انسان کو سائی بورگ بنانے کا ایک تجربہ


حال ہی میں، جرمنی کے ہفتہ وار جریدے ”دی سائٹ“ کے ”سائٹ میگزین“ میں چھٹی حس کے نام سے ایک مضمون نظر سے گزرا جس کی طرز پر مندرجہ ذیل مقالہ پیش خدمت ہے۔

ہماری زندگیوں میں کمپیوٹر، انٹر نیٹ، سمارٹ فون اور سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز وغیرہ کے استعمال کے بعد مستقبل قریب میں ایک ”سائی بورگ“ نامی نئی ایجاد متعارف ہوا چاہتی ہے۔

اس مضمون کے جرمن مصنف لکھتے ہیں کہ 20 نومبر 2013 کو وہ امریکی ریاست پینسلوینیا کے شہر پٹسبرگ میں خود سائی بورگ بننے کی متجسسی خواہش، جس سے ان کی ادراکی قوت میں اضافہ مقصود تھا، کے ساتھ ایک پیرسنگ اسٹوڈیو جاتے ہیں۔ وہاں ان کو بیہوش کرنے کے بعد ، انگلی میں ایک چھوٹا سوراخ کیا جاتا ہے اور اس میں ایک میگنیٹ نما چپ ڈال کر سوراخ کو ، سی کر ، بند کیا جاتا ہے۔ یہ ”غیر قانونی“ طریقہ کار تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہتا ہے۔ مصنف کو اس عمل، انسان اور مشین کے امتزاج، یعنی سائی بورگ بننے، کے نتائج اور اس کے پر امید مستقبل، کا انتظار تھا۔

مصنف مزید لکھتے ہیں کہ اسٹوڈیو میں اس موضوع پر مصنوعی ذہانت کے ذریعے مزید تحقیق بھی ہو رہی تھی۔ سائی بورگ کی تشہیر کے لئے اسٹوڈیو اہل کار مظاہرے بھی کر رہے تھے۔ وہ، سافٹ ویئر، ہارڈ ویئر کی مناسبت سے، اپنے آپ کو ویٹ ویر ہیکرز کہتے تھے۔

ان لوگوں کو کامل یقین تھا کہ انسان کے جسم میں، میگنیٹ ڈال کر انسان اور مشین کے ملاپ یعنی سائی بورگ بننے کا مستقبل روشن ہے لیکن وہ اس بات سے بھی خوفزدہ تھے کہ اس مہنگے عمل سے بننے والے سائی بورگ اور قدرتی انسان، ہومو ساپین، کے درمیان ایک نمایاں سماجی تبدیلی نظر آئے گی۔ اہلکاروں کے مطابق اس طریقے کار کو ، عام لوگوں کے لئے آسان اور واجب الادا ہونا چاہیے تاکہ وہ خود اپنے گھروں میں سائی بورگ بن سکیں اور بڑی بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری نہ ہو اور یہ کہ کہیں مستقبل میں انسانی ارتقاء کے نظریات میں انتشار پیدا نہ ہو۔

مصنف لکھتے ہیں کہ سائی بورگ کے متعلق وہ غیر معقول نظریات کے حامی ہیں۔ انہوں نے اس کو ناولوں، سائنس فکشن فلموں اور کمپیوٹر گیمز کی مناسبت سے اہمیت دے رکھی تھی۔ ان کے نزدیک سائی بورگ ایک درمیانی چیز ہے نہ یہ روبوٹر، نہ حیاتیات، نہ جانور، نہ فرشتہ، نہ ایک اور نہ ہی صفر ہے۔ مزید یہ کہ پٹسبرگ جانے سے پہلے ان کو پیشکش ہوئی کہ وہ اپنے ہاتھ میں ایک قابل پروگرام این۔ ایف۔ سی نامی چپ ڈلوائیں تاکہ وہ اپنے دفتر کے دروازے پر سینسر کو چھونے سے اندر داخل ہو سکیں یا پھر انگلی میں میگنیٹ ڈلوائیں جس سے وہ برقی مقناطیسی سطح کو محسوس کر سکیں اور حواس خمسہ کے علاوہ ان میں ایک ادراکی قابلیت، بطور چھٹی حس، کا اضافہ ہو سکے۔ انہوں نے آخر الذکر کو ترجیح دی۔

سائی بورگ کے متعلق سب سے پہلے 1985 میں، ایک ڈونا ہاروے نامی فلسفی نے ایک منشور لکھا تھا۔

جرمن مصنف کے لئے سائی بورگ بننا، انسان اور مشین کا ناقابل واپسی ملاپ ہے اور اس سے انسانی قابلیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ مصنف کی نظر میں، انسانی دل میں پیس میکر لگوانے سے انسان سائی بورگ نہیں بنتا لیکن مصنوعی دل رکھنے والا سائی بورگ کہلائے گا۔ مصنوعی آنکھ، جس سے زوم فنکشن ہو سکے، سائی بورگ آنکھ کہلائے گی اور اسی طرح ایک الیکٹرانک طاقتور دماغ کو سائی بورگ دماغ کہا جائے گا۔

مصنف کو اسٹوڈیو میں ہی اپنی چھٹی حس کو محسوس کرنے کا موقع ملا۔ لیکن ابھی انگلی کا زخم نہیں بھرا تھا اور ان کی انگلی، برقی مقناطیسی سطح کے لئے موزوں نہیں تھی۔ اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت تھی۔ اسٹوڈیو کے ایک اہلکار نے ان کو ، لیپ ٹاپ کی دھات کو ، پٹی سے بندھی ہوئی انگلی سے چھونے کو کہا تو ان کو ایسا لگا کہ ان کی انگلی کھینچی جا رہی ہے۔ ان کے اندر طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے کہ آخر اب وہ کیا ہیں انسان یا مشین۔ اہلکار نے ان کی دماغی کیفیت بھانپتے ہوئے کہا کہ اب وہ ایک مائیکرو ویو پر تجربہ کرتے ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں کہ وہ مائیکرو ویو کے قریب پہنچتے ہیں اور اہلکار کے مائیکرو ویو آن کرنے پر اس کی روشنی میں ایک چمک نمایاں ہوئی اور جونہی میگنیٹ شدہ انگلی محرک کرنے پر ، انگلی میں ایک تیز ترین تھرتھراہٹ ہوئی تو انہوں نے فوراً اپنی انگلی کو واپس کھینچ لیا۔

اور اب جب بھی وہ کسی برقی مقناطیسی سطح کو محسوس کرنے لگیں تو وہ اپنی انگلی پیچھے کر لیتے ہیں۔ انہیں درد وغیرہ کا احساس نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس عجیب جذبے سے نفرت سی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ ان کی انگلی کا میگنیٹ ان کے جسم کے ریشوں کو کھڑکھڑا رہا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے اس جذبے میں کمی آئی ہے۔ اور وہ ہر اس چیز کو محتاط طریقے سے استعمال کرتے ہیں جہاں برقی مقناطیسی سطح ہو۔ وہ لکھتے ہیں کہ کئی بار ایسا ہوا کہ انہیں ان کی ”مصنوعی چھٹی حس“ نے برقی مقناطیسی سطح کی موجودگی کی آگاہی دی۔ جب کبھی وہ فیکٹری میں کسی مشین کے پاس سے گزریں تو ان کی انگلی کھڑکھڑانے لگتی ہے۔ میگنیٹ لگانے کا ، ان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ کبھی کبھی وہ اپنے دوستوں کو ، انگلی سے سوئی کو حرکت کرنے کے جادوئی کرتب دکھاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جسم میں میگنیٹ کا ہونا کوئی فخریہ بات نہیں ہے۔

امریکی کمپنیاں ؛ سنکرون، نیوریبل اور ایلن مسک کی نیورالنک، بی۔ ایم۔ ای نامی برین۔ مشین۔ انٹر فیس پر تحقیق کر رہی ہیں۔ انہوں نے، سوروں اور بندروں کے اذہان میں چپ ڈالنے کے کامیاب تجربے کیے ہیں اور اب وہ انسانوں پر تجربات کریں گی۔ بہر حال سائی بورگ بننا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ایلن مسک کہتا ہے کہ اگر انسانوں کے اذہان میں یہ انٹر فیس نہ ڈالے گئے تو وہ موجودہ مصنوعی ذہانت، جو زندگی کے ہر شعبے میں آ رہی ہے، کے مقابلے میں پیچھے رہ جائیں گے۔ ایلن مسک کے خیال میں ذہن میں چپ ہونے کی صورت میں ایلن مسک کو معلومات مل سکتی ہے کہ کون لوگ اس کی گاڑی خریدنے والے ہیں۔ لیکن ہمارے مصنف اس بات کو بھونگی سمجھتے ہیں۔ مصنف سمجھتے ہیں کہ ان کی انگلی میں میگنیٹ کی وجہ سے جو معلومات انہیں ملتی ہیں وہ فطرتی طور پر ملنے والی معلومات کے مقابلے میں محدود اور تخصیص ہیں۔

پرندے زمینی مقناطیسیت کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں تک پرواز کرنے کے بعد اپنے اصلی ٹھکانے پر بحفاظت واپس آ جاتے ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں کہ جب کبھی وہ اپنی مذکورہ انگلی سے کچھ چھوتے ہیں تو ان کو اجنبیت اور نا خوشگواری کا احساس ہوتا ہے خوشی کا نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جیسے چپ بنانے والی کمپنیاں یا اسٹوڈیو والے ویٹ ویر ہیکرز، سائی بورگ کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ ہر چیز کی ایک حدود مقرر ہے۔ جس سے انسانی تجاوز ممکن نہیں ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”سائی بورگ آنکھ“ کے ذریعے چار نئے رنگوں کے امتزاج کو پرکھا جاسکتا ہے۔
جن لوگوں کو نفسیاتی مادوں کا تجربہ رہا ہے وہ تھکاوٹ کے پر سکون احساس کو جانتے ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں کہ اگر کسی کو کوئی گانا پسند نہیں ہے لیکن اگر اس کے ذہن میں ایک برین مشین انٹر فیس چپ ڈال دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ کسی صوتی سسٹم کی ہیرا پھیری کی وجہ سے اس کے ذہن میں یہ ڈالا جائے کہ یہ گانا اچھا ہے اور وہ اس کو پسند کرنے لگے۔

سائی بورگ نہ صرف ان معلومات، جو سائی بورگ میں داخل ہوتی ہیں، کے وسیع دائرے سے متاثر ہوتا ہے بلکہ اس سے ہمیں اجنبیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جو مواد، غیر شعوری حالت سے اوپر کی سطح پر آ کر ، انسانی شعور میں داخل ہوتا ہے اس کو انسان شاید کنٹرول نہیں کر سکتا۔ لیکن یہی مواد انسان کو خوداعتمادی اور شناخت دیتا ہے۔ اس انسانی احساس کی بدولت انسان اپنے آپ کو عقلمند کہتا ہے۔ لیکن جب کوئی مشین، انسان کو اضافی احساس دے گی تو انسان اپنے عقلمند ہونے کے احساس سے محروم ہو جائے گا۔

آخر میں مصنف لکھتے ہیں کہ ان کی انگلی میں میگنیٹ نے انہیں جنونی نہیں بنایا اور نہ ہی اس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں اور نہ ہی وہ اس کو انگلی سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ، ایک ناخوش گوار آپریشن کے ذریعے نکالنے سے بہتر ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ وہ ایک سائی بورگ ”ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments