میں نے کراچی ڈوبتے دیکھا


جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے کراچی کی ہر اہم شاہراہ، پاکستان کی تجارت کا مرکز سمجھے جانے والے کاروباری علاقے اور بیشتر رہائشی بستیاں برساتی پانی میں ڈول رہی ہیں۔

مجھے اس گھسی پٹی بحث میں پڑنا ہی نہیں کہ کراچی پورٹ سٹی ہے، کراچی پورے پاکستان سے زیادہ ریونیو دیتا ہے، ہر روزگار کی تلاش میں آنے والے محنت کش کو اپنا لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب کو علم ہے۔ خود کو معلومات کا خزانہ اور دیگر کو کم عقل خیال کرنا ہم جیسے عام بلکہ احقر لکھنے والوں کا شیوہ ہی نہیں، اس کے لئے نوجوانوں کا پسندیدہ رہنما ہونا لازمی ہے۔

عرض یہ ہے کہ شہر اینٹ گارے سے نہیں بستے، انسانوں سے آباد ہوتے ہیں۔ کراچی کی تاریخ بھی ذرا سی گوگل سرچ سے دستیاب ہو جاتی ہے، مچھیروں کا گاؤں، برٹش راج کی بندرگاہ، پاکستان کا پہلا دارالحکومت جو بارہ سال بعد 1958 میں راتوں رات اس اعزاز سے محروم کر دیا گیا تھا تاکہ ملکی معاملات میں خلیفہ گیری کرنا آسان ہو جائے۔

خیر، جو ہوا سو ہوا۔ شہر پھر بھی پھلتا پھولتا رہا یہاں تک کہ آخری غیر سرکاری مصدقہ مردم شماری کے مطابق کراچی اس وقت ڈھائی سے تین کروڑ کی آبادی کا شہر ہے۔ الامان! اتنے میں تو یورپ کے چھوٹے موٹے ملک بن جاتے ہیں۔ ہم ایک شہر لئے بیٹھے ہیں اور بیٹھے بھی یوں ہیں کہ شہر ہی بٹھا دیا ہے۔

بھئی پہلے قائد اعظم کا پسندیدہ شہر کیسا تھا؟ یہ تو پرانی تصاویر میں دکھا جاتا ہے۔ اپنے زمانے کے لحاظ سے اچھا خاصہ ہی لگتا ہے۔ پیدائش کے بعد کے کئی سال ہٹا کے چالیس سال کی تو اس شہر کی یاد گزشتہ اب میری بھی ہے۔ تازہ احوال یہ ہے کہ سارا شہر عید کے اگلے روز گھروں میں محصور ہے۔ عید کے دن بھی بارش کا یہی عالم تھا، بجلی کا بارش سے خاندانی تنازعہ ہے لہذا دو ٹپکے پڑنے کی دیر کہ بی بجلی روٹھ کے چلی جاتی ہیں کہ یا تو اس شہر میں میں رہوں گی یا یہ موئی بارش! اب کوئی پوچھے کہ چلچلاتی دوپہری، گمگماتی لو اور حبس سے دم گھونٹتی راتوں میں تو جیسے بھنو تم روٹھتی ہی نہیں؟ ہیں؟

خیر ان کی نخریلی عادت پے کسی اور وقت مفصل بات کریں گے۔ فی الحال تو پانی کی فراوانی کا رونا ہے جو پینے کے لئے ہزاروں کا خریدنا پڑتا ہے، شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔

جینے کے لئے سوچا ہی نہیں، ٹینکر ڈالنے ہوں گے

شہری نفری، سیاسی صورتحال، انتظامی معاملات اور ترقیاتی کام۔ کراچی میں تمام ہی قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔

ہر سال جب برسات آتی ہے تو شہر کی حالت بد سے بدتر ہو جاتی ہے۔ ہر سال کروڑوں کا سامان ڈوبتا ہے۔ لوگوں کے گھر اور سامان برباد ہوتے ہیں۔ ادارۂ بجلی فراہمی عزت مآب کے الیکٹرک کی مہربانی سے اسی بارش میں کرنٹ لگنے سے دسیوں سے سینکڑوں افراد جان بحق ہو جاتے ہیں۔

شہر کے باسی ایک کے بعد دوسری جماعت کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ شہر کا منتخب دم کٹا مئیر اپنی بے بسی کا رونا روتا ہے تو دوسری جانب کراچی ایڈمنسٹریشن کے سرگرم روح رواں سب اچھا ہے، سب کنٹرول میں ہے کہ بیان اور تصاویر سوشل میڈیا پے لگاتے ہیں۔

جائیں تو کہاں جائیں۔ روئیں تو کسے روئیں!

اگر پچھلی جماعت سے گلہ کیا کہ صدر اس شہر سے، صوبائی گورنر اس شہر سے، بیشتر قومی اور صوبائی اسمبلی کے آپ کے رکن اسی شہر سے اور تو اور شہر کا سب سے بڑا ووٹ بینک رکھنے والی جماعت آپ کی اتحادی مگر شہری اب بھی رو رہے ہیں، نہ صفائی ہے نہ پانی ہے نہ بجلی ہے اور ہر سال یہ برسات بھی قیامت بن کے نازل ہونے لگی ہے۔ کچھ تو کیجئے۔

تو جواب ملتا تھا، اب پتہ چلا، اس پارٹی نے کچھ نہیں کیا۔ آئندہ اسے نہیں ہمیں ووٹ دینا۔

2020 کی برسات میں کراچی آفت زدہ قرار دے دیا گیا، گورنر صاحب شہر کے حالات جانچنے اور شہریوں کی خبر گیری کو نکلے اور ایک پل پے فوٹو سیشن کرا کے، پکوڑوں سے لطف اندوز ہو کے واپس ہو لئے۔

گزارش یہ ہے کہ اس شہر کو یوں اپنے ہی ہاتھوں غرق نہ کرو۔ اس میں صرف کراچی والوں کا نہیں پاکستان کا نقصان ہے۔ کرونا۔ پاکستانی تجارت اور روپے کی گرتی قیمت اور سیاسی رسا کشی نے پہلے ہی پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں اگر اس شہر کا سانس اکھڑا تو معیشت کے پیر بھی اکھڑ جائیں گے۔

اہم ترین، شہر شہر والوں سے بنتا ہے ورنہ اینٹ۔ پتھر۔ گارے۔ چونے سے قبریں بھی بنتی ہیں! شہر کو شہر رہنے دیجئے، قبرستان نہ بنائیے۔

ہم جو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments