نشور واحدی، اردو کے آخری رومانوی شاعر


ترا کام سیر مدام ہے نہ کہ گلستانوں میں ٹھہرنا
یہ کلی کلی کے فریب میں تو کہاں سے باد سحر پڑی
تجھے کیا ہو قدر ملال کی تو ہے نا رسیدۂ زندگی
جو بہت پھرے ہیں گلی گلی تو جبیں پہ گرد سفر پڑی

نشور واحدی ( 1912۔ 1983 ) یوپی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے جونپور میں عربی اور فارسی اور الہ آباد میں اردو کی تعلیم حاصل کی اور کانپور میں عربی اور فارسی کی تعلیم بھی دی۔ انہوں نے 13 سال کی عمر میں فارسی میں شاعری شروع کی لیکن بعد میں اردو شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے۔ وہ سودا، میر اور فانی بدایونی سے متاثر تھے۔

انہوں نے جگر مراد آبادی کے ساتھ مشاعروں میں اپنی شاعری پڑھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار مشاعرہ میں جگر مراد آبادی شاعری پڑھ رہے تھے اور انہوں نے وقفہ کرنا چاہا۔ اس وقفے کے دوران نشور نے اپنا کام پڑھنے کی پیشکش کی۔ ان کی شاعری کو اس قدر پذیرائی ملی کہ اس کی وجہ سے اردو ادبی حلقوں میں ان کی پہچان ہوئی۔

شعری مجموعوں کے علاوہ، ان کی تحاریر میں فلسفہ بھی شامل ہے، جس میں وہ جدیدیت، مذہب، مذہبیت اور علم کی تعمیر کے تعلقات کو تلاش کرتے ہیں۔ وہ علم/دنیا تک رسائی کے چار طریقے بیان کرتے ہیں : متقیوں کے لیے عمل صالح، سیاسی سوچ رکھنے والوں کے لیے جنگ و جدل، متکبروں کے لیے انا، اور دور اندیشوں کے لیے وحدت۔ اپنے فلسفے میں وہ وحدت کو روحانیت، انسانی زندگی اور کائنات کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے ایک غیر مرئی، متحرک قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس فلسفیانہ انداز کو وہ انقلاب وحدت کہتے ہیں۔

ان کی غزلوں میں سے مزید چند اشعار درج ذیل ہیں :

مے خانے میں بڑھتی گئی تفریق نہاں اور
شیشے کا بیاں اور ہے ساقی کا بیاں اور
انکار حقیقت بھی ہے اک سیر حقیقت
ہوتا ہے یقیں اور تو بڑھتا ہے گماں اور
اس درجہ بھی مایوس نہ دیکھی تھیں بہاریں
دنیا میں ہیں اے دوست بہت ملک خزاں اور
ہر گام نشورؔ آبلہ پائی کا ہے عالم
کچھ دور ہے یہ قافلۂ درد رواں اور
تغیرات کے عالم میں زندگانی ہے
شباب فانی، نظر فانی، حسن فانی ہے
تمام عالم ہستی پہ حکمرانی ہے
مرا جہان ہے جب تک مری جوانی ہے
میں شاد ہوں تو زمانے میں شادمانی ہے
شراب لاؤ کہ عالم تمام فانی ہے
ترا جمال فسانوں میں رنگ بھرتا ہے
ترے شباب سے دل کش مری کہانی ہے
زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
جو مطمئن ہوا وہ پریشاں نہ ہو سکا
قید خودی میں آدمی انساں نہ ہو سکا
ذرہ سمٹ گیا تو بیاباں نہ ہو سکا
مرنا تو ایک بار ہوا سہل بھی مگر
جینا کسی طرح کبھی آساں نہ ہو سکا
مستقبل حیات کے عرفاں سے میں نشورؔ
اس دور پر فریب کا انساں نہ ہو سکا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).