روداد سفر حصہ 29


دو تین دن بعد سردار صاحب بالکل مطمئن ہو گئے کہ وہ تندرست ہو رہے ہیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے کی تکلیف بھی اب بہت ہی کم ہے۔ یعنی شاید صرف کچھ جلن ہی تھی اور ان کے ویزے کی میعاد بھی ختم ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے واپسی کا پروگرام بنایا۔ سردار صاحب نے خواہش کا اظہار کیا کہ کل صبح میں اور تم دونوں باہر گھومیں گے کہ پاکستان سے سفر کر کے اتنی دور میں آ گیا ہوں اور ہسپتال کے علاوہ باہر نکل کر کچھ دیکھا ہی نہیں۔

ظاہر ہے واپسی پر لوگ ملنے آئیں گے تو انہیں صرف ہسپتال ہسپتال ہی تو نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے دوسرے دن صبح میں اور سردار صاحب باہر نکلے کہ کچھ پیدل چل کر اردگرد کی خبر لیں کہ سردار صاحب ہسپتال، ڈاکٹر، نرس کے علاوہ بھی کچھ چائنا کو دیکھ لیں۔ باہر نکلنے سے پہلے ہسپتال کے استقبالیہ کاؤنٹر سے ہسپتال کا ایڈریس میں نے نرس سے چائنیز زبان میں کاغذ پر لکھوا لیا کہ اگر کہیں راستہ بھول جائیں، کہیں گم ہو جائیں تو کسی کو دیکھا کر واپس پہنچ جائیں۔

ویسے ہی اردگرد مٹر گشت کرتے رہے۔ سردار صاحب کا کچھ اپنی فیملی کے بچوں کے لیے چیزیں لینے کا پروگرام بن گیا۔ لیکن جس چیز پر ہاتھ رکھتے اور قیمت کو پاکستانی روپوں میں ضرب دیتے تو پتہ چلتا کہ اس سے کم قیمت میں کراچی میں مل جاتی ہے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے سردار سعادت صاحب کو فون کر کے کہیں وہ کراچی سے یہ چیزیں لے کر ائر پورٹ آپ کو دے دیں، آپ سب کو بتا دیجیے گا کہ ان کے لیے لے کر آئے ہیں۔ چیزیں وہ بھی جو کراچی میں مل رہی تھیں چائنا ہی کی بنی تھیں لیکن کسی چیز کی ریٹیل قیمت کسی علاقے سٹینڈ آف لونگ پر منحصر ہوتی ہے۔

خیر چلتے چلتے ایک جگہ دو نوجوان ایغور مسلمان راستے میں ملے جو ڈرائے فروٹ کی ریڑھی لگائے تھے جس پر بادام، پستہ، خشک انگور اور ایک شہد میں بنا سخت سا حلوہ تھا جس کے اوپر ڈرائے فروٹ لگے ہوئے تھے، اسے آپ سون حلوہ کہہ لیں۔ سردار صاحب نے پوچھا یہ کون ہیں میں نے انہیں بتایا کہ یہ ایغور مسلمان ہیں چائنا کے سنکیانگ کے علاقے کے ہیں جو پاکستان کے بارڈر کے ساتھ ہے۔ یہ سردار صاحب کی کسی ایغور سے پہلی ملاقات تھی۔

ان سے السلام علیکم کہا اور جواب سے سردار صاحب بھی بہت خوش ہوئے۔ میں نے ان بھائیوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہوٹن کے علاقے کے ہیں اور روزی رزق کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔ دن کو یہ ڈرائے فروٹ بیچتے ہیں اور شام کو کسی بارونق جگہ پر سیخ کباب اور ساتھ نان لگاتے ہیں۔ لیکن سیخ کباب کا کام تھوڑا مشکل ہے کہ پولیس کوئلے کی دھواں کی وجہ سے انہیں تنگ کرتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا تو سیخ کباب کے لیے حلال گوشت کہاں سے لے کر آتے ہیں انہوں نے بتایا کہ حلال گوشت دوسرے علاقوں سے فریز ہوا آتا ہے وہ خریدتے ہیں۔

کیونکہ اس علاقے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ میں نے تفصیل جانی کہ وہ اپنے علاقے سے اتنی دور کیوں آ گئے تو بتایا کہ وہاں روزگار کے مواقع کم ہیں جبکہ یہاں آبادی زیادہ ہے اور لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسہ بھی ہے۔ دوسرا اس ڈرائے فروٹ کی پیداوار زیادہ تر سنکیانگ ہی کی ہے اس لیے اسے بیچنے کا کام یہ عرصے دراز سے کر رہے ہیں۔ اور سیخ کباب اور نان تو ڈش ہی سنکیانگ کی ہے یہ ان چائنیز کے لیے نیا ذائقہ ہے جسے یہ پسند کرتے ہیں۔

سیخ کباب بھیڑ بکری کے گوشت کے لگائے جاتے ہیں اور یہ گوشت عام چائنیز کی غذا میں شامل نہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ انہیں اس سے بو آتی ہے۔ زیادہ دیر تک ہم بھی انہیں روک نہیں سکتے تھے کہ کوئی اور متوجہ ہو جائے یہ میرا نظریہ تھا کیونکہ میں عرصے سے چائنا میں مقیم تھا یہ باتیں سمجھتا تھا۔ ان سے کچھ چیزیں خریدیں اور ہسپتال واپس آ گئے۔ واپس آ کر میں نے تفصیلاً سردار صاحب کو بتایا کہ یہ چائینیز مسلمان ہیں اور ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں الگ زبان رکھتے ہیں اور اپنی شناخت کے گم ہونے کے معاملے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں۔

شام کو مسٹر وانگ آئے تو سردار صاحب کو جو چیزیں ضرورت تھیں ان کی لسٹ ان کے حوالے کر دی۔ کچھ چیزیں مسٹر وانگ اور کچھ چیزیں مسٹر چھن اگلے دن لے آئے۔ سردار صاحب کی فلائٹ ایک دن بعد کی تھی۔ ان کا مسئلہ حل ہو چکا تھا اور مسٹر وانگ کا کام بھی ہو گیا کہ جو انویسٹر چاہیے تھے وہ آ کر سردار صاحب سے ملے اور ان کی لیز کے وزٹ کے لیے تیار تھے جن کے ویزوں کا بندوبست مسٹر وانگ کر رہے تھے۔ آخری دن ایک صاحب مسٹر وانگ کے ساتھ آئے جنہیں مسٹر وانگ نے بتایا کہ سردار صاحب کے گاؤں میں ایک کنواں ہے جہاں سے مٹی نکالی جاتی ہے جس میں چاندی کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔

سردار صاحب نے بتایا کہ بہت عرصے سے لوگ وہاں سے چاندی نکال رہے ہیں۔ وہ صاحب بھی راضی ہو گئے کہ وہ بھی اس کا وزٹ کریں گے اور اس پروجیکٹ پر کام کریں گے۔ ویسے مجھے اس وقت بھی حیرت ہوئی کہ اگر یہ سب کچھ اتنی آسانی سے سردار صاحب کے گاؤں سے نکل رہا ہے جیسا کہ مسٹر وانگ سب کو بتا رہے ہیں تو اس کے لیے چائینیز اتنے زیادہ لوگ لے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کام کیا پاکستان میں کوئی کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ان سب ملاقات کرنے اور سائٹ کے وزٹ کے لیے جانے کا ارادہ کرنے والوں میں مجھے کوئی بھی اپنی فیلڈ کا ماہر نظر نہیں آیا۔ سارے میرے خیال میں وہی تھے جن کے پاس سرمایہ تھا اور اس سرمائے سے کسی خزانے کی تلاش کا کام، جس کا نقشہ مسٹر وانگ کے پاس تھا اور وہ نقشہ سردار صاحب کی لیز کی گئی زمین کا تھا۔

میرا کام بھی ختم ہو گیا، مسٹر چھن نے مجھے بھی دو گفت دیے اور رابطے میں رہنے کو کہا۔ میں نے شام ٹرین کا ٹکٹ بک کرایا اور سب سے اجازت لے کر واپس اپنے شہر ایوو کی طرف چل پڑا۔ ایوو ہمارے لیے ایسا ہی تھا جیسے میرا گاؤں جس کی ہر گلی محلہ میرا اپنا ہے۔ اتنا عرصے رہنے کے بعد یہی احساس ہوتا تھا کہ ایوو پہنچتے ہی اپنے شہر میں پہنچ گئے ہیں۔ اسٹیشن سے بس پکڑی اور اپنی کالونی کے اسٹاپ پر اتر گیا۔ گھر داخل ہوا تو رات کافی ہو چکی تھی۔

بیٹی حنا سوئی ہوئی تھی سب سے پہلے اسے پیار دیا اور اس نے بھی بند آنکھوں سے اپنے بازوؤں سے مجھے پکڑ لیا اور مجھے بند آنکھوں ہی سے پیار دیے۔ خدا بیٹیوں کی نعمت بھی کسی کسی کو دیتا ہے جو پیار ایسے کرتی ہیں کہ بس دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور ساری پریشانیاں بھول جاتی ہیں۔ بیوی ماریا نے بتایا کہ کافی دیر سے حنا میرا انتظار کر رہی تھی کہ بابا واپس آنے والے ہیں۔ میں حنا بیٹی سے لپٹ گیا اور بیوی کھانا گرم کرنے لگی۔

اس نے چاول گوشت کی یخنی میں آلو ڈال کر بنائے تھے۔ حنا بیٹی سو گئی میں نے نہا دھو کر کپڑے بدلے اور کھانے کے لیے بیٹھا اور اپنی کارکردگی اپنی استانی بیوی ماریا کو سنانے لگا۔ اور وہ اس لحاظ سے ایک ایک تفصیل پوچھ رہی تھی کہ وہ خود چائنیز تھی اور وہ چاہتی تھی کہ میں ان لوگوں سے اگر معاملات کر رہا ہوں تو ان کے مزاج کو سمجھوں۔

اگلے دن صبح میری پیاری بیٹی حنا نے مجھ سے کہا کہ بابا آج کا دن میرا ہے اور آپ نے کہیں بھی کام پر نہیں جانا۔ میں نے صرف اتنی اجازت چاہی کہ آپ نہا دھو کر تیار ہو جاؤ میں سبزی وغیرہ لے کر آتا ہوں پھر اکٹھے پارک چلیں گے۔ میں سبزی منڈی سے وہ ساری سبزی کے کرا گیا جو ہمیں پسند تھیں، گوشت، مچھلی بھی، رات ہوکو ( چائنیز ہاٹ پاٹ ) کا پروگرام بنا لیا۔ یہ ہوکو ایسی ڈش ہے کہ پہلے مصالے وغیرہ بھون لیے جاتے ہیں پھر انہیں ایک بڑے برتن میں ڈال کر ہیٹر پر رکھ دیا جاتا ہے اور پانی اور وہ بھنے ہوئے مصالے اس میں ڈال دیے جاتے ہیں پانی گرم ہونے پر گوشت کی باریک کاٹے ہوئے ٹکڑے اور سبزی ساتھ ساتھ ڈالی جاتی ہے اور جو جو نیم پک جاتی ہے ساتھ ساتھ گرم گرم کھاتے جائیں۔ اس سبزی میں مشروم کی دو تین اقسام، بروکلی، پالک، آلو، شکر قندی، اور جو آپ کو پسند ہے شامل کرتے جائیں اور ساتھ ساتھ اس کا شوربہ بھی پیتے جائیں۔ میری بیوی ماریا نے اپنی سہیلی ( Ying Ying ) کو بھی بلا لیا جو اس عراقی کے آفس میں کام کرتی تھیں جس کی تین ماہ کے معاہدے والی ازبک یا تاجک بیوی تھی۔

رات کو کھانے کی میز پر ین ین سے میں نے اس کے قبول اسلام کے متعلق پوچھا۔ تو اس نے بتایا کہ اس کا تعلق صوبے ہیلون جانگ سے ہے۔ یہ صوبہ اوپر رشیاء کے ساتھ اور دوسری طرف شمالی کوریا کے قریب ہے۔ یہ علاقہ کسی دور میں ہیوی انڈسٹری کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ شدید سرد علاقہ ہے یہ ان علاقوں میں شامل ہے مینچوریا ریجن کہا جاتا ہے۔

وہ ایک ایسی فیملی سے تعلق رکھتی ہے جو بروکن فیملیز کہلاتی ہیں۔ بچپن ہی میں اس کے والدین کی آپس میں علیحدگی ہو گئی اور اس کی پھوپھو نے اس کی پرورش کی۔ والد نے الگ شادی کر لی اور والدہ نے الگ اور درمیان میں وہی سب سے زیادہ نقصان میں رہی کہ وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے اور یہ بے گھر۔ کیسے یہ تکلیف دہ وقت گزرا یہ وہی جانتی ہے۔ پھوپھو بہت اچھی ہے لیکن جو پیار والدین خود اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔

اس جدائی اور محرومی نے اس کی نفسیات پر بہت گہرا اثر ڈال۔ اس احساس محرومی نے ایک خلاء پیدا کیا جسے اس نے ہر طرح سے بھرنے کی کوشش کی۔ اور ایوو آنے کے بعد اس کا تعارف اسلام سے ایسے ہوا کہ وہ کسی مسلمان کی کمپنی میں کام کرتی تھی اور اس مسلمان کو نماز پڑھتے دیکھتی تھی۔ ساتھ ہی ایک دو بار وہ اس کے ساتھ جمعہ والے دن مسجد بھی گئی اور مسجد میں ایک ساتھ اتنے لوگوں کو ایک خدا کے سامنے جھکتے پہلی بار زندگی میں دیکھا۔

اس نے بتایا کہ بس وہ عجیب سی کیفیت تھی کہ اتنے لوگ ایک ہی وقت میں اکٹھے ایک خالق کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور اس بات نے میرے اندر تجسس پیدا کیا کہ یہ کون ہیں۔ دوسری بار جب مسجد گئی تو خود عورتوں والے حصہ میں ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ نماز تو اسے آتی نہیں تھی بس جب سب کے ساتھ سجدے میں گئی تو وہ خالق مجھے سرگوشی کرتا محسوس ہوا۔ وہ عجیب اطمینان کی کیفیت تھی سکون تھا جس کی تلاش مجھے عرصہ دراز سے تھی۔

اس وقت مسجد کے باہر اسٹال پر اسلام کے متعلق کتب بکتی تھیں جو بعد میں سختی سے ہٹا دی گئیں، وہاں اسٹال سے ترجمہ قرآن اس نے خریدا تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنی سی انتہائی کوشش کی اسلام کو سمجھنے کی۔ اور اس خدا کے احساس نے کہ وہ ہر وقت اس کے ساتھ ہے، اس کی مدد کرتا ہے اور اسے تسلی دیتا ہے کہ تم اکیلے نہیں ہو میں ہر لمحے مدد کے لیے دلجوئی کے لیے تمہارے ساتھ ہوں۔ میں خالق ہو میں ہی پالن ہار ہوں، اس احساس نے اسے بہت سکون اور اطمینان دیا۔

اسی لیے وہ روزانہ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھتی رہتی ہے اور انٹرنیٹ پر جو معلومات میسر ہیں دیکھتی رہتی ہے۔ کھانے کے بعد میں نے سبز قہوہ بنایا اور ہم نے اکٹھے پیا اور محفل برخاست ہو گئی۔ اس دوران میری بیٹی ین ین سے یہی ضد لگائے تھی کہ خالہ تم نے میرے ساتھ سونا ہے۔ بابا دوسرے کمرے میں سو جائیں گے۔ پھر حنا بیٹی نے اپنی خالہ کو رات جانے نہیں دیا۔

کیسے، کب اور کون سا آپ کا عمل کس کو خالق اور مقصد زندگی کی طرف متوجہ کر لے۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آپ کے اس عمل کرتے وقت اسے دیکھنے والے کی دلی کیفیت کیا ہے۔ شاید وہی وقت ہو کہ آپ کے عمل سے دیکھنے والے کی التجاء کا جواب خدا دے رہا ہو کہ جسے تم ڈھونڈ رہے تھے تو وہ یہاں ہے، جو کچھ تم مجھے سے طلب کر رہے تھے سکون، اطمینان، مقصد، تمہارے سوالوں کے جواب وہ تو یہاں میرے اس بندے کے پاس ہیں اس سے پوچھ لو، یہ میرا پتہ تمہیں بتا دے گا۔

وہیں آپ کا ایک غلط عمل اس خالق کے تعارف کو کیسا بنا دیتا ہے یہ شاید کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو۔ اور سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے تلاش کرنے والے کو میں نے تمہارے پاس بھیجا اور تم نے میرا اس سے کیا تعارف کرایا۔ جواب تیار رکھیں۔ کہ یہ امتحان کا پرچہ روزانہ آپ کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے اور آپ کو اور آپ کے سامنے آنے والے، دونوں کو وہ پرچہ اپنے اپنے حساب سے حل کرنا ہوتا ہے۔ پھر ایک روز ممتحن اسے چیک کر کے نمبر بھی لگا دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments