بدھیہ علاقہ:سندھ میں بدھ مت کی حکمرانی کا مرکز


سندھ میں بدھ مت قبل از مسیح میں پھیلا تھا۔ بدھ مت مذہب کو پھیلانے والے موریا خاندان کے آسوکا یا اشوکا ( 234۔ 268 ق۔ م) تھے۔ آسوکا کے زمانے میں

سندھ کے بھکشو یا شمنی اس وقت بدھ مت کی ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور انہیں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ موریا خاندان سے رائے خاندان اور برہمن خاندان کی حکمرانی تک بدھ ازم عروج پر تھا۔ خود راجا چچ کا بھائی اور راجا داہر کا چچا چندر بھی بدھ ازم کا قائل تھا۔ 712 ع میں عربوں کی فتح اور اسلام کے آنے کے بعد سندھ میں بدھ ازم زوال پذیر ہونے شروع ہوا۔ سندھ میں اب بدھ ذات یا قبیلہ موجود ہے جو بدھ مذہب کی وجہ سے مشہور ہوا یا انہوں نے خود بدھ ذات اختیار کی۔

ویسے تو پورے سندھ میں بدھ مت پھیلا ہو تھا مگر رائے گھرانے کی حکمرانی ( 632 ء۔ 450 ء) سے لے کر برہمن گھرانے ( 712 ء۔ 632 ء) تک بدھوں کا ایک خاص علاقہ تھا جو چچ نامہ عرف فتحنامہ سندھ میں بدھیہ کے نام سے درج ہے۔ بدھیہ کا علاقہ سندھ کے موجودہ ضلع دادو کی تحصیل جوہی سے لے کر شمال کی طرف ضلع لاڑکانہ، کشمور کندھ کوٹ، قمبر شہداد کوٹ، جیکب آباد، گنداوا اور آگے ممکنہ طور پر بلوچستان کے کچھی اور سبی کے قرب میدانی اور پہاڑی علاقے پر محیط تھا۔ خاص طور پر کیرتھر پہاڑی سلسلہ اور اس کے قریب میدانی علاقہ بدھیہ میں شامل تھا۔

بدھیہ علاقے پر بدھ مت کے قائل لوگوں کی مکمل حکمرانی تھی۔ چچنامہ میں بدھ مت کے قائل حکمران ”کاکو ولد کوتل چنہ“ کا ذکر ملتا ہے۔ چچنامہ کے مطابق کاکا راج شہر بدھیہ کا مرکزی یا دارالحکومت شہر تھا۔ معروف محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور ایچ ٹی لیمبرک ضلع دادو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ کے موجودہ شہر ککڑ کو بدھیہ کے شہر کاکا راج کا بگاڑ سمجھتے ہیں لیکن ان کی رائے اب تک بھی تحقیق طلب ہے۔ کیوں کہ ککڑ اور کاکا راج نام میں مکمل مماثلت نظر نہیں آتی۔

بدھیہ کے علاقے میں پورا صحرائے کاچھو بھی تھا۔ بدھیہ علاقے میں آج بھی اسٹوپا کی صورت میں بدھ مت کی عبادت گاھیں موجود ہیں جو خستہ حالی کا شکار ہیں۔ اسٹوپا جسے پالی زبان میں ٹوپ یا ستوپ اور سندھی زبان میں ٹھل یا ٹھلھ کہتے ہیں وہ سندھ کے ضلع دادو سے لے کر شمال میں کشمور کندھ کوٹ اور جیکب آباد اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی ساخت اور تعمیراتی نوع سے مختلف اور منفرد طرز تعمیر سے بنائے گئے تھے۔ ان کی تعمیر سندھ یا پاکستان کے دوسرے صوبوں میں پائے جانے والے اسٹوپاؤں سے الگ ہے۔ اس کا سبب شاید یہاں دوسرے علاقوں کی نسبت سے مٹیریل کا وافر مقدار میں میسر نہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔

بہرحال یہاں بدھیہ علاقے میں سٹوپ یا اسٹوپا کہیں مکمل پکی اینٹوں سے کہیں پتھروں سے اور کہیں اندر سے پکی اینٹوں اور باہر سے کچی اینٹوں سے بنائے گئے ہیں۔ کیرتھر پہاڑی سلسلے میں اور نئیگ اور گورانڈی وادیوں میں پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔ جب کہ ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے میدانی علاقوں میں اندر سے پکی اور باہر سے کچی اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں۔ جن کی مثال ٹھل ہیرو خان اور ٹلھ گاؤں کا ٹھل ہے۔ کچھ محض مٹی سے بنائے گئے ہیں جن کی مثالیں ٹھل جوہی، ٹھل کنگرانی اور ٹھل مزار بھرگڑی ہیں۔ ضلع دادو کی تحصیل میہڑ میں ٹھل مارو پکی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔

علاوہ ازیں ٹھل موہنجو دڑو کی طرح ضلع لاڑکانہ میں ٹھل دھامراہو، ضلع قمبر شہداد کوٹ میں ٹھل لالو رانئک، ٹھل دھنگ، ضلع جیکب آباد میں ٹھل شہر کا ٹھل، ضلع شکاپور میں ٹھل لکھی غلام شاہ اور ضلع کشمور کندھ کوٹ میں ستوپ (ٹھل) کھوسہ گاؤں قابل ذکر ہیں۔ اس علاقے میں جو قدیم بدھیہ کا علاقہ تھا سینکڑوں کے تعداد میں اسٹوپا یا ٹھل تھے جو مٹ گئے یا مٹائے گئے ہیں۔

یہاں ایک وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مورخیں نے ان ستوپ، ٹوپ، اسٹوپا یا ٹھلوں کو واچ ٹاور لکھا ہے جن سے میں قطعی طور پر متفق نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تجارتی قافلوں کو راستہ دکھانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ کچھ کا موقف یہ ہے کہ حملہ آوروں کو دور سے دیکھنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اسٹوپا ایک قطار میں بنے ہوئے ہیں؟ جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ دوسری بات کہ میدانی علاقوں میں حملے آور لشکر دور دور سے ازخود دکھائی دیتا ہو گا تو ان واچ ٹاورس کی کیا ضرورت تھی؟ تیسری بات یہ کہ جو پہاڑوں میں بنائے گئے تھے وہ بھی واچ ٹاور ہیں؟ پہاڑ تو خود اونچے ہیں؟ حتی کہ یہاں پہاڑوں پر قدیم نقش نگاری میں بھی اسٹوپا کندہ ہیں۔

دراصل یہ بدھیہ علاقے میں بدھ ازم کی عبادت گاہیں اسٹوپا ہیں جن پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ یہ واچ ٹاور نہیں بلکہ بدھیہ علاقے میں بدھ مت کے اسٹوپا ہیں جن میں کچھ ہیں اور باقی زیادہ تر مٹائے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments