پنجاب میں ضمنی انتخابات کا معرکہ


کئی مہینوں کی بے یقینی، آئینی روگردانیوں، اسمبلی کے اندر ہونے والے ہنگاموں اور پھر اسمبلیوں کے دو متوازی اجلاسوں کے بعد بالآخر فیصلہ ہونے لگا ہے کہ پنجاب کی پگ کون پہنے گا۔ پنجاب کی وزارت اعلی کا فیصلہ بیس حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے رزلٹ کریں گے۔ مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی ان بیس حلقوں میں جیتنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ان الیکشن میں جو مسلم لیگ نون پر سرکاری مشینری کے استعمال اور ایجنسیوں پر ان کے حق میں مداخلت کے الزام لگائے گئے ہیں۔

ان ضمنی انتخابات کی بھرپور اہمیت کی وجہ سے جہاں مسلم لیگ نے اپنے وفادار امیدواروں کی قربانی دے کر پی ٹی آئی سے آئے منحرف ارکان کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوئی ہے اور بعض حلقوں میں یہی نظرانداز ہوئے وفا دار ممبران آزاد حیثیت میں کھڑے ہیں اور اپنی پارٹی کے لئے ہار کا سبب بن سکتے ہیں مگر کچھ حلقوں میں ان وفادار ممبران نے پارٹی کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے سابقہ سیاسی مخالفین کی کمپین چلائی ہوئی ہے جس کی ایک مثال چک جھمرہ سے مسلم لیگ کے سابق ایم پی اے آزاد علی تبسم ہیں جو اس پوزیشن میں تھے کہ اگر ان کو ٹکٹ ملتا تو وہ پارٹی کو یہ سیٹ باآسانی دلوا سکتے تھے مگر انھوں نے اپنی پارٹی کی مجبوری کو سمجھا اور پارٹی کے نامزد کردہ اپنے سابقہ سیاسی حریف کی مہم چلانے نکلے ہوئے ہیں۔

اسی طرح پی ٹی آئی نے اس الیکشن کی اہمیت کے پیش نظر اپنے نظریاتی کارکنان کو نظرانداز کرتے ہوئے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے خیال میں عوام میں ان کی مقبولیت کا ووٹ اور الیکٹیبلز کا اپنا ذاتی ووٹ مل کر تمام تر حکومتی کوششوں کو ناکام بنا کر ان کو جتوا سکتے ہیں۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن ایسی ہے کہ مسلم لیگ کو نو سیٹوں پر جیتنا لازمی ہے اس طرح پی ٹی آئی بارہ سیٹیں جیت کر حمزہ شہباز کے نیچے سے کرسی سرکا سکتے ہیں۔

لاہور میں چار حلقوں میں الیکشن ہو رہا ہے جس میں تین حلقوں میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط ہے جبکہ اسد کھوکھر کے حلقے میں مسلم لیگ کی جیت کا امکان ہے۔ اس طرح جھنگ کے اٹھارہ ہزاری والے حلقے میں پی ٹی آئی کے اعظم چیلہ کو سیال شریف، سلطان باہو والوں اور غلام بی بی بھروانہ کی بھرپور امداد کے بعد اس حلقہ میں جیت یقینی ہے جبکہ دوسرے حلقہ میں اسلم بھروانہ اور نواز بھروانہ میں سخت مقابلہ متوقع ہے پنجاب میں باقی جن سیٹوں پر پاکستان تحریک انصاف آگے ہے ان میں بھکر سے عمران خان کے کزن عرفان اللہ نیازی کی سیٹ اور لیہ سے قیصر مگسی کی سیٹ جہاں نون لیگ کا سابقہ امیدوار ریاض گرواں آزاد الیکشن لڑ رہا ہے جس سے قیصر مگسی کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔

اس طرح ڈیرہ غازی خان کی تمن کھوسہ کی سیٹ پر کھوسہ تمن دار و چیف ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سیف الدین کھوسہ سیٹ نکال سکتے ہیں مگر ان کے کزن عبدالقادر کھوسہ بھی مضبوط امیدوار ہیں جن کے والد وہاں سے ایم این اے ہیں جبکہ سابق منحرف رکن محسن عطا کھوسہ الیکشن نہیں لڑ رہے۔ ملتان سے شاہ محمود قریشی یہ شکوہ کرتے نظر آئے کہ ان کو عام انتخابات میں ایک سازش کے تحت ہروایا گیا تھا تاکہ وہ پنجاب کی وزارت اعلی حاصل نہ کر سکیں اگرچہ یہ ان کی خام خیالی ہے کہ وہ جیت کر پنجاب کے وزیراعلی بن جاتے کیونکہ ان کا نام ع سے شروع نہیں ہوتا۔ اب ان کے بیٹے زین قریشی یہ سیٹ باآسانی نکال سکتے ہیں۔

فیصل آباد کی سیٹ پر سابق ایم پی اے آزاد علی تبسم کے پارٹی کے آگے سر تسلیم خم کیے جانے کے بعد اجمل چیمہ اور علی افضل ساہی کے درمیان سخت معرکہ آرائی ہو رہی ہے اور کوئی امیدوار بھی جیت سکتا ہے۔ اسی طرح خوشاب میں مسلم لیگ کے سابقہ ٹکٹ ہولڈر آصف بھا پارٹی سے بغاوت کر کے آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے وہاں بھی مسلم لیگ نون کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس طرح مظفر گڑھ کی دو سیٹوں پر بھی سخت مقابلہ ہے۔ شیخوپورہ میں مسلم لیگ نون کا ووٹ بنک اور ارائیں ووٹ مل کر نون لیگ کے میاں خالد محمود کو جتوا سکتا ہے۔ بہرحال سترہ جولائی کو گھمسان کا رن پڑنے والا ہے اور ان کے نتائج کے بعد پاکستانی سیاست ایک نیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments