکان سے ان کا احترام کرنے کی امید کرتی ہیں۔ کسی خلاف ورزی کی صورت میں ان کی گو شمالی کی جاتی ہے۔ غلطی یا بنیادی صحافی اخلاقیات کی خلاف ورزی پر صحافی تنظیموں کے قائم کردہ نگران ادارے ہی کسی خبر یا تبصرے کا جائزہ لے کر یہ طے کرتے ہیں کہ کس حد تک اصولوں سے انحراف کیا گیا اور اس کی روک تھام کے لئے ضروری اقدام کئے جاتے ہیں۔ آزادی رائے کی بنیاد پر فنکشنل جمہوری نظام میں میڈیا اور صحافیوں کے احتساب کے حوالے سے یہ طریقہ کا رکلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ البتہ کوئی صحافی اگر کسی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے تو یہ معاملہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اور کوئی صحافی نہ تو محض اپنے پیشہ کی بنیاد پر کوئی رعایت طلب کرتا ہے اور نہ ہی کوئی صحافی تنظیم ایسے کسی صحافی کے ساتھ اظہار یک جہتی ضروری سمجھتی ہے۔ کچھ سال پہلے ناروے ٹی وی کے ایک مقبول اینکر پر ایک خاتون نے جنسی زیادتی کا جھوٹا الزام عائد کیا۔ پولیس نے ضابطہ کی کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ صحافی کو گرفتار کرلیا۔ البتہ خاتون نے اگلے روز اپنا بیان تبدیل کرلیا اور یہ واضح ہوگیا کہ یہ الزام غلط طور سے عائد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی پولیس نے اس صحافی کو رہا کیا۔ تاہم اس واقعہ کے دوران یا بعد میں نہ تو کسی صحافی تنظیم کو مداخلت کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی اس بے بنیاد الزام کا نشانہ بننے والے صحافی نے اس معاملہ کو اس کے درست سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھنے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوئی کوشش کی۔

پاکستان ان اقدار کے حوالے سے ابھی بہت پیچھے ہے لیکن پھر بھی ملکی صحافیوں کو اگر آزادی رائے کی حفاظت کے لئے کوئی ٹھوس بنیاد فراہم کرنا ہے تو انہیں خود احتسابی کا کوئی نظام بھی استوار کرنا پڑے گا۔ کسی بھی صحافی کے لئے کسی ایک پارٹی کی حمایت یا مخالفت کرنا پیشہ وارانہ اخلاقیات سے متصادم نہیں ہوتا۔ لیکن ایسی کسی رائے کا اظہار درست معلومات اور حقائق کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ صحافی کا بنیادی کام خبر دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی صحافی کسی گروہ یا ادارے کی حمایت میں جھوٹے پروپیگنڈے کو خبر کے طور پر سامعین و ناظرین کے سامنے پیش کرنا شروع کردے تو اس میں حد فاصل قائم کرنا کسی صحافی احتسابی ادارے کا کام ہے۔ یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن سیاسی کارکن اور صحافی میں فرق واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خبر کی حد تک صحافی ہونے کا دعویدار کوئی بھی شخص جھوٹی خبروں کو عام نہ کرے اور اگر اس کا کوئی تبصرہ یا رائے قیاس آرائیوں اور کسی ایک گروہ کے سیاسی مفاد کے پرچار کے لئے عام کئے گئے خبر نما جھوٹ پر استوار ہو، تو اس کا پتہ لگنے کے بعد وہ سیاسی وابستگی اور پسند ناپسند کی بنیاد پر اس جھوٹ کو سچ کہنے پر اصرار نہ کرے۔

جدید دور میں درست خبر کی ترسیل کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا کے مؤثر ہونے کے بعد کسی بھی قیمت پر دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے جلد بازی میں اکثر اوقات بے بنیاد یا نیم سچ پر استوار خبر عام کردی جاتی ہے بلکہ اس پر زور دار تبصروں کا خیالی مینار بھی کھڑا کرلیا جاتا ہے۔ پروفیشنل صحافیوں کو اس قسم کے ہیجان سے پرہیز کرنا چاہئے اور خبر کی مختلف ذرائع سے تصدیق کے بغیر نہ تو اسے پھیلانا چاہئے اور نہ ہی اس پر تبصرے کرکے خود کو ایک خاص گروہ یا مزاج سے منسلک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح معاشرے میں بے شمار گروہ اپنا پروپیگنڈا سچ بنا کر پیش کرنے کے لئے صحافیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سیاسی، سماجی اور کمرشل گروہوں کے علاوہ سرکاری ادارے بھی شامل ہوتے ہیں۔ صحافیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی ایک گروہ کی طرف سے فراہم کی گئی خبر کی متعدد ذرائع سے پڑتال کرنے کے بعد ہی اسے عام کریں۔ سب سے پہلے خبر دینے کے جوش میں بہت سے صحافی بڑے سیاسی لیڈروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں، پھر ان کا آلہ کار بن کررہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ صحافی سے زیادہ سیاسی کارکن کہلائیں گے جو معاملات کو وسیع تناظر میں دیکھنے اور ان کا خود مختارانہ جائزہ لینے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔

 اس طریقہ کی حوصلہ شکنی کے لئے پولیس یا ملکی قانون استعمال کرنے کی بجائے بہتر افہام و تفہیم، صحافی تنظیموں کی چوکنا حکمت عملی اور حکومت کی طرف سے آزادی اظہار کے بنیادی اصول سے ٹھوس وابستگی بہتر ماحول پیدا کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ آزادی رائے کا حق صرف صحافی ہی نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں اور تمام شہریوں کو حاصل ہوتا ہے۔ البتہ صحافیوں کو اپنے پیشہ کے تقدس کے لئے خبر اور حقائق کی ترسیل کے لئے ایک متوازن اور ہوشمندانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments