دوارکا سلطنت: زیرِ آب گمشدہ شہر کی تلاش جو ’کرشن کی موت کے بعد پانی میں ڈوب گیا‘


انڈیا
گزشتہ صدی کے دوسرے نصف میں انڈیا میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے آج کے شہر دوارکا کے قریب ہی اسی نام کے ایک اور قدیم شہر کی زیرِ آب تلاش شروع کی تھی۔ ماہرین کی کوشش ہے کہ اس شہر کے ایسے حقیقی شواہد ملیں جن سے اس کے وجود کے بارے میں تنازعات ختم ہو سکیں۔

ڈاکٹر الوک ترپاٹھی، اے ڈی جی، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا بتاتے ہیں کہ ‘انڈیا میں دوارکا کی خاص اہمیت ہے۔ یہ وہ واحد شہر ہے جو مہا بھارت میں بیان کیے گئے واقعات کے زمانے میں موجود تھا۔‘

ڈاکٹر الوک ترپاٹھی زیرِ آب آثارِ قدیمہ کے ماہر ہیں۔ وہ بحرِ ہند میں ڈوبے ہوئے کھنڈرات کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘زیر آب کھنڈرات کی اہم ترین کھدائیوں میں سے ایک دوارکا کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ یہ جگہ اپنی تاریخی اہمیت اور اپنی مذہبی عظمت کی وجہ سے اور ظاہر ہے کہ آثارِ قدیمہ کی وجہ سے بھی اہم ہے۔‘

دوارکا انڈین زائرین کے لیے سات مقدس مراکز میں سے ایک ہے۔ مہا بھارت میں اس شہر کا بھگوان کرشن کی سلطنت کے طور پر ذکر موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر کرشن کی موت کے بعد پانی میں ڈوب گیا تھا۔

دوارکا مندر کے پروہت مرلی ٹھاکر کہتے ہیں کہ ‘بھگوان کرشن اس شہر میں، جو ان کا جائے پیدائش تھا، سو برس تک رہے۔ دوارکا 84 کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی قلعہ بند بادشاہت تھی جو گومتی دریا کے کنارے قائم تھی اور آپ دیکھ سکتے ہے ہیں کہ گومتی کا یہاں بحیرہِ عرب میں سنگم ہوتا ہے۔‘

انڈیا

دوارکا مندر کے منتظم نارایاند براہماچاری کہتے ہیں کہ ‘جب بھگوان کرشن اگلے جہان سدھارے تو سمندر کے پانی نے دوارکا کو ڈبو دیا۔ مہا بھارت کے تیسرے باب کے 23ویں اور 24ویں اشلوک میں لکھا ہے کہ جب کرشنا 125 برس بعد اس دنیا سے کوچ کر کے روحانی دنیا سدھارے تو سمندر کے دیوتا نے بھگوان کرشن کے محل کے علاوہ باقی زمین واپس لے لی۔‘

ڈاکٹر الوک ترپاٹھی کے مطابق ‘پچھلی صدی کے وسط میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے ٹھوس ثبوت تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں تاکہ وہ اس بات کی تاریخی حقیقت شک و شبہ سے بالا ثابت کرسکیں۔ کھدائی کی پہلی کوشش ساٹھ کی دہائی میں پونا کے دکن کالج نے کی تھی اور 1979 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ایک اور کوشش کی تھی جس کے دوران ماہرین کو پرانے برتنوں کے کچھ نوادرات ملی تھیں جو ان کے خیال میں دو ہزار قبل مسیح کے دور کے تھے۔‘

کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کے سابق چیف سائنسدان ڈاکٹر راجیو نِگھم کہتے ہیں کہ ‘مہا بھارت میں کرشن بیان کرتے ہیں کہ دوارکا شہر سمندر کی بازیافت شدہ زمین پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن جب سمندر کا پانی دوبارہ اپنی بلند سطح پر آیا تو دوارکا شہر ڈوب گیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ‘زیرِ آب کھدائی کے کام کا آغاز موجودہ دوارکا مندر کے قریب کے علاقوں سے شروع ہوا تھا۔ یہاں کئی مندروں کا سلسلہ ملا جس کا مطلب ہے کہ جوں جوں پانی چڑھتا گیا مندروں کی جگہیں زمین کی جانب تبدیل ہوتی رہیں۔ اس مشاہدے نے انڈیا کے معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر ایس آر راؤ کو قائل کیا کہ کیوں نہ ساحل کے قریبی سمندر میں کھدائی کی جائے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ آیا یہاں اس ڈوبے ہوئے شہر کے ٹھوس ثبوت ہیں۔‘

انڈیا

ڈاکٹر الوک ترپاٹھی کے مطابق ‘کھدائی اور کھوج لگانے کے کام کے دوران مختلف قسم کی نوادرات دریافت ہوئیں۔ ہمیں یہاں خوشنما انداز کی رنگین اشیا ملی ہیں جن میں کئی رنگ استعمال کیے گئے ہیں۔ ہمیں سفید سطح پر سرخ کام ملا۔ یہاں سے پانچ سو سے زیادہ نوادرات اور دیگر نمونے ملے ہیں جو دو ہزار سال کے ثقافتی تسلسل کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ہمیں زیرِ آب پتھروں کے بنے ہوئے بلاک کی شکل کے ڈھانچے ملے تاہم ہمیں ان پتھروں اور باہر ملنے والے برتنوں کے درمیان کو تعلق نہیں ملا اور وہاں بہاؤ بہت تیز ہے۔‘

سمندر کے اندر سے قدیم دوارکا شہر کے کئی نوادرات ملے ہیں۔ پتھر کے بلاک، ستون اور آبپاشی آلات یہاں ہیں تاہم یہاں ملنے والی قدیم نوادرات کی عمر کے بارے میں بحث جاری ہے۔

ڈاکٹر الوک ترپاٹھی کہتے ہیں کہ ‘سنہ 2007 میں تفصیلی کھدائی کی گئی۔ میں اس پراجیکٹ کا ڈائریکٹر تھا۔ دوارکا انڈیا کی مغربی نوک پر ہے۔ اس کی لوکیشن ویسی ہی ہے جیسی تاریخی ادب میں بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سے ندی ہے جسے گومتی کہتے ہیں، جو یہاں آ کر سمندر میں مل جاتی ہے اور یہ دوارکا شہر ہے۔‘

’اس لیے ہم نے اس کے ارد گرد 200 سو مربع میٹر جگہ کا کھدائی کے لیے انتخاب کیا اور ہم نے آرکیالوجی کی سائنس کے مطابق اس علاقے کی گہری چھان بین کی۔ ہم نے دیکھا کہ 50 مربع میٹر میں زیادہ نوادرات ملیں جو بڑے سائز کی اور زیادہ محفوظ تھیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

وہ پانچ شہر جو کبھی آباد تھے مگر اب انھیں دیکھنے کے لیے زیر آب جانا پڑتا ہے

اردن کی وادی موسیٰ میں ’سیاحوں کا شہر‘

وہ شہر جہاں محمد بن قاسم نے سندھیوں سے ’آخری‘ لڑائی لڑی

انڈیا

انھوں نے مزید بتایا کہ ‘یہاں ہمیں دس میٹر کی ایک جگہ کے کھنڈر ملے جسے سمندر نے تباہ کردیا تھا۔ ہم نے تقریباً دو ناٹیکل میل ضرب ایک ناٹیکل میل علاقے کا ایک ہائیڈروگرافک سروے کرایا۔ اس علاقے کی ہائیڈروگرافک سروے کی تفصیلی شیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ندی کے بہاؤ میں تبدیلی آتی رہی ہے۔‘

’ہم نے اس کی بہت ہی درست پیمائش کی اور مناسب طریقے سے غوطہ خوروں کی جگہوں پر نشانات لگائے، ہم جہاں گئے وہاں نمبروں والے پتھر کے نشانات نصب کیے۔ اگر آپ زیادہ گہرائی میں جائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ یہ جگہیں قدرتی نباتات سے بہت زیادہ ڈھکی ہوئی ہیں اور اگر آپ انھیں صاف کریں تو پھر ان کی شکلیں واضح ہونا شروع ہوتی ہیں۔ اس جگہ سے بہت سارے پتھر ملے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بلاشبہ یہ ایک قدیم بڑی بندرگاہ تھی۔‘

ڈاکٹر راجیو نِگھم کہتے ہیں کہ ‘یہ جاننے کے لیے کہ سمندر کی سطح میں کیا اتار چڑھاؤ آیا، ہم نے کمپیوٹر کے ذریعے پچھلے پندرہ ہزار برس کے ریکارڈ کی ایک پراجیکشن بنائی۔ پندرہ ہزار برس پہلے سطح سمندر سو میٹر نیچے تھی۔ پھر سطح سمندر بلند ہونا شروع ہوئی اور سات ہزار برس پہلے سطح سمندر موجودہ سطح سے زیادہ تھی اور ساڑھے تین ہزار برس پہلے دوارکا شہر آباد تھا۔ اس کے بعد سمندر دوبارہ بلند ہوا اور یہ شہر ڈوب گیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments