آپا نثار فاطمہ کا بیٹا چور نہیں ہو سکتا


مولانا امین احسن اصلاحی جماعت اسلامی کے ان ارکان میں تھے جو مولانا مودودی کے ساتھ بحث اور مکالمہ کر نے کی صلاحیت اور ہمت کے مالک تھے اپنا نقطہ نظر اچھی طرح بیان کر نے کی خدا داد صلاحیت کے کما حقہ مالک تھے، مفسر قرآن تھے۔ تدبر قرآن کے نام سے تفسیر تحریر کی۔ عملی و ادبی حوالوں سے ان کی تحریریں، کتب معاملات اور مفاہمت معاملہ فہمی کا عالم یہ تھا جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت کے لئے جن کتب کا پڑھنا اور ان پر ادراک ہونا ضروری ہے ان میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی متعدد کتب اور تحریریں موجود ہیں۔ اگر کسی دعوت دین کا کام کر نا ہو تو اس کے لئے ان کی تحریر دعوت دین کا طریقہ کار از بر یاد کرنی اور عمل کر نا ضروری ہے۔ ان کی ایک دو نہیں بیسیوں کتابیں ہیں۔

وفاقی وزیر احسن اقبال کے ساتھ 44 سال کا تعلق ہے انہوں نے جہاں مولانا امین احسن صاحب کی صاحب زادی آپا نثار فاطمہ کا بیٹا ہونے کا شرف پایا وہاں مولانا مودودی اور امین احسن صاحب سے بھی تربیت حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں ان کی شرافت، دیانت داری، وضع داری اور دین داری کی قسم کھائی جاتی تھی۔ جوانی کا ساتھ کچھ چھپنے نہیں دیتا۔ ہم نے کافی وقت اکٹھا گزارہ۔ ان کے کردار میں کبھی کوئی خامی نظر نہیں آئی۔

یہ ضرور ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر بھی وہ ایک نہایت کٹھن وقت میں منتخب ہوئے تھے اور اس وقت یہی ہوسکتے تھے۔ روز گار کے معاملات میں میری معلومات کے مطابق غالباً تین سر کاری نوکریاں کیں مگر انتظامی معاملات اور عملی سیاست میں دلچسپی کے باعث شاید جماعت اسلامی کے رکن بن کر وہ کبھی انتخابات نہ جیت سکتے تھے۔ احسن اقبال کی والدہ آپا نثار فاطمہ مجلس شوریٰ کی رکن تھیں اور ان کی عزت و احترام کی وجہ سے ان کے لئے بہت سہولتیں تھیں بعد ازاں 1985 میں وہ رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئیں اور محمد خان جونیجو کے مقابلہ میں میاں نواز شریف اور ضیاءالحق کا ساتھ دیا۔ یہ بات تو قابل یقین ہے کہ امین احسن صاحب کا نواسہ او ر آپا نثار فاطمہ کا بیٹا چور ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ بھیرہ پر ان کو محاصرہ کر نے والے خاندان کے لوگ ان کے پاس معافی مانگنے نارووال ان کے گھر ہمت کر کے پہنچ گئے۔

2001 میں احسن اقبال میرے ہمسایہ بھی تھے مسلم لیگ قائد اعظم کے ایک نہایت ذمہ دار کے طور پر ان کے پاس گیا اور کہا کہ صدر اور جنرل سیکرٹری کا عہدہ چھوڑ کر جو بھی عہدہ آپ قبول کریں ہم (ق) لیگ میں آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں۔ احسن اقبال مجھے باوجوہ فاروقی صاحب کہتے تھے اور ہمیں کہنے لگے کہ ہم پانچ لوگوں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، جاوید ہاشمی، خواجہ آصف اور میں نے بیت اللہ میں بیٹھ کر قسم کھائی ہے کہ ہم اب اپنے انداز کی سیاست کریں گے اور ماضی میں جو ہو چکا وہ ہم اب نہ کریں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ فاروقی صاحب ہماری آفر ہر وقت حاضر ہے مگر جو اب ملا کہ ہم دونوں کا وقت قیمتی ہے۔ چائے نوش فرمائیں۔

مجھے ان کے راجپوتانہ انداز پر بھی فخر تھا مگر میری راجپوتی کو بھی ٹھیس لگی تھی۔ راجپوتوں میں اتنا بھلا آدمی بس احسن اقبال ہی ہو سکتا ہے مگر میرا سوال تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے یہاں تک نوبت پہنچا کیوں دی۔ اگر احسن اقبال کوئی جواب دیتے تو سیاسی فضا مزید خراب ہو جاتی۔ پی ٹی آئی جس بیانیہ کو اپنی انتخابی مہم تک لے جانا چاہتی ہے وہ اولاً ہو گا نہیں کیونکہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اور پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ عوام اس سے با خبر ہوں اس لئے وہ صرف منفی پروپیگنڈا ہی چلا رہے ہیں اور ان کے طفیل مکتب سیکرٹری انفارمیشن کو اندازہ نہیں کہ ایک اچھا سیکرٹری انفارمیشن ہر بات کو خبر نہیں بناتا چہ جائیکہ جھوٹ اور گالی گلوچ کو خبر میں تبدیل کیا جائے۔

ان کو تو یہ بھی علم نہیں کہ خبر کا استعمال کیوں کب کیسے کر نا چاہیے اور جو ذرائع استعمال کیے جائیں وہ کیا ہونے چاہئیں؟ فواد چوہدری جس نے ہر سیاسی دکان سے نمک کا ذائقہ چکھا ہوا ہے۔ پنڈدادن خان کی کان دنیا کو نمک سپلائی کرتی ہے مگر یہ بھی فواد چوہدری کی ہانڈی کے ذائقہ کو تبدیل نہ کر سکے گا۔ ہمارے ملک کی سیاست 17 جولائی کو اپنا تعین کر لے گی اگر پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہونے کے لئے ضمنی انتخاب جیت گئی تو مرکز میں بھی جلد حکومت گر جائے گی مگر اس کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔

پاکستان کی معیشت کو جس ڈرپ کی ضرورت تھی وہ لگ چکی ہے اور عمران خان جانتے ہیں کہ ان کی جماعت کے حوالہ سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے والا ہے جس کے نتائج میں ان کی دیانت داری کی ساکھ بچ سکے گی یا ان پر کرپشن اور ملک دشمنی کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ اگر فیصلہ خلاف آیا تو ان کا پورا سالہاسال کا بیانہ زمین پر گر جائے گا اور اگر وہ سرخرو ہوئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ منفی سیاست کو وہ وہاں تک لے گئے ہیں جہاں سے واپسی خاصا مشکل کام ہو گا۔

احسن اقبال کے گھر جو لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کر نے گئے ہیں ان میں یقیناً احساس ذمہ داری موجود ہے اور جن لوگوں کو جلسوں جلوسوں اور تقریبات میں مدعو کر کے برین واش کیا جا رہا ہے یہ پلٹ کر اپنی فوج پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت کے بھی مالک ہیں۔ ہماری سر زمین سکندر ہمارا بھائی ہے، خضر ہمارا بھائی والے نعرے خوب سن چکی ہے اور صورتحال میں میں کوئی تبدیلی نہیں کیونکہ غریب ابھی بھی لائن میں لگ کر انصاف کی بجائے بے انصافی کا فیصلہ قبول کرتا ہے۔

بچیوں کی عصمت دری اب بھی ہو رہی ہے۔ سکولوں میں جانور ابھی بھی باندھے جاتے ہیں۔ رشوت کے لئے ہیرے اور زمین اب بھی موجود ہے۔ سر کاری افسروں کی تعیناتی جس طرح ہوتی تھی ہر کوئی اس سے واقف ہے۔ خود بغیر سکیورٹی کے بھیرہ جاکر دیکھ لیں۔ شاہ محمود نے اپنے علاقہ میں جو ترقیاتی کام کروائے وہاں شلوار اونچی کر کے گندے پانی سے گزرنا پڑتا ہے خبر جو کچھ بھی ہو چونکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ آپا نثار فاطمہ کا بیٹا اور محترم امین احسن اصلاحی صاحب کا نواسہ چور نہیں ہو سکتا اور آپ کے حمایتوں نے ان کے گھر جا کر خود بھی معذرت کر کے ثابت کیا ہے۔ یہ کام آپ کو بھی کر نا پڑ سکتا ہے۔ اللہ بڑا رحیم و کریم ہے۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments