لاہور کا ڈگمگاتا تاریخی ورثہ


پاکستان میں جب بھی ثقافتی، قومی اور تاریخی ورثے کی بات کی جائے تو صوبہ پنجاب کی دھرتی لاہور کا شمار صف اول میں ہوتا ہے۔ لاہور جہاں سیاست، علم، کھابوں اور محبتوں کا شہر ہے وہیں اس کی شہرت کو چار چاند لگانے میں تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی پیش پیش ہے۔ مغلیہ حکومت نے اس شہر میں ایسی ایسی یادگار عمارتیں زمین کے سینے پر کھڑی کی ہیں جن کی مثال ملنا تمام عالم میں مشکل ہے۔ اس کی یہی خوبی اسے اوج ثریا کی بلندیوں تک لے گئی اور ہر گزرتا دن لاہور شہر کی شان و شوکت اور مرتبے میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

لاہور میں جہاں مینار پاکستان، بادشاہی مسجد، عجائب گھر لاہور، موتی مسجد، شاہی قلعہ اور مسجد وزیر خان، بریڈلے ہال، داتا دربار تاریخی ورثے کے پائے شمار ہوتے ہیں وہیں رنگا رنگ تقریبات اور موسیقی سے سجی محفلیں ثقافتی ورثے کی رونمائی کرتی نظر آتی ہیں۔ ورثہ چاہے تاریخی ہو یا ثقافتی، ہر ملک و قوم کی عظمت اور شان و شوکت کا کل انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ ورثہ وہ وراثت ہوتی ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہے اور آبا و اجداد کی واحد یاد کہلاتی ہے۔

دنیا میں ہر قوم اپنے ورثے سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے جان جوکھم میں ڈال کر اسے محفوظ رکھتی ہے۔ مصر کے اہرام ہوں یا برطانیہ کے میوزیم، اٹلی شہر کی قدیم عمارات ہوں یا سلطنت عثمانیہ کی یادگاریں، ان اقوام نے اپنے ورثے کو سنبھالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے جو ان کی اپنے ماضی سے محبت کا منھ بولتا ثبوت ہے لیکن جنوبی ایشیائی ممالک جن میں بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ممالک شامل ہیں وہاں پر تاریخ اور تاریخی کرداروں و جگہوں کی قدر میں ہمیشہ کمتری اور بے قدری دیکھنے کو ملتی ہے۔

کبھی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا رہا ہے تو کبھی تاریخ سے جڑے افراد و واقعات کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ وطن عزیز بھی قیام کے وقت سے انہی حالات کا شکار رہا ہے۔ لاہور میں موجود تاریخی عمارات کے ساتھ بھی بے قدری برتی جاتی رہی ہے جو آج تک جاتی ہے۔ کہیں ان کو مسمار کر دیا گیا تو کہیں رنگ و روغن کر کے اصل نقش و نگار کو مٹا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ سے جڑے اور عام افراد آج اپنے تاریخی ورثے کو بھول چکے ہیں۔

لاہور میں موجود تاریخی عمارات کی بات کی جائے تو داتا دربار سے آدھا کلومیٹر پر واقع تاریخ کا ایک نادر نمونے بریڈلے ہال کی شکل میں ملتا ہے۔ اس عمارت کو تعمیر ہوئے کم و بیش 117 برس بیت چکے ہیں مگر آج یہ عمارت عصر حاضر کے لوگوں کے سوالیہ نشان ہے۔ بریڈلے ہال کے نام سے منسوب یہ عمارت سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے جو انگریزی فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ انگریز سیاست دان چارلز بریڈلو کے نام پر بنی یہ عمارت تین ہزار افراد کی گنجائش رکھتی ہے۔

یوں تو اس عمارت کے مشہور ہونے کی وجہ یہاں ہونے والی سیاسی سرگرمیاں تھیں لیکن مشہور تاریخ دان طارق کامران نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ جنگ عظیم اول کے خاتمے پر برصغیر کے چند بڑے منعقد مشاعروں میں سے ایک اسی تاریخی عمارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انڈیا کی اس وقت کی بڑی تھیٹر کمپنیوں نے بھی یہاں اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ بھگت سنگھ، لالہ راجپت رائے، مولانا ابوالکلام آزاد اور کانگریس کے دیگر رہنماؤں نے یہاں خطابت کے جوہر دکھائے۔ یہ عمارت لاہور کی تاریخ کا موتی ہے جو مناسب دیکھ بھال کی عدم موجودگی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کی تقدیر بدلنے کے حالات معدوم نظر آتے ہیں۔

برصغیر کی تاریخ کا جھومر ہمیشہ پنجاب کہلایا ہے اور اس جھومر کی پیشانی کا اعزاز ”شہر لاہور“ کو ملا ہے۔ لاہور ایک تاریخی، صنعتی، تجارتی، ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی روایات کو گہوارہ ہے۔ یہ تاریخی شہر دگرگوں حالات کا شکار ہے۔ شہر لاہور کی عظمت اس کا تاریخی ورثہ ہے جو امداد زمانہ کے باعث معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ لاہقر کی شان کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے تاریخی و ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنا بہت ضروری ہے اور یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھنے میں اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دے۔

شہر لاہور سے الفت یونہی تو نہیں،
اس پہ ہر شہر جو لوٹا بیٹھا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments