چھوٹی چھوٹی خوشیاں


 

اللہ کے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی عظیم قربانی کی یاد میں ہم ہر سال عید الضحی مناتے ہیں۔ جس میں تمام صاحب استطاعت اس سنت کو پورا کرنے لیے ہر سال جانور خریدتے ہیں اور ان جانوروں کی خاطر خواہ دیکھ بھال کر کے عید کے دن ان کو اللہ کی رضا کی خاطر قربان کرتے ہیں۔ جس گھر میں قربانی کے لیے جانور لایا جاتا ہے وہاں رہنے والے ہر فرد بالخصوص بچوں کے لیے یہ جانور بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیوں کہ اللہ نے ان جانوروں کی خدمت میں بھی برکتیں رکھ دی ہیں۔

اس موقع پر بچوں کا شوق و جذبہ دیدنی ہوتا ہے کیونکہ جب بھی ہم ان کو چارہ ڈالنے لگتے ہیں تو ساتھ میں دو چھوٹے چھوٹے انسانی ہاتھ بھی چارے کے دو۔ تین ڈنٹھل اس کو کھلانے کی کوشش میں لگے ہوتے۔ نہلانے کا موقع آئے تو یہی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں والی انسانی مخلوق ہم سے بھی آگے ہوتی۔ سیر و تفریح کی خاطر باہر لے کر جائیں تو وہ ہاتھ اس کی رسی کو تھامے نظر آتے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ جانور ان کے لیے اتنا اہم ہو جاتا ہے کہ جب عید کے دن ذبح کیے جانے کا وقت آتا ہے تو ان ننھے منے بچوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور ہم ان کو بہت مشکل سے سمجھا پاتے ہیں کہ یہ اسی مقصد کے لیے خریدے گئے تھے اور اس قربانی کی وجوہات ہمیں ان کو کئی دنوں تک سمجھانی پڑتی ہیں۔ اکثر بچوں کو عید الاضحیٰ پر جانور کے بچھڑنے کی اداسی کی بدولت

بخار بھی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جن سے ہم ان جانوروں کو خریدتے ہیں ان کے بچوں کے آنکھوں میں آنسوؤں کی بھی ایک الگ داستان ہے۔ ان کے والدین بھی ان جانوروں کو اس دن کے لیے ہی پالتے ہیں تاکہ وہ ان کو بیچ کر روز مرہ کی زندگی کے لیے کچھ رقم اکٹھی کر لیں یہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔ کچھ ایسے والدین جو صاحب استطاعت نہیں ہوتے مگر ان کے گھر میں بھی وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں والی مخلوق ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے ہمسائیوں کے گھر میں قربانی کے جانور کی آمد کا سنتے ہیں تو وہ اس بارے میں اپنے والدین سے سوال کرتے ہیں کہ ان کا جانور کب آئے گا اور وہ والدین ان سے نظریں چراتے ہوئے جھوٹے دلاسے دیتے رہتے کہ ہم کل لے آئیں گے۔ روزانہ اس سوال کے جواب میں بچوں کو باہر لے جا کر ان جانوروں کے پاس کھڑا کرتے اور پاس بیٹھ کر ان کا جانوروں سے محبت کا شوق پورا کرتے۔ ایسا ہی ایک منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور تصویر کی شکل میں اپنے موبائل میں قید کر لیا۔

عید الضحی پر سنت ابراہیمی پوری کرنے کی غرض سے ہم نے دو مینڈھے اور ایک بچھڑا لیا۔ ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی ان کی دیکھ بھال میرے چچا جان کر رہے ہیں۔ ایک دن ان کو تعزیت کے لئے قریبی شہر جانا پڑا تو ان کی رکھوالی کی ذمہ داری میرے سپرد کر گئے۔ میں نے بغرض ثواب چارپائی ان کے پاس رکھی اور سارا دن ان کی دیکھ بھال میں مصروف رہا۔ قریب کوئی پانچ بجے کا وقت ہوا تو میں نے ایک بزرگ دیکھے جو پہلے گزرتے ہوئے قربانی کے جانوروں کو دیکھ کر گئے اور ٹھیک پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ پیدل میری طرف آتے دکھائی دیے۔

مجھے لگا ان کو مجھ سے کوئی کام ہے لیکن وہ میری طرف نہیں بلکہ اپنے پوتے کو جانوروں سے کھیلنے کے لیے لا رہے تھے۔ پہلے تو جب بچے نے ایک بیٹھے ہوئے مینڈھے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کے دادا نے استفہامیہ نظروں سے میری طرف دیکھا کہ میرا کیا ردعمل ہے۔ میری آنکھوں میں رضامندی کے تاثرات دیکھ کر وہ مطمئن سے ہو کر اپنے پوتے کے کھیل میں شامل ہو گئے۔

دادا اور پوتے کا ہمارے جانور کے ساتھ والہانہ پیار کا منظر اتنا حسین لگا کہ اس لمحے کو میں نے اپنے کیمرہ میں قید کر لیا۔ وہ بچہ کافی دیر تک کھیلتا رہا اور جب وہ تھک گیا تب وہ اس کو لے کر چلے گئے۔ جانوروں سے اتنا پیار دیکھ کر میں دنگ رہ گیا کہ ہم تو انسانوں سے اتنا پیار نہیں کرتے جتنا بچے ایک جانور سے کرتے ہیں۔

یہ تو ایک دادا، پوتے اور جانور کے پیار کی سچی کہانی تھی۔ اگر میرے اس رضامندی کے تاثرات نے تھوڑی دیر کے لیے ہی کسی کے چہرے پر خوشیاں بکھیر دیں تو امید ہے کہ اللہ تعالی اسی ایک مسکان کے بدلہ میں مجھے آخرت میں رسوا ہونے سے بچا لے۔ ہم جھوٹی انا کے چکروں میں ایک دوسرے سے کتنا دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اصل قربانی تو اپنے اندر کے جانور کی ہے۔ اللہ تو ڈھونڈتا کہ کوئی ایسی نیکی مل جائے جس سے وہ ہمیں بخش سکے۔ اس لیے جیسے بھی ممکن ہو اپنے ارد گرد لوگوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے کی کوشش کریں۔ مجھے تو زندگی کا حاصل یہی لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments