پاکستان، جمہوریت اور آزادی اظہار رائے


پاکستان میں آزادی اظہار رائے پہ پابندی ہے یا نہیں آج کا یہ تحریر اس بارے میں ہے۔ لیکن ان سے پہلے میں آپ لوگوں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آخر آزادی اظہار رائے کیا ہے۔ سادہ لفظوں بولنے کی آزادی لیکن اس سے پہلے میں فلسفی کا موقف بھی بیان کرتا ہوں۔ کہ فلسفہ آزادی اظہار رائے کے متعلق کیا کہتا ہے۔

فلسفی کہتے ہیں وہی معاشرہ فطری اور حقیقی معاشرہ ہو گا۔ جہاں پہ ”آزادی اظہار رائے“ پہ پابندی نہ ہو۔ جہاں پہ صحافی کھل کر بولے بات کریں لکھے۔ ایسا معاشرہ صرف جمہوری معاشرہ ہو سکتا ہے۔ ”آمری“ نہیں۔ فلسفی مزید کہتے ہیں آمری معاشرہ اس کائنات کی ماہیت کے خلاف ہے اس لیے آمریت ہر اس معاشرے کو مال کو جامد کر کے رکھ دیتی ہے جس میں اس کا راج ہوتا ہے آمریت جمود کا تقاضا کرتی ہے اور جمود اس کائنات کی ماہیت کے خلاف ہے اس لیے ہر آمری معاشرہ غیر فطری معاشرہ ہوتا ہے۔

آزادی اظہار رائے سے پہلے میں صحافت کو بیان کرنا مناسب ہو گا کہ صحافت کسے کہتے ہے۔ کسی بھی خبر کو رپورٹ کرنا اور پھر اس کو نیوز ایجنسی یا ادارے کو دینا یہ صحافت ہے۔

جس طرح میں نے اوپر فلاسفرز کا موقف بیان کیا وہ بھی اپنی جگہ پہ بالکل درست ہے۔ مگر صحافت کے لیے ان دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک سیاست دوسرا جمہوریت ظاہری بات ہے جہاں سیاست ہوگی وہاں جمہوریت بھی ہوگی۔

تو فرض کریں کہ صحافت سیاست اور جمہوریت یہ ایک ٹرائی اینگل ہے۔

اب جہاں پہ جمہوریت ہو گا وہاں صحافی کھل کر بولے گا، سچ لکھے گا مطلب بغیر کسی شخص کے دباؤ کے وہ صحافت کریں گا۔

عمران ریاض اور صحافت

کل سے سوشل میڈیا پہ صحافی عمران ریاض کے گرفتاری متعلق بہت زور و شور سے باتیں جاری۔ اور بہت سے پاکستانی عوام یہی کہ رہے ہیں کہ عمران ریاض کی گرفتاری آزادی اظہار رائے اور صحافت پہ کلہاڑی کے وار کے مترادف ہے۔ میں عدالتی کارروائی۔ ایف ای اے ایف آئی اے کے بارے میں کچھ نہیں کہو نگا مگر میں یہ بات کر رہا ہوں۔ کہ صحافت کا جو تعارف ہے۔ یا آزادی اظہار رائے کے متعلق فلاسفرز کی جو رائے تھی کیا عمران ریاض خان ان اصولوں کو فالو۔ عمل کرتا تھا یا ہے۔ اگر آپ لوگ عمران ریاض کا صحافت دیکھیں تو وہ چند اشخاص تک محدود ہے۔ اور اس نے پورا شو پروگرام پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو وقف کیا ہے۔ وہ ساری باتیں تجزیہ عمران خان کے متعلق کرتے ہیں اور عمران خان کے حق میں کرتے ہیں۔ مطلب عمران ریاض کا سارا صحافت سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اردگرد گھومتی ہے۔

صحافیوں اور آزادی اظہار رائے پہ حملہ

جس اسد علی طور۔ مطیع اللہ جان اور ابصار عالم پہ حملہ ہوا۔ یہ حملہ ان کے ساتھ ان کے صحافت پہ تھا۔ کیونکہ یہ لوگ اصل میں صحافت کرتے ہیں۔ کسی اشخاص کے دباؤ میں نہیں آتے بلکہ کھل کر اور سچ بتاتے ہے۔ اس لیے ان پہ حملہ ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ عمران ریاض کو کیوں گرفتار کیا اس بارے میں میں یہ لکھوں گا۔ کہ یہ جن لوگوں کی سرپرستی اور حکم کے مطابق کام کرتا تھا۔ اور یہ اچانک بدل گیا اور اپنے بڑوں کے خلاف ہو گیا۔ اصل میں عمران ریاض کی گرفتاری یہ جلدی تبدیلی کی وجہ ہے۔ اس سے آگے میں کچھ نہیں لکھوں گا اور اگر کوئی لکھنے کی جرات کر بھی لے تو تحریر اخبار کی زینت کی بجائے ڈسٹ بن کی نذر ہو جاتی ہے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments