توہین رسالت کے قوانین کو منسوخ کرنے کی اپیل


بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 1300 افراد، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ توہین مذہب کے الزام میں تقریباً 75 افراد کو عدالتی ٹرائل کے بغیر قتل کر دیا گیا ہے۔ اب ہم توہین رسالت کے الزامات، جھگڑوں، سزاؤں اور قتل کی خبریں عموماً پڑھتے رہتے ہیں۔ آپ کو شاید جنید حفیظ یاد ہوں جو اب ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ اور بھی مزید بہت سے لوگ توہین مذہب کے الزامات کی وجہ سے جیلوں میں اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ آج بھی میں نے توہین رسالت کے الزام میں ایک شخص کو عمر قید کی سزا ہونے کی خبر پڑھی اور اسی خبر نے مجھے لکھنے پر اکسایا۔

میں نے ٹویٹر پر خبر کا لنک دیکھا۔ میں نے اس ٹویٹ کے جوابات پڑھے، جس میں نبی اکرم ﷺ کی عزت کے تحفظ کے لیے جشن منانے کی قسموں سے لے کر مطالبہ کیا گیا تھا، اور میں اس میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہی، کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر اس شخص کو مار ڈالنا چاہیے جو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین یا بے عزتی کرنے والے لفظ بولتا ہے۔ آپ میں سے کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی شدت پسندانہ مثال ہے اور اوسط پاکستانی ایسا شدت پسند نہیں ہے۔

اور میں سچ میں چاہتی ہوں کہ آپ درست ہوں اور زیادہ تر اوسط پاکستانی اس قسم کے جنونی نہ ہوں۔ لیکن آپ سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص جو توہین رسالت کے قوانین سے غیر متفق ہے اور جو مذہب کی حرمت کے نام پر انسانوں کو قتل کرنے کے خلاف ہے وہ اس رائے کا کھلا اظہار نہیں کر سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی توہین رسالت کے قوانین کی مخالفت کو پسند نہیں کرتے اور یس نا پسندیدگی کے نتائج اچھے نہیں ہیں۔

یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ لوگ، ایک ایسے مہذب معاشرے میں رہتے ہوئے جو اسلامو فوبیا کے خلاف لڑتا ہے، ان رویوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات کو کیسے پسند کرتے اور مناتے ہیں؟ ایک ایسے شخص کے طور پر جو پاکستان میں پلی بڑھی اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان میں گزارا، میں اسلام اور ان مسلمانوں سے سخت خوفزدہ ہوں جن کے لیے جن کے ایمان کی تقدیس کی حفاظت صرف معاشرے کے دیگر افراد اور دیگر مذہبی برادریوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ اب اگر میں ان خیالات کا اظہار کرتی ہوں تو آپ شاید کہیں کہ یہ تو اسلامو فوبیا جیسی باتیں ہیں۔ اور ہاں اگر آپ یہ اسلامو فوبیا کو لفظاً کہتے ہیں تو مجھے اسلام اور زیادہ تر پاکستانی مسلمانوں کے اسلامی رویوں اور طریقوں سے ڈر لگتا ہے۔ لیکن میرے پاس اس خوف کی ہر وجہ موجود ہے۔

آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر فیصلہ کن انداز میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ توہین رسالت کے قوانین کو منسوخ کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ ایسی رائے رکھتے بھی ہیں تو آپ کو حقیقی زندگی یا سوشل میڈیا پر لوگوں کے سامنے کھڑا ہو کر نبی کریم ﷺ سے اپنی غیر متزلزل عقیدت کا اعلان کرنا ہوتا ہے اور اس بات کا عہد بھی کرنا ہوتا ہے کہ کبھی ضرورت پڑنے پر آپ نبی ﷺکے لیے اپنی جان بھی قربان کریں گے۔ اور پھر جھجک کے ساتھ آپ توہین رسالتﷺ کے قوانین کی مخالفت کا اظہار کمزور سے الفاظ میں کریں گے۔ مگر اس نقطہ تک پہنچنے تک آپ کی بات اپنا تھوڑا بہت بچا کچھا وزن ویسے ہی کھو چکی ہوتی ہے۔

اس مسلسل نفسیاتی جنگ کے درمیان جو ملک میں معاشی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے ہم لوگوں کو لڑنا پڑتی ہے، کوں ہے جو یہ تمام ذہنی جمناسٹکس کرنے کی جذباتی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ بھی صرف یہ کہنے کے لیے کہ آپ کو مذہب یا مقدس شخصیات کے نام پر انسانوں کا مارے جانا نا پسند ہے۔ یہ تو عام فہمانہ بات ہونی چاہیے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں کوئی کیا کرے جہاں کے شہری، ریاست، اسٹیبلشمنٹ، سب فخریہ طور پر توہین مذہب کے نام پر اپنے ہی شہریوں کے قتل کی حمایت کرتے ہیں، اس کی سرپرستی کرتے ہیں اور اس کو قانونی بناتے ہیں۔

میں پاکستان کے پینل کوڈ میں توہین رسالت کے قوانین کے تعارف پر بات نہیں کروں گی۔ نہ ہی میں اس بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں کہ اسلام اک امن کا مذہب ہے کیونکہ دوسروں نے ایسا بہت لکھا ہے اور کیونکہ تقریباً ہر مذہب امن کا مذہب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور تقریباً کوئی بھی مذہب اس دعوے پر پورا نہیں اترتا۔ اور ہاں، اسلامی تفسیر یا دیگر نصوص توہین رسالت کے لیے لوگوں کو قتل کرنے کے لیے نہیں کہتے لیکن کیا یہ سب تعلیمات لوگوں کو توہین رسالت کے نام پر دوسروں کو قتل کرنے سے روکتی ہیں؟

یا کم از کم، کیا یہ پاکستانی ریاست کو توہین رسالت کے قوانین کو منسوخ کرنے یا کم از کمان پر نظر ثانی کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ بالکل نہیں۔ بالآخر، کیا مذہب نے اس دنیا کو زیادہ پرتشدد بنایا یا زیادہ پرامن بنایا ہے؟ کیا مذہب نے مزید تنازعات پیدا کئے یا باہمی ہم آہنگی پیدا کی ہے؟ آپ کو یہ سب باتیں شاید بری لگیں، لیکن یہ عمران خان کے اپنی تقریروں میں اسلامی ٹچ ڈالنے یا کیپٹن صفدر کے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پر پابندی کا مطالبہ کرنے یا دوسرے سیاسی رہنماؤں کے جذباتی طور پر لوگوں کو مذہب کے ناپ پہ جذباتی گمراہ کرنے سے بدتر نہیں ہیں

اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان پرامن اور ہم آہنگ ہو تو اس مذہبی منافرت اور تقسیم کو تقویت دینا بند کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا ایمان آپ کے لیے باعث ثواب ہو، لیکن اسے اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے باعث عذاب مت بنائیں