مظہر کلیم ”عمران سیریز“ کے حوالے سے تنقید کا نشانہ کیوں؟


مظہر کلیم ایک نامور ادیب تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت سے ناول لکھے جن میں چھن چھنگلو، چلوسک ملوسک اور آنگلو بانگلو سیریز اہم ہیں لیکن ان کی وجہ شہرت ”عمران سیریز“ ہے۔ عمران سیریز کے حوالے سے انہیں بہت زیادہ سراہا جاتا ہے اور اسی حوالے سے تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ انہوں نے ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں لکھنا شروع کیا اور 2018 تک تادم مرگ پوری توانائی سے لکھتے رہے۔ ان کا اصل نام تو مظہر نواز خان تھا لیکن انہوں نے ”مظہر کلیم ایم اے“ کے قلمی نام سے شہرت پائی۔

مظہر کلیم نے ٹارزن، عمرو عیار اور جنوں پریوں کی بھی ہزاروں مختصر کہانیاں لکھیں۔ مظہر کلیم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے عمران سیریز کے ناولوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہے جبکہ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے کم و بیش پانچ ہزار کہانیاں لکھیں۔ تقریباً نصف صدی تک نت نئے موضوعات پر مسلسل لکھنا اپنی جگہ اہم ہے لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بچوں اور نوجوان نسل کو اپنی کہانیوں اور ناولوں کے سحر میں مبتلا کیے رکھا۔

مجھے یاد ہے کہ میرے ادبی سفر کی ابتدا بھی کہانیوں کی کتابوں سے ہوئی۔ چوتھی پانچویں جماعت میں شہزادی، شہزادے، ٹارزن اور عمرو عیار کی جادوگری کی کہانیاں اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ اس وقت مصنف کے نام کی طرف توجہ کم ہی ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ ٹارزن کا قصہ ہو یا عمرو عیار کی کہانی، مظہر کلیم کی تحریر کردہ کہانی پڑھنے میں مزا آتا تھا۔ ٹارزن کے ساتھ منکو بندر کی مزاحیہ گفتگو چہرے پر مسکراہٹیں لے آتی تھی۔ پھر اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز اور عمران سیریز ہاتھ لگی۔ ابن صفی وفات پا چکے تھے۔ ان کے بعد بیسیوں مصنف عمران سیریز لکھ رہے تھے۔ سب کی تحریریں پڑھنے کے بعد مظہر کلیم کی عمران سیریز ہی ہمارا انتخاب بنی۔

یہ وہ اہم نکتہ ہے جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ کسی بھی پرائمری سکول یا ہائی سکول کے بچے کو اگر قرۃ العین حیدر کا ناول ”آگ کا دریا“ یا عبداللہ حسین کا ”اداس نسلیں“ پکڑا دیا جائے تو وہ چند صفحات پڑھنے کے بعد بور ہو کر کتاب پڑھنے سے ہی تائب ہو جائے گا۔ بچے بچوں کی کہانیوں سے ہی ادبی سفر شروع کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مظہر کلیم نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ دور میں دور دور تک ایسا کوئی مصنف نظر نہیں آتا جو بچوں کے لیے اتنی دلچسپ کہانیاں تخلیق کر رہا ہو اور بچے سب کچھ چھوڑ کر اس کی کہانیاں پڑھیں۔ یہ نقصان بہت بڑا ہے جس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ شاید برسوں بعد لگایا جا سکے۔

یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ آج کل بچوں کی دلچسپی کے بہت سامان موجود ہیں جیسے سمارٹ فون، انٹر نیٹ، پلے سٹیشن، ویڈیو گیمز وغیرہ۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ستر اور اسی کی دہائی میں بھی بچوں کی دلچسپی کے بہت سے سامان موجود تھے جیسے گلی ڈنڈا، پتنگ بازی، باندر کلا، پٹھو گرم، بنٹے، گڈیاں پٹولے، چور سپاہی، لکن میٹی، پینگ، سٹاپو، ککلی، ریڈیو اور ٹیلی وژن وغیرہ۔ ہر دور میں کچھ نئی چیزیں بچوں اور بڑوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ نئی چیزیں ان کی جگہ لیتی رہتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مظہر کلیم جیسے مصنفین ہر دور میں اپنے قارئین بنا لیتے ہیں۔

مظہر کلیم ایم اے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ابن صفی کے کردار پر لکھا۔ کردار کے خالق ابن صفی تھے مظہر کلیم نے ان کے کردار کی شہرت سے فائدہ اٹھایا۔ کیا عمران سیریز لکھنے والے مظہر کلیم اکیلے تھے؟ کیا وجہ ہے کہ بیسیوں مصنفین نے عمران سیریز پر طبع آزمائی کی جن میں ایم اے راحت، صفدر شاہین، ایچ اقبال جیسے مشہور مصنفین بھی شامل تھے لیکن کسی کو وہ پذیرائی نہ ملی جو مظہر کلیم کو حاصل ہوئی۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عمران سیریز کے خالق ابن صفی تھے۔ عمران کا کردار اور اس سیریز کا بنیادی ڈھانچہ یعنی سیکرٹ سروس وغیرہ اس قدر مقبول تھے کہ وہ اسی طرح کے مزید ناول پڑھنا چاہتے تھے۔ مظہر کلیم نے درجنوں مصنفین کی موجودگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اس سیریز کے چھ سو ناول تحریر کر ڈالے جو اچھی خاصی ضخامت کے حامل ہیں۔ یہ اعتراض کہ مظہر کلیم کے ناولوں میں ایکشن ہے جو ابن صفی کے ناولوں میں نہیں تھا اور جاسوسی زیادہ تھی یا عمران کا انداز بدلا گیا ہے، اس لیے بے معنی ہے کہ مظہر کلیم کا اپنا اسلوب ہے۔ اعتراض تو اس صورت میں بنتا اگر مظہر کلیم ابن صفی کو کاپی کرتے۔

اہم بات یہ ہے کہ عمران کا انداز بدلنے، ناولوں میں ایکشن ڈالنے، نئے کردار ڈالنے یا خود ساختہ سائنسی ایجادات ڈالنے کے باوجود اگر قارئین باقی سب کو مسترد کر کے مظہر کلیم کی عمران سیریز کو سب سے زیادہ پڑھتے رہے تو یہ مظہر کلیم کی تخلیقی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دراصل مظہر کلیم نے ٹارزن اور عمرو عیار کی کہانی لکھی، آنگلو بانگلو کا قصہ لکھا یا عمران سیریز کا ناول لکھا اس میں دلچسپی اور سسپنس کا عنصر بھرپور ہوتا تھا۔ چند صفحات پڑھنے کے بعد جی چاہتا تھا کہ صفحہ در صفحہ پڑھتے ہی چلے جائیے۔

مظہر کلیم کی عمران سیریز کے بہت سے ناول پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا کرتا تھا جیسے ذہن کے پردے پر ہالی وڈ کی کوئی فلم چل رہی ہے۔ بالی وڈ اور لالی وڈ کی انتہائی فضول جاسوسی ایکشن فلمیں دیکھ کر کئی مرتبہ خیال آتا ہے کہ یہ لوگ مظہر کلیم کی عمران سیریز کے کسی بھی ناول پر فلم بنا لیتے تو ہزار درجہ بہتر ہوتا۔

مظہر کلیم پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ انہوں نے عمران کو جن ہی بنا دیا۔ دنیا بھر کا علم اس کے پاس ہے، مشکل سے مشکل حالات میں عجیب و غریب طریقے سے وہ کامیاب ہوتا ہے، سیکرٹ سروس کے باقی ارکان منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور مشن عمران ہی پورا کر لیتا ہے۔ مظہر کلیم کے ناول نوجوانوں یا ٹین ایجر کی دلچسپی کے جاسوسی ناول تھے۔ اس میں ایسی مبالغہ آرائی کی کافی گنجائش تھی۔ چناں چہ ان کا عمران ہر فن مولا ہے۔ مشکل حالات میں اس کی طرح طرح کی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں لیکن ناول پڑھتے ہوئے طبیعت پر گراں نہیں گزرتیں۔

ابن صفی کی تخلیقی صلاحیت سے انکار نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جاسوسی ادب میں مظہر کلیم کے کنٹریبیوشن کو فراموش کر دیا جائے۔ مظہر کلیم کو عہد ساز مصنف کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مظہر کلیم نے قارئین کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں اور خاص طور پر عمران سیریز کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments