کیا غزالی سائنس کے خلاف تھا؟
ایک تواتر اور تسلسل سے دانشوران ملت نوحہ گری اور ماتم زنی میں مصروف رہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں سائنس کے زوال کی تمام تر ذمہ داری امام غزالی ( 1058۔ 1111 ) پر عاید ہوتی ہے کیونکہ غزالی نے تہافتہ الفلاسفہ نامی بدنام زمانہ کتاب لکھی جس میں نہ صرف یونانی فلسفے کا رد لکھا بلکہ علت و معلول کے قانون کا بھی انکار کیا۔ چنانچہ غزالی کے تابڑتوڑ حملوں سے مسلم سماج میں عقلیت پسندی کی روایت دم توڑ گئی؛ سائنس زوال و انحطاط کا شکار ہو گئی اور مسلم معاشرہ مذہبی انتہا پسندی کی نذر ہو گا۔
جہاں تک غزالی کے بعد سائنس کے زوال کا معاملہ ہے، اس کا شافی جواب میں گزشتہ تحریر میں دے چکا ہوں۔ تمام تر جدید تحقیقات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غزالی کے بعد چار صدیوں تک مسلم سائنس نہ صرف نشو و نما پاتی رہی بلکہ وہ اس کے عروج کا سنہری دور ہے۔ اگر سولھویں صدی سے مسلم معاشرے کے سیاسی اور علمی زوال کا آغاز ہوا تو اس کی ذمہ داری کسی طور غزالی پر عاید نہیں کی جا سکتی۔
گزشتہ تحریر میں البتہ یہ بات بیان نہیں کی گئی تھی کہ عقلی علوم بالخصوص سائنس کے متعلق غزالی کا اپنا موقف کیا تھا۔ اس مضمون میں اس کے موقف کا بس ایک طائرانہ سا جائزہ پیش کر رہا ہوں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ غزالی کا اس باب میں کیا نقطہ نظر تھا؟
غزالی کے سامنے چیلنج
غزالی کی تصنیفات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ غزالی کا مسئلہ کیا تھا۔ اس کے زمانے کی علمی صورت حال کیا تھی؟ متحارب گروہ کن مسائل سے نبرد آزما تھے؟ اس ساری صورت حال میں غزالی کا کیا کنٹریبیوشن ہے؟
یہ بات معلوم و معروف ہے کہ اموی دور میں ہی مسلمانوں کا غیر اقوام کے علوم و معارف سے تعارف شروع ہو گیا تھا۔ انھیں علوم اوائل یعنی گزشتہ اقوام کے علوم قرار دیا گیا۔ کچھ کتابیں اموی دور میں ترجمہ ہوئیں لیکن عباسی دور میں یونانی علوم کو بڑے پیمانے پر عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ہندوستان کی کچھ کتابیں بھی پہلوی زبان کے راستے سے عربی میں منتقل ہوئیں۔ بہت سے لوگوں نے بڑے ذوق و شوق سے ان علوم کا مطالعہ شروع کیا۔
ہر معاشرے میں اس قسم کی سرگرمی کا ایک لازمی نتیجہ نکلتا ہے۔ اہل علم دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ کچھ ان علوم کو اپنے مذہبی عقائد کے خلاف جانتے ہوئے، یا ان کو نقصان دہ سمجھتے ہوئے یا بے فائدہ گردانتے ہوئے ان کی تحصیل کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ بڑے ذوق و شوق سے ان علوم کو حاصل کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کی افادیت کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں۔ انھی لوگوں میں کچھ ایسے افراد بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو ان علوم کی تحصیل سے حاصل ہونے والی نئی روشنی کے جوش و جذبہ میں اپنے موروثی عقائد کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو جاتے ہیں، کچھ ان عقاید کا تمسخر اڑاتے اور کچھ کھلم کھلا انکار پر اتر آتے ہیں۔ دوسری طرف مذہبی گروہ کا ردعمل بھی اکثر اتنا ہی انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ وہ ہر اس بات کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں اور اسے خلاف مذہب قرار دے ڈالتے ہیں جس میں دلیل اور عقل کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہو۔ وہ دلیل کے مقابلے میں سند اور روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔
چنانچہ اس دور میں شرعی علوم کے ماہرین عقلی علوم کو کلی طور پر رد کرنے کے درپے تھے۔ وہ نہ صرف مابعد الطبیعیات بلکہ منطق، ریاضی اور طبعییات کی بھی مخالفت کر رہے تھے بلکہ علم کلام کی بھی مذمت کے درپے تھے۔ اب غزالی کے سامنے سوال یہ تھا کہ اگر منطق، ریاضی اور طبیعیات کی کچھ باتیں عقلی/ریاضاتی براہین کی مدد سے درست ثابت ہو جائیں تو پھر کیا کیا جائے گا؟ اگر ان کو رد کیا جائے گا تو اس کا نقصان مذہب کو ہو گا کہ وہ خلاف عقل قرار پائے گا۔
اس صورت حال میں غزالی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے دینی اور دنیوی علوم کی تقسیم کر کے بہت سے علوم کو مذہبی فتاویٰ سے محفوظ بنا دیا۔ چنانچہ ریاضی، منطق یا علم ہیئت میں ماہرین کے باہمی اختلافات کی بنا پر ان کی تکفیر و تفسیق نہیں کی جاتی تھی۔ برسبیل تذکرہ غزالی نے تو فقہ کو بھی علوم دنیوی میں شامل کیا تھا لیکن ان کی اس بات کو قبول عام نہ مل سکا۔ اگر ان کی بات مان لی جاتی تو مسلم دنیا کو جدید دور میں قانون سازی کی بعض مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
المنقذ من الضلال میں غزالی نے علوم عقلی کی یہ قسمیں بیان کی ہیں : ریاضیات، منطق، الٰہیات، سیاسیات اور علم الاخلاق۔ ان سب علوم میں اس کا حکما (فلسفیوں ) سے بنیادی اختلاف الٰہیات یا مابعد الطبیعیات کے کچھ مسائل میں ہے۔ باقی علوم بالخصوص منطق، ریاضی، طبیعیات اور طب وغیرہ کے متعلق اس کی رائے تھی کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
ریاضیات کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ ”اس علم کا تعلق صرف حساب و ہندسہ، ہیئت اور فلکیات تک ہے۔ دینیات سے بہرکیف اس کو نفیا یا اثباتا کوئی سروکار نہیں۔ ان کے متعلق یہ کہنا چاہیے کہ یہ سراسر امور برہانیہ سے لگاؤ رکھتے ہیں اور جو کوئی بھی انھیں اچھی طرح جانتا ہے ان کی قدر و قیمت اور افادیت سے انکار نہیں کر سکتا۔“
”جس طرح علم طب اور دین میں کوئی منافات نہیں اسی طرح طبیعیات اور دین میں بھی کہیں تصادم رونما نہیں ہوتا ماسوا چند مسائل کے۔“ (سرگزشت غزالی۔ اردو ترجمہ مولانا محمد حنیف ندوی۔ )
تاہم مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی مذہبی روایت اور ریاضیاتی طور پر ثابت شدہ حقیقت کے مایبن تضاد و اختلاف نمایاں ہو کر سامنے آ جائے۔ المنقذ میں اس کا کہنا ہے کہ ”جو بات ناقابل تردید دلائل سے ثابت ہو چکی ہو، یعنی اس کا انکار کیا جانا ممکن نہ ہو تو اس کو تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔“ اس لیے وہ سورج اور چاند گرہن کے نظریے، اسباب اور ان کی پیش گوئیوں کو درست تسلیم کرتا تھا کہ مذہب کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ غزالی کے نزدیک ایسا شخص اسلام کا نادان دوست ہے جو ریاضیاتی طور پر ثابت شدہ سچائیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کے دلوں میں اسلام سے نفرت اور فلسفے سے محبت پیدا ہو گی۔ اب جن لوگوں نے اسے خلاف شرع قرار دیا وہ اسلام کے نادان دوست ہیں۔
اس صورت حال میں علمی اصول یہی ہو گا کہ اگر کوئی روایت مسلمہ ریاضیاتی اصولوں کو رد کرتی نظر آئے تو بہتر ہے کہ اس روایت کی تعبیر کی جائے نہ کہ ریاضیاتی اصولوں کو رد کیا جائے کیونکہ اس صورت میں سوال مذہب کی حقانیت پر اٹھے گا نہ کہ ریاضی پر۔
چنانچہ غزالی کے وضع کردہ اس اصول کو بہت صراحت سے غرناتا کے لسان الدین ابن الخطیب ( 1375۔ 1313 ) نے بیان کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا:
”سو اگر کہا جائے کہ ہم چھوت کے دعوے کو کیونکر تسلیم کر لیں جبکہ شرع میں اس کی نفی آئی ہے تو ہم کہیں گے کہ چھوت کا وجود تجربہ، استقرا، حس، مشاہدہ اور مسلسل اطلاعات سے ثابت ہے اور ان سب پر اس دلیل کی بنیاد ہے۔ جو کوئی اس مسئلے پر غور کرتا ہے یا اسے اس کا ادراک حاصل ہے اس سے یہ مخفی نہیں رہتا کہ جو بھی اس مرض کے مریض سے براہ راست رابطہ رکھتا ہے اکثر و بیشتر ہلاک ہو جاتا ہے اور جو نہیں رکھتا وہ بچ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ کہ مرض کسی شہر کے ایک گھر میں پیدا ہوتا ہے اور پھر اکا دکا ملنے جلنے والوں اور پھر ان کے پڑوسیوں میں پھیل جاتا ہے۔“
(تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام از ڈاکٹر فواد سیزگین۔ اردو ترجمہ ڈاکٹر خورشید رضوی۔ )
غزالی کے اثرات کی جھلک ہمیں مشہور متکلم فخر الدین رازی کے ہاں بھی نظر آتی ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ ہماری حسی معلومات ہمیں بتاتی ہیں کہ آسمان گولائی میں ہے۔ اس لیے اس بات قبول کر لینا چاہیے۔ اس ضمن میں شواہد لاتعداد ہیں جن کو جاننے کے لیے علم ہیئت کی کتاب سے رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح سمت قبلہ کا تعین علم ہیئت کی مدد سے کیا جائے گا نہ کہ قرآن حکیم کی کسی آیت سے۔
موجودہ دور کے ایک نامور محقق احمد دلال نے عضد الدین الایجی (م 1355 ء) کی مشہور زمانہ کتاب ”مواقف فی علم الکلام“ سے یہ جملہ نقل کیا ہے کہ کائنات کا ارض مرکزی ماڈل بہتر ہے یا شمس مرکزی، یہ سائنس کا مسئلہ ہے، مذہب کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔
مندرجہ بالا معروضات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ غزالی ہرگز سائنس کا مخالف نہیں تھا۔ وہ ریاضیاتی اور تجربی طور پر ثابت شدہ حقائق کو تسلیم کرنے پر زور دیتا تھا۔ ابن الخطیب اور الایجی کی آرا کو بیان کرنے کا مقصد بھی یہ ظاہر کرنا ہے کہ غزالی کے سائنس پر اثرات کسی اعتبار سے منفی نہیں تھے۔
- ڈاکٹر مہدی حسن: ایک متمدن شخص کی یادیں - 23/02/2025
- خالد احمد: میرے استاد - 19/11/2024
- اردو تاریخ نگاری میں جذبات کی آمیزش - 27/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).