مسکراہٹ بکھیرنے کی مہم پر مامور


اس وقت ہال میں حاضرین کے علاوہ، وہ دس نوجواں لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں جنہوں نے یہاں ہونے والے ٹیلی وژن کے ایک ذہنی آزمائش کے مقابلے میں حصہ لینا ہے۔ ابھی ریکارڈنگ میں کچھ وقت رہتا ہے۔ یہ دس نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملک بھر سے منتخب ہو کے مختلف شہروں سے آئے ہیں۔ بہ ظاہر یہ سب اس وقت بہت سنجیدہ اور ذہنی دباؤ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنی شگفتگی میں شہرت رکھنے والے میزبان کی مسلسل کوشش جاری ہے کہ انھیں اپنی دلچسپ اور مزیدار باتوں سے، اس سنجیدگی سے نکال کر معمول کی کیفیت میں لایا جائے۔ وہ اس بات کی مختلف پیرائے میں تاکید کر رہے ہیں کہ ان سب کو اس بات پر بے پناہ خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ وہ، وہ دس خوش قسمت ہیں جن کا ملک کی ساری آبادی میں سے اس مقابلے کے لئے چناؤ ہوا ہے۔ ان کے خیال میں اتنی بڑی کامیابی کے بعد ایسے چہرے لٹکا کے بیٹھنے کا کیا جواز ہے۔

پروگرام کی نوعیت کے مطابق ان دس امید واروں میں سے صرف ایک امیدوار نے ہاٹ سیٹ HOT SEAT کا حق دار ہونا ہے سو اس میں اداسی یا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ فخر کی بات تو یہ ہے کہ اس مقابلے کے لئے سارے ملک سے آپ دس ہی منتخب ہوئے۔

میزبان کے شگفتہ طرز گفتگو سے مقابلے کے بیشتر شرکا کے چہرے کے تاثرات میں کافی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے تاہم ایک لڑکی کی سنجیدگی جوں کی توں ہے۔ میزبان نے بھی یہ محسوس کر لیا ہے کہ اس لڑکی کے لئے گفتگو میں طنز و مزاح کی مقدار میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ انھوں نے اپنے مخصوص لہجے اور انداز میں، اب براہ راست اس لڑکی سے مخاطب ہو کر کہا ”بیٹے، آپ اس طرح مسکراؤ، جیسے آپ کی ساس کا انتقال ہو گیا ہے“ ۔

باقی شرکا کو ہنسی روکنا مشکل ہو رہا ہے مگر لڑکی کا چہرہ ابھی بھی اسی طرح سپاٹ ہے۔ میزبان بھی ہار ماننے پر رضامند نہیں، سو لڑکی کو ہنسانے پر مائل کرنے کے لئے ایک اور رشتہ دار کی قربانی دے ڈالی۔ ”آپ ایسے مسکرائیں، جیسے آپ کی پھوپھو کا انتقال ہو گیا ہے“ ۔ ہال میں کھلکھلا ہٹ ہوئی مگر لڑکی، نہ مسکرانے کا عہد کر کے آئی تھی۔ وہی سنجیدگی اور متانت برقرار ہے۔

میزبان سے لڑکی کی اس مستقل مزاجی پر نہ رہا گیا اور وہ چلتے ہوئے اپنی جگہ سے شرکا کے کاؤنٹر کے پاس جا پہنچے تاکہ اس لڑکی سے، اس سنجیدگی کا راز جان سکیں۔ ”بیٹے آپ مسکراتی کیوں نہیں؟“

اس سنجیدہ لڑکی نے کیا جواب دیا، یہ بتانے سے پہلے زندہ دل میزبان کے بارے میں کچھ اور گفتگو بھی ہو جائے۔

جی ہاں، جو ان کی شخصیت سے باخبر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کی محفل میں واقعی آپ کو سنجیدگی سے تائب ہونا پڑتا ہے اور اگر آپ کا حس مزاح زندہ ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ( بہ قول ڈاکٹر یونس بٹ ) ان کے تابڑ توڑ ”جوک در جوک“ سے، ہنستے ہنستے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں۔ شگفتگی اور برجستگی جو، ان کا سکرین پر خاصہ ہے، سکرین سے باہر بھی ان کی یہ زندہ دلی، ہر دم، اسی شدت سے ان کے ساتھ رہتی ہے۔

ہاں! کبھی کبھی یہ زندہ دلی اور حس ظرافت، موقع محل سے مطابقت نہ رکھنے کے سبب مسائل کا باعث بھی بن جاتی ہے اسی لیے بعض قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ عام طور پر اب ایسے ( غم زدہ ) ماحول کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہیں جہاں ان کا مذاق، ان کے لئے پریشانی کا سبب ہو اور حاضرین محفل کے لئے اس سے، حس شکایت اجاگر ہونے کا قوی امکان ہو۔ ان کے لئے کسی محفل میں جانے سے اجتناب کرنا تو شاید ممکن ہو، مگر برجستہ اور بے ساختہ جملوں کو اپنی گرفت میں قید کر لینا، ان کے قطعی بس میں نہیں۔ اس معاملے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان سے، ان کی یہ آزادی اظہار، کوئی چھین نہیں سکتا۔

حس مزاح کے ساتھ، ان کا شعری ذوق بھی کمال کا ہے جس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب وہ نہایت طویل نظمیں، نہایت روانی اور نہایت چاؤ کے ساتھ، یوں سناتے ہیں جیسے یہ انھوں نے ابھی ابھی ازبر کی ہوں۔ وہ میزبان کی حیثیت سے ہوں یا مہمان کے طور پر محو گفتگو، خوب صورت اشعار کا انتخاب، ان کی خوبصورت بات چیت کا نمایاں پہلو کہا جاسکتا ہے۔

اسی طرح کسی اور دن، کسی اور ریکارڈنگ میں، جو عام طور پر، بہ وجوہ وقت پر شروع نہیں ہو پاتیں اور حاضرین اکتاہٹ اور بوریت سے دوچار ہونے لگتے ہیں، انھیں اس کیفیت سے نکالنے کے لئے ریکارڈنگ کے اس ناپسندیدہ وقفے میں ان کی طرف سے یہ شاعرانہ اور فیاضانہ اعلان ہوا کہ وہ ادھوری نظمیں سنائیں گے اور ہال میں موجود جو شخص اسے مکمل کردے گا، وہ اسے داد کے علاوہ اپنی طرف سے انعامی رقم بھی دیں گے۔ اس طرح انھوں نے آہنی لاجواب یاداشت کو استعمال میں لاتے ہوئے یکے بعد دیگرے کئی نظمیں سنائیں اور ادبی ذوق کی حوصلہ افزائی کی خاطر جس جس نے اس رضاکارانہ عمل میں مکمل یا نامکمل حصہ لیا، انھوں نے فراخ دلی سے اسے جی بھر کے سراہا ہی اور حق دار کو، وعدے کے مطابق اس کا حق بھی ادا کیا۔

ایک اور ریکارڈنگ میں، مہمانوں سے فکر انگیز سوالات کر کے انھیں مشکل سے دوچار کردینے والا میزبان، سیٹ پر خود پریشانی کا شکار نظر آیا اور یہ معمہ تب تک نہ کھلا جب تک خود میزبان نے اسے مکشف نہ کیا۔ اس دن میزبانی کے دوران، سوٹ زیب تن کرنے کا انتخاب کیا گیا تھا جو معمول کی بات تھی اور سٹوڈیو میں موجود کسی کو یہ دیکھ کر اچنبھا نہ ہوا مگر ان کی طرف سے بارہا، آتے جاتے، بے چینی کا اظہار کیا گیا۔ اس بے چینی کا پس منظر بھی بہت دلچسپ تھا۔

یہ سوٹ ملک کے ایک مشہور ڈیزائنر کا تیار کردہ تھا اور اس نے میزبان کے لئے ایک غیر روایتی ہدایت یہ کی تھی کہ اس سوٹ کے ساتھ جب بیلٹ پہنا جائے تو اس کا بکل، پشت کی طرف ہو یعنی جس طرح عام طور سامنے نظر آتا ہے، ویسے نظر نہ آئے کیوں کہ اس صورت میں، اس ڈیزائنر کے مطابق، توجہ سوٹ کی بجائے، بیلٹ پر جاتی ہے۔ اس ہدایت شدہ حالت میں ایک ریکارڈنگ تو اسی بے چینی کے ساتھ، چارو ناچار اپنے انجام کو پہنچائی گئی مگر دوسری ریکارڈنگ، جو اس کے فوراً ہی بعد طے تھی، اس میں میزبان نے اس ہدایت کی پیروی سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس طرح بیلٹ پہننے سے مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہال میں موجود ہر شخص صرف اور صرف اسی بیلٹ کے انوکھے پن کی طرف گھور رہا ہے اور یہ جاننے کی کوشش میں ہے کہ اس کا بکل کہاں ہے۔

آئیں اب اس لڑکی کا احوال سنتے ہیں جو میزبان کی تمام تر شگفتگی کے باوجود، ذہنی آزمائش کے پروگرام کے دوران اپنی سنجیدگی ترک کرنے پر راضی نہ تھی۔ اس کے چہرے ہر مسکراہٹ لانے کی جستجو میں انھوں نے اس کی ساس اور پھوپھو کی قربانی کی تجویز تک دے ڈالی مگر وہ اپنے مزاج میں تبدیلی لانے پر ٹس سے مس نہ ہوئی اور اس مستقل مزاجی پر میزبان کو اس کے کاؤنٹر کے قریب جا کے پوچھنا ہی پڑا

”بیٹے آپ مسکراتی کیوں نہیں“ ۔

لڑکی کا جواب، ہال میں قہقہے بکھیرنے کے لئے کافی تھا ”سر، میںری ساس، اس وقت اس ہال میں موجود ہیں اور اتفاق سے، وہ میری پھوپھو بھی ہیں“

( یہ سب کے علم میں ہے کہ نعیم بخاری، وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اسی لئے یہ امر ابھی تک بہت سوں کے لئے حیران کن ہے کہ وکالت سے وابستہ، ہر لمحے مسکراہٹ پر آمادہ اور مسکراہٹ بکھیرنے پر بہ ضد، یہ خوش مزاج و خوش گفتار، عدالت میں کیوں کر ظرافت کے پہلو سے دامن بچاتا ہو گا۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments