کچھ امریکی مریضوں کی باتیں


ڈاکٹر صاحب، میری جنسی اختلاط کی خواہش بہت کم ہوتی جا رہی ہے۔ میں پریشان ہوں، کوئی حل بتائیں؟

یہ سوال میرے امریکہ میں مقیم ڈاکٹر دوست سے کسی تیس یا چالیس سالہ مرد نے نہیں بلکہ ایک 72 سالہ امریکی خاتون نے پوچھا تھا جو اپنے طبی معائنے کے لئے میرے ڈاکٹر دوست کے پاس آئی تھی۔

اس عورت کی آمد کا مقصد اور سوال سن کر کچھ لمحوں کے لئے میرا دوست کرسی سے گرتے گرتے بچا۔ پھر اس نے اپنے آپ کو یکجا کیا اور اس خاتون سے اس کی دیگر بیماریوں، وٹامن اور وہ کیا دوائیاں اس وقت لے رہی ہے، پوچھنے لگا۔

اسی دن میرے دوست نے مجھے فون کیا اور ہنستے ہوئے یہ واقعہ بتایا۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ زندہ دل لوگ ایسے ہی جیتے ہیں۔ وہ ہر پل زندگی کو جینا چاہتے ہیں۔ وہ زندگی کو محسوس کرتے ہیں۔

ان کے لئے اس دنیاوی زندگی کی بہت اہمیت ہے۔ وہ ہر چیز آخرت پر نہیں اٹھا رکھتے۔ ہمارے نبی نے بھی دنیا اور دین دونوں کی ترغیب دی ہے۔ جو اپنی دنیا صحیح نہیں کر سکا، اس کی آخرت بھی بے معنی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ جن معاشروں میں زندگی ہے، موسیقی ہے، آرٹ ہے، شاعری ہے، جہاں رقص و سرور کی محفلیں ہیں، وہ ہی سب سے زیادہ اخلاقیات میں بھی آگے ہیں۔

یہ ہم ہی ہیں جو پچاس ساٹھ سال میں جینا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم اس زعم میں مبتلا ہیں کہ جنت میں سب کچھ کریں گے۔ زندگی کی بہت سی چیزیں اور آسائشیں ایسی ہیں جن کا تعلق نہ دولت سے ہے اور نہ ذرائع سے۔ زندگی کی ان چیزوں کا تعلق معاشرتی اور انفرادی رویوں سے ہے۔

ہمارے معاشرے میں اگر عورت چالیس پچاس کی عمر میں اپنا شوہر کھو دے تو اس پر زندگی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ وہ زندگی کی طرف پھر نہیں لوٹتی۔

کبھی بچوں کا عذر، کبھی معاشرے کا ڈر تو کبھی اپنے باپ بھائیوں کے حکم کی تعمیل میں وہ تنہا عورت اپنی زندگی جی نہیں پاتی۔

وہ چاہتے ہوئے بھی شوخ رنگ کے کپڑے نہیں پہن سکتی اور نہ ہی گہرا میک اپ کر سکتی ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ نہ اپنی گھر کی کھڑکی میں کھڑی ہو سکتی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے باہر جا سکتی ہے۔ اس کی زندگی ایک جبر اور گھٹن کے سائے میں بسر ہوتی ہے۔

تم صحیح کہہ رہے ہو۔ ایک اور مریض کا واقعہ سنو، میرے ڈاکٹر دوست نے بتانا شروع کیا۔ مجھے اب اس کے مریضوں کے بارے میں جاننے کا اشتیاق پیدا ہو رہا تھا۔

ایک 92 سالہ امریکی عورت اپنی 70 سالہ بیٹی کے ساتھ طبی معائنے کے لئے آئی۔ ماں نے کہا ڈاکٹر صاحب میں پچھلے کچھ دنوں سے بہت جلد تھک جاتی ہوں۔ 70 سالہ بیٹی نے 92 سالہ ماں کو کہا کہ موم، یہ تمھاری عمر ہے۔
(it ’s your age, mom) ۔

92 سالہ ماں نے اپنی بیٹی کی اس بات کا برا منہ بناتے ہوئے جواب دیا کہ کچھ دنوں پہلے تک میں بہت اچھا محسوس کرتی تھی۔ یعنی وہ 92 سالہ ماں اپنے آپ کو کسی طور پر بوڑھا نہیں سمجھ رہی تھی۔ اس میں جینے کی لگن تھی۔ اس کو زندگی سے پیار تھا۔ اس کو برا لگا کہ اس کی بیٹی نے اسے بوڑھا کہا اور زیادہ عمر کا کہا۔

ایک اور مریضہ کا سنو، میرے ڈاکٹر دوست نے بتانا شروع کیا۔ پچھلے دنوں ایک 65 سالہ عورت کلینک آئی۔ وہ تھوڑی دیر سے آئی تھی۔ نرس نے پوچھا ڈاکٹر تمھاری مریضہ دیر سے آئی ہے، کیا تم اب بھی اس کو دیکھ سکتے ہو؟

باہر کے ملکوں میں مریض کو اپنے وقت پر آنا پڑتا ہے ورنہ اس کے بعد ڈاکٹر پر منحصر ہے کہ وہ ملاقاتی کو دیکھے یا پھر اس کو دوسرے دن بلائے۔

میں نے کہا میں اس پیشنٹ کو دیکھ لیتا ہوں۔ میں اس 65 سالہ مریضہ سے ملا اور وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگی اور بتانے لگی کہ ڈاکٹر صاحب میں ہائکنگ پر گئی ہوئی تھی اس لئے مجھے دیر ہو گئی۔ میں سیدھی پہاڑ پر ہائیک کر کے یہاں آ رہی ہوں۔

65 سالہ عورت پہاڑ چڑھ کر آئی تھی۔ میں نے اس کے کپڑوں اور جوتوں پر نظر ڈالی۔ وہ انتہائی صاف اور عمدہ لباس میں تھی۔ اس کے جوتے بھی ہیل والے تھے۔

اس سے پہلے میں کوئی سوال کرتا، اس نے خود مسکراتے ہوئے کہا ڈاکٹر یہ کپڑے اور جوتے میں نے اپنی گاڑی میں تبدیل کیے ہیں۔ میں ایسے کیسے پسینے میں بھیگے ہوئے لباس اور مٹی سے اٹے جوتے میں ڈاکٹر آفس آ جاتی۔ اسی لئے مجھے تھوڑی دیر ہو گئی۔

آؤ تمہیں ایک اور مریض کا حال بتاؤں لیکن میں نے فوراً اپنے ڈاکٹر دوست کو روکتے ہوئے بس اتنا کہا ”بس کر پگلے، اب رلائے گا کیا؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments