انسانی تہذیب کی نشوونما میں مسلمانوں کا حصہ


حضرت شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی اسلام کو ایک عالمی تحریک کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ اس لیے یورپ کی متعدد غیر مسلم قوتیں برصغیر میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لیے مستعد ہو گئی تھیں۔ اس میں پہل پرتگیزیوں نے کی کہ وہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے عرب حکمرانوں کو ہسپانیہ سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے جہاں انہوں نے سات سو سال حکومت کی تھی۔ شاہ پرتگال نے ایک تجارتی کمپنی لانچ کی اور ایک مضبوط بحری بیڑا تیار کیا۔

اس کے بعد ولندیزی، فرانسیسی اور انگریز بھی میدان میں کود پڑے اور انہوں نے 1599 عیسوی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی داغ بیل ڈالی جس نے ڈھائی صدی کے عرصے میں پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا۔ ہمارے بلند پایہ محقق جناب باری علیگ نے اپنی تصنیف ”کمپنی کی حکومت“ میں ان تمام واقعات کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے جبکہ برطانوی مصنف ولیم ڈال ریمپل (William Dal Rymple) نے The Anarchy میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لرزہ خیز مظالم اور ہوشربا لوٹ مار کے واقعات درج کیے ہیں۔ میں نے زیادہ تر انہی دو کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔

ان کتابوں کے مطالعے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کے جن جن علاقوں میں اسلام پہنچا اور مسلمانوں نے حکومت کی، وہاں انسانی تہذیب و تمدن کی نشوونما میں زبردست اضافہ ہوا۔ اندلس میں عرب مسلمانوں نے جو علم و معرفت کے چراغ روشن کیے اور تاریک یورپ میں علم کی روشنی پھیلائی، اس کا ذکر کرنے سے پہلے ہم غرناتا کے آخری مسلم تاجدار ابو عبداللہ کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں جس کی والدہ نے برجستہ ایک ایسا جملہ کہا تھا جو تاریخ کے شعور میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا ہے۔ ابو عبداللہ فوجی شکست کھا کر اپنی جان بچانے کے لیے شاہی محلات سے دوڑتے ہوئے کہتا ہے ”سات سو سال ہسپانیہ پر حکومت کرنے کے بعد ایک گداگر کی طرح غرناتا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ رہا ہوں۔“

ابو عبداللہ ایک پہاڑی پر آ کے رک گیا، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ الحمرا، یہ دنیا کی حسین ترین عمارت ابو عبداللہ کو واپس نہ بلا سکی۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ اس پر اس کی زیرک والدہ نے کہا: ”میرے لال! آنسوؤں سے تقدیر نہیں بدل سکتی۔ جس الحمرا کی حفاظت مردوں کی طرح نہیں کر سکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا حاصل؟“ جس پہاڑی پر ابو عبداللہ نے آنسو بہائے تھے، وہ آج تک ”لہو کی آخری آہ“ کے نام سے مشہور ہے۔

رومیوں اور گاتھوں کے بعد عربوں نے ہسپانیہ پر قبضہ کیا اور سرزمین اندلس کو عروج و ارتقا کی اس بلندی تک پہنچایا جو اس سے پہلے اسے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے اندلس کے طول و عرض میں محلوں، مسجدوں، مدرسوں، اسپتالوں، نہروں اور پلوں کا ایک وسیع جال بچھایا۔ ہسپانیہ کو منطقہ حارہ کے پھلوں اور سبزیوں سے پہلی دفعہ روشناس کرایا۔ کاغذ اور شکر بنانے کے کارخانے لگائے۔ جب یورپ کے دوسرے ملکوں میں کلیساؤں کے سوا کہیں بھی کتاب نظر نہیں آتی تھی، اس وقت قرطبہ اور غرناتا کے بازاروں میں قاہرہ اور بغداد کے ارباب علم و فضل کی تازہ ترین کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔

شاہی کتب خانے میں چار لاکھ سے زائد کتابیں موجود تھیں جن سے عوام پوری طرح فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ عربوں نے ہسپانیہ میں سونے اور چاندی کی نئی کانیں دریافت کیں۔ وہاں ریشمی، سوتی اور اونی کپڑوں کے بے شمار کارخانے تھے۔ ان کارخانوں کے بنے ہوئے کپڑے قسطنطنیہ پہنچ کر ڈینیوب کے ذریعے مشرقی یورپ میں فروخت ہوتے تھے۔ جس زمانے میں انگلستان کا پادری لاطینی کے دو جملوں کا اپنی مادری زبان میں ترجمہ نہیں کر سکتا تھا اور جب اٹلی میں ہر اس پادری کو جادوگر کہا جاتا تھا جسے ریاضی کے چند ابتدائی قاعدے آتے تھے، اس وقت ہسپانیہ ہی وہ تنہا یورپی ملک تھا جس میں ہر بچے کے لیے ابتدائی تعلیم لازمی تھی۔ ہسپانیہ کی عورتوں نے صرف و نحو اور شعر و شاعری میں نام پیدا کیا۔ اس ترقی یافتہ ملک کے سائنس دان کیمیاوی تجربوں میں مصروف رہتے اور رصد خانوں میں سیاروں کی گردش کا مطالعہ کیا جاتا۔

فرڈنینڈ نے عربوں کو ہسپانیہ سے نکال دیا تھا جو ہجرت کر کے افریقہ چلے گئے تھے۔ شاہ پرتگال انہیں وہاں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ اس کے قبضے میں ایسے جانباز اور مہم جو تھے جو عربوں سے لڑنے کے لیے دنیا کے ہر گوشے میں جانے کے لیے تیار تھے، چنانچہ شاہ پرتگال نے ایک جنگی بیڑا تیار کیا۔ ترکی فتوحات نے جب بحیرہ روم کو ایک ترکی جھیل میں تبدیل کر دیا، تو وینس کی تجارتی منڈی سے ہسپانیہ اور پرتگال کو بہت کم فائدہ تھا۔

تب دونوں ممالک ہندوستان کا نیا راستہ دریافت کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کولمبس ہندوستان کی جستجو کرتے ہوئے امریکہ پہنچ گیا۔ معاشی مفاد، جغرافیائی معلومات اور عرب دشمنی میں کشتیوں کے بادبان پھیلا دیے گئے۔ واسکوڈی گاما ایک عرب ملاح کی مدد سے راس امید کا چکر کاٹتا ہوا ہندوستان کے ساحلی مقام کالی کٹ پہنچا۔ ہندوستان نے اپنی روایتی مہمان داری کی بدولت اس کا خیرمقدم کیا۔ کالی کٹ کے راجہ زیمورن کو کیا خبر تھی کہ بدو کے افسانوی اونٹ کی طرح پرتگیزی بھی اسے خیمے سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں۔ پرتگیزیوں نے کالی کٹ میں ایک فیکٹری قائم کی۔ تین سال بعد قلعہ تعمیر کیا۔ تھوڑی دیر بعد گوا پر پرتگیزی پرچم لہرایا۔

پرتگیزیوں نے ہندوستانیوں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ اس کے تصور سے آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ وہ عورتوں کو اٹھا کر لے جاتے اور جب چاہتے قتل و غارت کا بازار گرم کر دیتے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پرتگیزیوں کی اجازت کے بغیر کوئی ملک ہندوستان سے تجارت نہیں کر سکتا تھا۔ شاہ جہاں نے بالآخر پرتگیزی قوت پر کاری ضرب لگائی۔ ولندیزی، فرانسیسی اور انگریز ہندوستان میں اپنی قسمت آزما رہے تھے جبکہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کی اصلاحی، علمی اور فکری تحریک اپنے برگ و بار نکال رہی تھی۔ بدقسمتی سے ان کی زندگی ہی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کا اقتدار الہ آباد تک پھیل گیا تھا۔ یورپ میں احیائے علوم کی تحریک نے ہر سطح پر زبردست انقلاب برپا کر دیا تھا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments