اپنی مرضی کا سچ بولنا کیا صحافت ہے؟


پاکستان میں صحافت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر کے مطابق پاکستان کا شمار آزادی صحافت کے لئے دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ صحافیوں کا لا پتہ ہونا، سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹریولنگ ہونا اور پھر پیکا جیسے قانون کا آنا۔ یہ سب بھی پاکستانی صحافیوں کو منہ چڑھاتے رہے ہیں ابھی یہ کام چل ہی رہا تھا کہ ہماری صحافتی برادری نے بھی ٹھان لی سچ بولنے کی اور سچ بھی وہ جو ان کی مرضی کا ہو گا۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
”میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا ”۔

جس کو جیسے مناسب لگتا وہ من پسند سچ بولنے لگا۔ اتنا سچ کہ پھر یہ لوگ محب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ تک تیار کرنے لگے اور خود ہی محب الوطنی کا معیار بھی سیٹ کر لیا۔ اب ذمہ داری زیادہ ہو گئی سچ بھی بولنا ہے، غداری اور محب الوطنی کا معیار بھی بتانا ہے۔ کسی کا منجن نہ بکے تو اس نے بھی سچ بولنے کی ٹھان لی میں نے اوپر شعر میں کارواں کا ذکر کیا ہے یہ وہ ہی کارواں ہے جو بنتا گیا۔

کچھ صحافیوں کا سچ جو کسی اور کو پسند نہ آیا تو کبھی لڑکی کے بھائی آئے، کبھی کسی کو زبردستی اٹھا لیا گیا اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود بھی آج تک نہیں پتا کون اغوا میں ملوث تھا، کبھی کسی کے گھر گھس کر مار نے آئے سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود نہیں پتا وہ کون تھا۔ کبھی کسی کو مین اسٹریم میڈیا سے ہٹایا گیا اور کیوں ہٹایا گیا کس کے کہنے پر یہ بھی آج تک نہیں پتا کہ وہ کون تھا۔

اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کے بعد یوٹیوب بھی میڈیا کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے جہاں پر بہت سے صحافی اچھا کام کر رہے ہیں وہاں پر ہماری سرٹیفکٹ برادری بھی شامل ہے (وہ صحافی ہیں ) انھوں نے متاثرہ صحافیوں کو لیکچر کے ساتھ ساتھ سرٹیفکیٹ بھی دینا ہوتا ہے۔

اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی یہ وہ وقت تھا کہ حق و سچ کی لڑائی اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ صحافی برادری میں حکومتی اور اپوزیشن کے ترجمان بھی واضح نظر آنے لگے۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور پھر ترجمان میرا مطلب ہے صحافی نقصان اور فائدے بتاتے نظر آئے۔ جو جذبہ و جنون صحافیوں میں تھا وہ تو اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن میں بھی نہیں تھا۔

سیاسی جماعت نے ایک بیانیہ بنایا جو ان کا حق تھا ( سچ بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی) اس بیانیے کا ساتھ صحافی برادری نے بھی دینا شروع کر دیا اس بیانیے کو بیان کرتے کرتے جن کے لئے سچ بولتے تھے ان کا ہی سچ بولنے لگے۔ اب کیوں کہ بازی پلٹ چکی تھی اور سچ کا معیار بھی۔ پھر صحافی برادری پر مقدمے ہونے لگے۔ جن جن کو عدالتوں کے 12 بجے کھلنے پر اعتراض تھا ان ہی کے لئے 12 بجے عدالتیں کھلیں اور ضمانتیں ہوئی ( 9 اپریل کو عدم اعتماد والے دن اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کھلیں تھیں ) ۔

ایف آئی آر درج ہوتیں رہیں عدالتیں صحافیوں کو ضمانت قبل از گرفتاری دیتی رہیں اور پھر وہ دن بھی آ گیا کہ سچ بول بول کر اداروں کو للکارنے والوں میں سے ایک کو پولیس نے گرفتار کر لیا عدالت پھر اہمیت اختیار کر گئی عدالتوں نے بھی کبھی ایک کورٹ کبھی دوسری تو کبھی تیسری کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ دیا۔ عمران ریاض اس وقت جیل میں ہیں اور مذمت بھی ہو رہی ہے لیکن صحافیوں کے ایک صفحے پر نہ ہونے کی وجہ سے حکومت پر پریشر نہیں ہے اور الٹا بحث یہ ہے کہ عمران ریاض صحافی نہیں تحریک انصاف کے سپورٹر ہیں۔

آج بھی بہت سے ہمارے صحافی اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں کہ ہمارا کام خبر دینا ہے نہ کہ خواہشات کو خبر بنا نا اور نہ کسی کی ترجمانی کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments