دوزخ کے راستے سے واپسی


جوں جوں دن گزر رہے ہیں یہ حقیقت واضح ہوتی چلی جا رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو امریکی ایماء پر گرایا گیا تھا۔ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کھیل میں کس حد تک متحرک رہی، اس ’سازش‘ یا ’مداخلت‘ کے اسباب یا محرکات اب بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ صدر کلنٹن کے دور صدارت سے لے کر عمران حکومت کے گرائے جانے تک کیپٹل ہلز میں یہ تصور راسخ ہو چکا تھا کہ پاکستان مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا ایک سبب ہے۔

افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول اور چین کے مقابلے میں بھارتی اجارہ داری کی راہ میں کسی اور کو نہیں پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ہی رکاوٹ سمجھا گیا۔ چنانچہ کبھی کیری لوگر بل کی شکل میں گاجر تو کبھی وقتاً فوقتاً مختلف نوعیت کی پابندیوں کے ذریعے چھڑی کا استعمال کیا جاتا رہا۔ جنرل مشرف کی روانگی کے بعد جب نئی عسکری قیادت پہلے والوں سے زیادہIndia Centric نکلی تو امریکہ کے زیر اثر ایک غیر مرئی جنگ کا آغاز کیا گیا۔

پریس بریفنگز میں گرافس اور چارٹوں کی مدد سے سمجھایا گیا کہ اس جنگ کو ’ففتھ جنریشن وار‘ کہتے ہیں۔ سال 2008 ء کے بعد سے ملک کے اندر سول ملٹری کشمکش کے ساتھ ساتھ یہ جنگ بھی جاری رہی ہے۔ عمران خان سیاسی منظر نامے پر سماجی ارتقا کے نتیجے میں ابھرے تو چاروں طرف سے مخالفین میں گھری ہوئی اسٹیبلشمنٹ کے لئے گویا وہ آسمان سے بھیجی نعمت خداوندی ثابت ہوئے۔ اس میں شک نہیں کہ انہیں اقتدار میں لانے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جسے اپنے مخالفین کے حق میں استعمال کیے جانے کی بناء پر آج پی ٹی آئی شاکی ہے۔ عمران خان نے حکومت سنبھالی تو بھی ان کے مخالفین کی تمام تر طعنہ زنی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پر کھڑی رہی۔

صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالا تو ابتدائی امریکی تکبر کے اظہار کے باوجود پاکستان کے باب میں ان کا طرز عمل مجموعی طور پر احتیاط پر مبنی تھا۔ ایک سخت ٹویٹ کا جواب پاکستانی وزیراعظم نے ترکی بہ ترکی دیا تو حیران کن انداز میں برف پگھلنے لگی۔ جلد ہی امریکی دورے کی دعوت انہیں براہ راست وائٹ ہاؤس سے موصول ہو گئی۔ صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات سے عین ایک روز قبل واشنگٹن میں ہزاروں امریکی پاکستانی واشنگٹن میں عمران خان کا خطاب سننے کے لئے جمع ہو گئے تو ماحول یکسر بدل گیا۔

اسی دورے میں ہمارے آرمی چیف بھی ساتھ تھے کہ پینٹاگان میں جن کا غیر معمولی استقبال کیا گیا۔ متعدد عوامل کی بنا پر عمران خان کی طرف سے اپنے اس دورے کو ورلڈ کپ کی فتح سے تشبیہ دیے جانا قابل فہم تھا۔ امریکی حکومت اور مقامی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ جبکہ اپوزیشن بے دست و پا کھڑی تھے۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑی تھی؟ صدر ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کے بر عکس افغانستان سمیت دنیا بھر سے امریکی افواج کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نعرہ لگایا۔ تاہم صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا تو تمام تر مقبولیت کے باوجود صدر ٹرمپ شکست کھا گئے۔ غیرمرئی ہاتھ ان کی جگہ معروف معنوں میں ایک ’سیلیکٹڈ صدر‘ کو برسر اقتدار لانے میں کامیاب ہو گئے۔

افغانستان سے انتہائی ہتک آمیز پسپائی کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ مشتعل دکھائی دی تو کئی مقامی مہرے بھی اپنی خدمات پیش کرنے کو بے چین نظر آنے لگے۔ لندن میں ملاقاتوں اور پاکستان کے اندر مغرب زدہ میڈیا اور امریکی لابیوں کی کارروائیوں میں یکا یک تیزی آ گئی۔ دوسری جانب عمران خان موقع کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ مبینہ طور پر اس کھیل کا حصہ کیوں کر بنی؟ تمام تر قیاس آرائیوں کے باوجود میں اب بھی حسن ظن رکھتا ہوں کہ سازش یا مداخلت کے جو اہداف امریکہ کے پیش نظر تھے، ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ہر گز مطلوب و مقصود نہیں ہو سکتے۔ چین ہمارا اچھے برے وقتوں کا آزمودہ ساتھی ہے۔ چین سے دوستی کی قدرو قیمت ہمارے سلامتی کے اداروں سے زیادہ کون جانتا ہے؟ چنانچہ گمان یہی ہے کہ امریکی دباؤ سے قطع نظر، کئی دیگر عوامل کی بناء پر گزرتے دنوں ادارے کے اندر خود تبدیلی کی سوچ پنپنے لگی ہوگی اور عمران خان ایک بوجھ محسوس ہونے لگے ہوں گے۔

پاکستان کی معاشی صورت حال کبھی بھی ایسی نہیں رہی کہ آزاد خارجہ پالیسی کے نام پر مغربی دنیا سے مخاصمت مول لئے جانے کے قابل ہوا جا سکے۔ گزشتہ عشرے دو عشرے سے ہماری معیشت متعدد وجوہات کی بناء پر اس قابل بھی نہ رہی تھی کہ دفاعی بجٹ میں افراط زر کے حساب سے بھی اضافہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف اقتصادی ترقی کی منازل پھلانگتا بھارت، اسی تناسب سے بڑھتے بھارتی دفاعی اخراجات اور انتہا پسند مودی کے جارحانہ عزائم خطے میں تشویش ناک صورت حال پیش کر رہے تھے۔ مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر ہمیں للکار نے لگا تھا۔ جبکہ اس بیچ ہم جانتے ہیں کہ جدید جنگوں میں ٹینک اور توپیں محض دعاؤں سے نہیں چلتے۔

جنرل آصف نواز آرمی چیف بنے تو انہوں نے افغانستان کے باب میں لگ بھگ وہ تمام اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا جو بالاتفاق امریکی اہداف سے بھی میل کھاتے تھے۔ عسکری جتھوں سے انہوں نے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نپٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے علاوہ دونوں ممالک کی افواج میں تعلقات کار کو معمول پر لانے کے اقدامات شروع ہو چکے تھے۔ سپہ سالاروں کی ملاقات اور باہم دوروں جیسی تجاویز زیر غور تھیں۔

گمان یہی ہے کہ کئی عوامل کی بناء پر کسی نا کسی درجے میں جنرل آصف نواز والی سوچ اب بھی کہیں نہ کہیں پنپ رہی ہو گی۔ تاہم مرحوم جنرل کی آزادانہ سوچ کے برعکس قیاس یہی ہے کہ موجودہ فکر کے پس پشت کچھ مجبوریاں، کچھ خدشات بھی کارفرما رہے ہوں گے۔ ڈانلڈ لو نے دھمکی ایک دن کھانے کی میز پر بیٹھے بیٹھے اچانک ہی تو نہیں دے دی ہو گی۔ یقیناً اس سے پیشتر کئی پس پردہ ملاقاتوں میں عمران حکومت برقرار رہنے کی صورت میں پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا تذکرہ ہوا ہو گا۔

انگریزی محاورے کے مطابق دوزخ کو جانے والا راستہ نیک نیتی اور اچھی خواہشات پر استوار ہوتا ہے۔ عمران حکومت کو گرانے میں عوامی رد عمل یوں آئے گا، کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب صورت حال کو سنبھالا جائے۔ موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لئے عام انتخابات کی تاریخوں کے فی الفور اعلان کے سوا اب کوئی چارا نہیں۔ کیا یہ کوئی غیر جمہوری یا غیر منطقی مطالبہ ہے؟ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے نتیجے میں جو بھی حکومت قائم ہو، تمام دوررس فیصلے اس پر چھوڑ دیے جائیں۔ جبکہ تمام فریقین بشمول اسٹیبلشمنٹ پر لازم ہے کہ نو منتخب حکومت کے ساتھ ہر قسم کے دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھر پور تعاون کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments