حقیقی عید اور قربانی کا فلسفہ!


اسلامی تہواروں کا حسن یہ ہے کہ ہر تہوار کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبق موجود ہوتا ہے۔ عیدالفطر سے پہلے بھوک پیاس برداشت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ سنت ابراہیمی کیا ہے؟ سنت ابراہیمی ؑ یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم ملتا ہے تو وہ بغیر کسی پس و پیش کے یہ قربانی پیش کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور فیضان نظر سے تربیت یافتہ بیٹا بھی فی الفور سر تسلیم خم کر دیتا ہے

عید بام فلک پر نمودار ہوتا ہے تو مبارک سلامت کی وہ دلآویز صدائیں سنائی دیتی ہیں کہ گرد و پیش مسرتوں کی دیپ مالا جگمگا اٹھتی ہے، فضاؤں میں یک دم ست رنگی پھلجھڑیوں کی چھوٹ سی پڑنے لگتی ہے۔ یہ چکا چوند، یہ اجالا، یہ روشنیاں انھی کو دکھائی دیتی ہیں، جن کی کمائی ان گنت روپوں میں ہو۔ تہوار کسی بھی تہذیب کا حسن ہوتے ہیں، ہر تہوار اپنے اندر مختلف رنگوں کو سموئے ہوئے ہوتا ہے اور اگر ہم بات کریں اپنے مذہبی تہواروں کی تو ان کی خوب صورتی و رعنائی بے مثال اور لا جواب ہے۔

ہمارے دین میں دو بڑے خوشی کے مواقع عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں۔ جس میں پوری ملت اسلامیہ خوشیاں مناتی ہے اور عالم اسلام میں اتحاد ویک جہتی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری عیدین کا ایک تقاضا، مقصد اور پیغام یہ بھی ہے کہ ہم اس تہوار کی اصل روح کو سمجھ کر اس کے تقاضوں کو پورا کر کے روحانی سکون اور خوشی حاصل کریں۔

عیدالاضحی جسے عید قرباں اور بقر عید بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عید مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بیش قیمت تحفے اور عطیے کی مانند ہے، اس عید میں ہم سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے، کی راہ میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس عید کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہے، جب کہ اس تہوار کی اصل روح اپنے نفس کا تذکیہ ہے۔ عید قرباں کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ جانور خرید کر اسے اللہ کی راہ میں قربان کر دیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنے نفس، اپنی روح کو احکام الٰہی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔

اپنے اندر لالچ، حرص، حسد، غرور، بغض و کینہ کو نکال کے اپنے دل و دماغ کو پاکیزہ کر لیں۔ ناراضی و نا اتفاقی ہر گھر میں کسی نہ کسی سطح پر ہو ہی جاتی ہے، مگر ہمارا یہ تہوار ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس عید کے توسط سے ہم اپنی ذاتی رنجشوں، ناراضگیوں اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے کھلے دل سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔ اگر ہم غور کریں تو دونوں عیدیں غربا مسکین کو شریک کرنے کا نام ہے۔ ہمارا دین غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے پر خصوصی زور دیتا ہے۔

عید قرباں اسی مقصد کو پورا کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے، اس کا بنیادی مقصد وہ غریب افراد ہیں جو پورا سال اس دن کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہو چکا اب ہم گوشت یا تو فریج کرتے ہیں یا ان لوگوں کو دیتے ہیں جہاں سے ہمارے گھر گوشت آتا ہے یا پھر ایسے خاص الخاص گھروں میں اعلیٰ قسم کا گوشت بھجوایا جاتا ہے، جہاں مطلب ہوتا ہے اور باقی گھروں میں انتہائی واجبی سا گوشت دیا جاتا ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں، تو جان لیجیے کہ آپ اپنی قربانی کے مفہوم کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

ایسے گھرانے جو گوشت کھانے سے محروم ہوتے ہیں یا ان کی مالی حیثیت کمزور ہوتی ہے، وہاں گوشت بھجوا کر ہی آپ صحیح معنوں میں حق قربانی ادا کر سکتی ہیں۔ اسی طرح اپنے ایسے عزیز و رشتے دار جو غریب ہیں، ان کی مدد کرنا اور ان پر خصوصی توجہ دینا بھی آپ کا فرض ہے۔ صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول رکھنا اور غریب رشتے داروں کو نظر انداز کرنا اس تہوار کے منافی ہے۔ عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ آج ہم اپنے ارد گرد خاندانی انتشار کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ بہت سے سگے بہن، بھائی تک ایک دوسرے سے ملنے کے روادار نہیں۔ اس کا واحد سبب ہمارے نفس کی سرکشی ہے اور یہ تہوار ہمیں اپنے نفس کو قربان کرنے کا درس دیتا ہے۔

آج ہمارا معاشرہ آپس میں اختلافات، تعصبات اور ایک دوسرے سے جلن و حسد کے باعث انتہائی افراتفری اور انتشار کا شکار ہو گیا ہے، ایک تلخ حقیقت ہے کہ امارت و غربت کا فرق جس میں پاکستان روز بہ روز غرق ہوتا جا رہا ہے ایسے مواقعے پر کھل کر سامنے آ جاتا ہے، یہ ملک قربانیوں سے بنا تھا، قربانیوں سے قائم ہے اور قربانیوں پر ہی قائم رہے گا، 72 سال سے عوام قربانی دے رہے ہیں، امیر گوشت کھا رہے ہیں، غریب اور اس کے اہل خانہ چھپ کر روتے ہیں یہاں قربانی بھی اسٹیٹس سمبل بن چکی ہے، جانوروں کی قیمتیں اور قصابوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، متوسط، سفید پوش حتی کہ نسبتاً خوش حال طبقے کے افراد کے لیے بھی موجودہ مہنگائی میں سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہونا مشکل ہو گیا ہے۔ کس کا دل نہیں چاہتا کہ سنت ابراہیمی کی پیروی دل و جان سے کرے لیکن حالات ساتھ نہیں دیتے، کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں پانچ پانچ قربانیاں ہو رہی ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جو ایک قربانی کا بھی تصور نہیں کر سکتے۔

اس موقعے پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟ اس کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے کردی ہے جس کا مفہوم ہے کہ تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ کے پاس نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ یعنی وہ جذبہ اللہ تک پہنچتا ہے جس کی بناء پر تم اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہو۔ ان میں ہماری انا، ہماری خواہشات، ہمارا اسٹیٹس، ہمارے ذرائع آمدنی، ہماری معیشت سب کچھ شامل ہے۔

عید کی خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں نمود و نمائش کے مظاہروں سے بھی گریز کرنا چاہیے اور محروم و مستحق بھائیوں کی امداد و اعانت کو اپنا شعار بنانا چاہیے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے جا نمود و نمائش کا جذبہ قربانی کے حقیقی اجر کو ضائع کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ عیدالاضحی ہمیں آپس میں پیار و محبت اور اتحاد و یک جہتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتا ہے، جہاں سب ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کریں، ان کی جان و مال کا خیال رکھیں۔

اچھے برے وقت میں کام آئیں، دوسروں کو بھی آپس کے اختلافات اور نفرتوں کو بھلانے کا درس دیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں، جس کا تقاضا ہمارا دین کرتا ہے۔ آج ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عید الضحیٰ کی صورت میں اپنے اس خوب صورت تحفے کو بھرپور انداز سے منانے کا موقع دیا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ عیدالاضحی کی اصل روح کو سمجھ کر اسے بھرپور انداز میں منانے کی ضرور کوشش کریں گے۔ ہمیں یہ ضروری سمجھنا چاہیے کہ قربانی کا مقصد کیا ہے؟

یقیناً قربانی کے مستحق نہ تو وہ لوگ ہیں جو پورا سال گوشت کھاتے ہیں ان کے پاس استطاعت ہے۔ اگر ہم نے اپنے اردگرد ان لوگوں کا خیال نہیں رکھا جو اس کے صحیح معنوں میں حقدار ہیں وہ اگر اس موقع پر بھی ہمارے دروازے پر اپنے حق کی خاطر کھڑے ہوں تو ہم نے اس دن کا نہ صرف تقدس پامال کیا ہے بلکہ حق دار کا حق بھی مارا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments