فرانس اور نیپولین کا دور


(نوٹ: یہ مضمون املا کی چند غلطیوں کو درست کر کے، بغیر کسی خاص تبدیلی کے شائع کیا جا رہا ہے۔ ایک طویل مضمون جس میں کمپوزنگ، گرائمر اور املا کی بہت زیادہ غلطیاں ہوں، درست کرنا ہمارے موجودہ وسائل کے تحت ممکن نہیں: مدیر)

1789 میں انقلاب آنے کے بعد ستمبر 1791 میں بنائے گئے آئین کے تحت فرانس کو جمہوریہ قرار دیا گیا۔ اسی دوران نیشنل کنونشن ( اسمبلی ) حالات کے تحت چند ایک آئینی اور انتظامی تبدیلیاں کرتی رہی۔

1793 میں جیکوبن نامی ریڈیکل انقلابیوں کے رہنما ”روبیس پئیر کو تسلط حاصل ہوا جس کا دور“ دہشت کا دور تھا۔

1795 میں اس کی جگہ نیشنل کنونشن نے بالائی درمیانے کلاس سے متعلق معتدل رہنماؤں پر مشتمل پانچ افراد کی انتظامیہ، جس کو ”ڈائریکٹری“ کہا جاتا تھا۔ تشکیل دیا۔ جنہوں نے ملک میں نظم و ضبط قائم کیا اور فرانس کے لیے ایک بہترین جرنیل نیپولین کا انتخاب کر دیا

”نیپولین“ کا شمار دنیا کے ایک عظیم عسکری نابغے میں کیا جاتا ہے۔ جدید دور بالخصوص یورپ کی تاریخ پر اس کا بڑا اثر رہا ہے۔

15 اگست 1769 کو بحیرہ روم کے جزیرے ”کورسیکا“ میں پیدا ہونے والا ”نیپولین“ 1785 میں ملٹری سکول سے فارغ التحصیل ہو کر 16 سال کی عمر میں فرانسیسی توپ خانے میں لیفٹیننٹ بن جاتا ہے۔ 1789 کے فرانس انقلاب کے بعد وہ نئی حکومت کی فوج میں شمولیت اختیار کر لیتا ہے۔

بحیثیت ہیرو۔ @۔ اکتوبر 1795 کو تقدیر نے اس نوجوان افسر ( نیپولین) کو نامور بننے کا ایک موقع اس وقت دیا جب انقلاب کے مخالف اور شاہ پرست باغی انقلابی حکومت کی اسمبلی ”نیشنل کنونشن“ پر دھاوا بول رہے تھے تو ڈائریکٹری Directory

نے کنونشن کے وفود کی حفاظت کی ذمہ داری ”نیپولین“ کے سپرد کی۔ تو ”نیپولین“ نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان ہزاروں بلوائیوں کو چند منٹوں میں منتشر کر کے بھگا دیا گیا۔ سارے پیرس میں وہ ”جمہوریہ فرانس“ کے محافظ

اور ایک ”ہیرو“ کی حیثیت
حاصل کر گیا۔
اگلے سال 1796 میں

ڈائریکٹری ”نے اس کو“ آسٹریا ”اور“ سارڈینا ”Sardinia ) افواج کے خلاف فرانسیسی فوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا جہاں اس نے کئی شاندار کامیابیاں حاصل کر لیں۔

اس کے بعد اس کو برطانیہ کے خلاف مصر ”کی مہم پر بھیجا گیا۔ یہاں اگرچہ اس کو“ برطانوی بحریہ ”نے ناکام بنا دیا تاہم اس نے اپنی ناکامی کو اخبارات سے چھپانے کا انتظام کر لیا اور یوں فرانسیسی عوام میں اس کی عظیم ہیروشپ کی ساکھ برقرار رہی۔

اقتدار پر قبضہ۔ @
1799 میں ڈائریکٹری ”کا سیاسی حالات پر کنٹرول نہیں رہا تھا اور عوام کا اعتماد کھو چکی تھی

” مصر“ سے واپسی پر ”نیپولین“ نے دوستوں کے ایما پر سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔ نومبر 1799 میں ”نیپولین“ نے قومی اسمبلی کا گھیراؤ کر کے زیادہ تر ارکان کو نکال باہر کیا جبکہ بقیہ ممبران نے ڈائریکٹری ”کو تحلیل کرنے کے لیے ووٹ دیا۔

ڈائریکٹری کی جگہ تین قونصل ”( Councils) پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا گیا جس کا ایک قونصل“ نیپولین ”تھا۔ “ نیپولین ”نے جلد ہی“ قونصل اول ”کا عہدہ لے کر آمرانہ اختیارات حاصل کر لیے۔ اس کے اس اقدام کو کو دیتا ( Coup d ’Etat ) کہا گیا۔ نیپولین کے“ کو دیتا ”کے وقت فرانس تاحال حالت جنگ میں تھا۔ 1799 میں نیپولین کے اقتدار میں آنے کے ساتھ برطانیہ، آسٹریا اور روس کی مشترکہ افواج کا بنیادی مقصد اس کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔

جن سے نمٹنے کے لیے“ نیپولین ”ایک بار پھر فوج کی کمان کرتا ہوا محاذ پر گیا۔ لڑائی اور حکمت عملی سے بالآخر ان تینوں ممالک کو فرانس سے امن معاہدے کرنے پر آمادہ کیا۔ یوں 1802 میں یورپ میں دس سال کے بعد پہلی بار امن قائم ہوا۔ اس سے نیپولین“ نے اپنی توانائیاں فرانس میں نظم و ضبط قائم کرنے پر مرکوز کر لیں۔

فرانس پر ”نیپولین“ کی حکومت۔ @

ابتدا میں نیپولین نے تاثر یہ دیا تھا کہ وہ آزاد جمہوریہ کا آئینی طور پر منتخب رہنما ہے۔ 1800 میں نئے آئین کی توثیق کے لیے ریفرینڈم کرایا گیا۔ ایک مضبوط قیادت کی خواہاں عوام نے اس آئین کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیے جس نے ”نیپولین“ کو بحیثیت قونصل اول ”حقیقی اقتدار عطا کیا۔

اندرونی نظم و نسق کا قیام۔ @

”نیپولین نے“ لوئیس شش دہم ” ( Louis 16 ) کے دور پر واپس جانے کے بجائے انقلاب کے تحت کی گئیں تبدیلیوں کو برقرار رکھا۔ مرکزی حکومت کو مضبوط کرانے اور انقلاب کے بعض مقاصد کے حصول سے متعلق قوانین کی حمایت کی

اندرونی طور اس کے سامنے پہلا کام ”معیشت“ کو مستحکم کرنا تھا۔ اس ضمن میں ٹیکس اور بنک نظام بہتر بنانے کے علاوہ کرپشن اور نا اہلیت کے حوالے سے موثر اقدامات کیے ۔ افسروں کی تربیت کے لیے سکول قائم کیے ۔ جن کی تقرری میرٹ پر کی جاتی تھی۔

مذہب ایک ایسا شعبہ تھا جہاں اس نے اس کے حوالے سے انقلاب کے تحت کی گئیں تبدیلیاں پسند نہیں کیں۔ چونکہ ”پادری“ اور بہت سارے کسان فرانس میں چرچ کی حیثیت بحال کرنا چاہتے تھے تو ان کی خواہش کے احترام میں ”نیپولین“ نے پوپ ”Pious 7“ کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا جس کے تحت چرچ اور ریاست میں ایک نیا تعلق قائم ہوا۔ حکومت نے چرچ کی اہمیت کو تسلیم کر لیا لیکن قومی معاملات میں چرچ کی بالادستی کو مسترد کر دیا۔ اس معاہدے سے نیپولین کو چرچ اور عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو گئی۔

”نیپولین“ کا ایک سب سے بڑا کارنامہ ایک جامع ”نظام قوانین“ کا مرتب کرنا تھا۔ جس کو ”نیپولینک کوڈ“ (Naploianic Code) کہا جاتا ہے۔ اس سے ملک کو ایک یکساں مجموعہ قوانین ملا اور بہت ساری نا انصافیوں کا خاتمہ ہوا۔ تاہم اس نے آزادی کو قدرے محدود اور انفرادی حقوق کو اتھارٹی کے تحت کرا دیا۔

کیریبین ” (Caribbean ) جزائر کے فرانسیسی کالونیوں میں غلامی کو بحال کر دیا۔
1804 کے اخیر میں اپنے لیے ”شہنشاہ“ کا لقب اختیار کر لیتا ہے۔
سلطنت کا آغاز۔ @۔

نیپولین صرف فرانس کی بادشاہت پر قانع نہیں تھا بلکہ وہ بقیہ یورپ پر تسلط حاصل کرنے کے ساتھ براعظم امریکہ میں فرانسیسی اقتدار کا احیاء بھی چاہتا تھا۔ وہ براعظم امریکہ میں ”لاوسینا،“ فلوریڈا ”فرانسیسی گیانا“ اور ”فرانسیسی ویسٹ انڈیز“ کو شامل سلطنت کرنے کا خواہاں تھا۔ اس حوالے سے ”ہسپانیولا ( Hispaniola ) جزیرے میں واقع گنا کی پیداوار والی کالونی“ سینٹ ڈومینگو ( جدید نام ہیٹی ) اہم سمجھتا تھا۔

امریکی مقبوضات سے محرومی۔ @

1789 میں جب انقلابی نظریات ”سینٹ ڈومینگو“ کے کاشتکاروں تک پہنچے تو انہوں نے بھی مطالبہ کیا کہ انہیں بھی فرانسیسی عوام کی طرح مراعات دی جائیں۔ کالونی کے افریقی غلاموں نے آزادی اور حقوق کی جدوجہد سے خانہ جنگی شروع ہوئی۔ جس میں بالآخر افریقیوں نے کالونی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ 1801 میں ”نیپولین“ نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر بوجوہ کامیاب نہ ہوسکا۔ سینٹ ڈومینگو ”کی مہم جوئی میں ناکامی کے بعد“ نیپولین ”نے 1803 میں لاوسینا“ کا علاقہ 15 ملین ڈالر کے عوض امریکہ کو فروخت کر دیا۔

یورپ کی فتح۔ @)

امریکی مقبوضات سے ہاتھ دھونے کے بعد نیپولین نے اپنی توجہ یورپ پر مرکوز کر لی۔ یہاں وہ پہلے ”آسٹرین نیدرلینڈ“ اور اٹلی کے کچھ حصوں کو فرانس سے منسلک کر چکا تھا۔ اس کے علاوہ ”۔ سوئزر لینڈ“ میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی تھی۔ اب وہ بقیہ یورپ پر نظریں جما رہا تھا۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے برطانیہ نے روس، آسٹریا اور سویڈن ”کو فرانس کے خلاف متحدہ محاذ بنانے پر آمادہ کیا۔ جس کا نیپولین نے اپنی روایتی پامردی سے مقابلہ کیا۔ کئی لڑائیوں میں ان کو مسلسل شکستیں دیں۔

دسمبر 1805 میں آسٹرلیز ( Austerlitz ) کی لڑائی میں روس اور پریشیا کے مقابلے میں فتح پر نیپولین نے بڑا فخریہ بیان جاری کیا۔

جنگی محاذ پر نیپولین کی کامیابیوں کے باعث ”آسٹریا“ ، ”پریشیا“ اور ”روس“ کو فرانس سے امن معاہدے کرنے پڑے۔ ان کامیابیوں سے ”نیپولین“ نے قدیم رومن سلطنت کے بعد بڑی یورپی سلطنت قائم کر لی۔ اب فرانس کا واحد دشمن بحری طاقت ”برطانیہ“ رہ گیا تھا۔

ٹرافالگار (Trafalgar ) کی لڑائی۔ @۔ ۔

یورپی سلطنت استوار کرنے کی اپنی مہم میں نیپولین کو جس بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہ ”1805 میں اسپین کے جنوب مغربی ساحل کے مقام“ ٹرافالگار ”Trafalgar کے مقام پر برطانیہ کے ساتھ بحری لڑائی تھی۔ برطانوی ایڈمرل“ نیلسن ” ( Nelson) کے ہاتھوں فرانسیسی بحریہ کی یہ شکست نیپولین کی بہت ساری فتوحات سے وزنی نکلی۔

فرانسیسی بحریہ کی تباہی کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ اس سے سمندروں میں برطانیہ کی بالادستی قائم ہو گئی دوسرا یہ کہ اس سے نیپولین کو برطانیہ پر حملے کرنے کے منصوبے ترک کرنی پڑیں۔ اور اپنے اس بڑے دشمن سے نمٹنے کے لیے اس کو دوسری راہ تلاش کرنی پڑی۔

فرانسیسی سلطنت۔ @۔ ۔

1810 تک کی فتوحات سے نیپولین بیشتر یورپ پر تسلط حاصل کر چکا تھا۔ 1812 تک اس کے تسلط سے صرف ”برطانیہ“ پرتگال ”، سویڈن“ اور سلطنت عثمانیہ کے علاقے ( جزیرہ بلقان ) باہر تھے۔ نیپولین سلطنت میں شامل علاقوں کے علاوہ متعدد نام نہاد آزاد ممالک ( اسپین ”،“ وارسا ”اور وسطی یورپ کی متعدد جرمن راج“ دہانیاں ) بھی نیپولین کے کنٹرول میں تھے۔ ان کے حکمران یا تو نیپولین کے خاندان کے افراد تھے یا ان کے

کٹھ پتلیاں تھے

اس کے علاوہ ”روس“ آسٹریا ”اور پریشیا“ جیسے طاقتور ممالک اس کی سلطنت سے اتحادوں کے ذریعے منسلک تھے جو اگرچہ نیپولین کے پورے کنٹرول میں تو نہ تھے تاہم ان کو فوجی دباؤ سے تابع فرمان رکھا جا سکتا تھا۔ فرانسیسی سلطنت اگرچہ وسیع تھی مگر غیر مستحکم تھی۔ نیپولین اس کی وسعت کو 1807 سے 1812 تک صرف پانچ سال تک قائم رکھ سکا۔ اس کے بعد یہ تیزی سے ٹکڑے ہونے لگی۔ اس کا اچانک خاتمہ بڑی حد تک نیپولین کے بعض غلط اقدامات کے بنا ہوا۔

سلطنت نیپولین کا انتشار۔ @
______________

نیپولین کی اپنی پہلی بیوی ”جوزفین“ سے اولاد نہیں تھی۔ اس لیے اس کو طلاق دے کر 1810 میں آسٹریا کی شاہی خاندان کی ”ماری لوئیس“ سے شادی کرلی۔ 1811 میں جانشین ( بیٹا) تو پیدا ہوا۔ مگر اس کی سلطنت اس کی غلطیوں کی وجہ سے خطرے کا شکار ہونی لگی۔

نیپولیین کی غلطیاں @
_ __________________

سلطنت کے مستقبل کو سب سے بڑا خطرہ خود نیپولین کی شخصیت تھی۔ اقتدار کی خواہش نے اس کو بلندیوں تک پہنچایا تھا اور یہی خواہش اس کے زوال کا سبب بھی ہوا۔

اپنی سلطنت کی توسیع اور برطانیہ کو تباہ کرنے کی کوشش میں نیپولین نے ”تین“ بڑی غلطیاں کیں۔
1۔ کانٹینینٹل سسٹم ( Continental System) ۔

نومبر 1806 میں اس نے بندرگاہوں کا محاصرہ ( بلاکیڈ) کر دیا۔ اس کا مقصد برطانیہ اور دوسری یورپی اقوام کے مابین تجارت اور مواصلات کو منقطع کرنا تھا۔ اس کو اس نے ”کانٹینینٹل سسٹم“ کا نام دیا کیونکہ اس سے نیپولین کے مطابق براعظم یورپ زیادہ خود کفیل ہو جائے گا جبکہ ایک مقصد برطانوی تجارت اور صنعت کو برباد کرنا تھا۔ مگر اس کے ”بلاکیڈ“ کا یہ منصوبہ زیادہ موثر ثابت نہ ہوا۔ برطانیہ کی تجارت کو کسی حد کمزور ضرور کیا لیکن برطانیہ نے جوابی ”بلاکیڈ“ سے کام لیا۔

جو برطانیہ کے مضبوط بحریہ کے باعث کار آمد ثابت ہوا۔ اس پر عمل درآمد کے لیے برطانیہ کی نیوی ”یورپ کی طرف جانے والے نیوٹرل بحری جہازوں کو تلاشی کی غرض سے برطانوی بندرگاہ لے آتے۔ تلاشی کے علاوہ ان سے ٹیکس بھی لیتے۔ ایسے رکوائے گئے جہازوں میں امریکی جہاز بھی تھے۔ جس کے ردعمل میں امریکی کانگریس نے 1812 میں برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اگرچہ یہ جنگ دو سال تک جاری رہی مگر نیپولین کے ساتھ اس کی کشمکش میں برطانیہ کے لیے یہ کچھ زیادہ مشکل کا باعث نہ ہوا۔

2 ایبری جزیرہ نما (Iberian Peninsula war ) ( اسپین ) کی جنگ۔ @۔
____________________

1808 میں نیپولین ایک اور خطرناک غلطی کر دی۔ کانٹینینٹل سسٹم پر ”پرتگال“ سے عمل کروانے کے لیے اس نے ”اسپین“ کے علاقے پر سے حملہ آور روانہ کر دیے۔ جس پر اسپینی عوام نے سخت ردعمل دکھایا۔ جواب میں ”نیپولین“ نے وہاں کے بادشاہ کو ہٹا کر اپنے بھائی ”جوزف“ کو تحت پر بٹھایا۔ اس اقدام نے اسپینی عوام کو مزید مشتعل کر دیا قوم پرستانہ جذبات کے علاوہ یہاں کے ”کیھتولیک“ اکثریت کو یہ خدشہ بھی ہوا کہ ان کے چرچ کو بھی فرانس کی طرح کمزور کر دیا جائے گا۔ چھ سال تک اسپینی کسانوں کے گوریلا جتھے اسپین میں فرانس کی افواج سے لڑتے رہے جن کو برطانیہ کی فوجی امداد بھی حاصل تھی۔ ابیری جزیرہ نما ”کی اس جنگ میں“ نیپولین ”کے 3 لاکھ فوجی مارے گئے۔ جس نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔

اس کا ایک نتیجہ سلطنت سے منسلک ممالک میں قوم پرستی کی لہروں کی صورت میں آیا۔ اسپینی گوریلوں کی طرح جرمن، اٹلی اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کے عوام فرانس کے خلاف اٹھنے لگے۔

3 روس پر حملہ @
________________
نیپولین کی سب سے شدید غلطی 1812 میں
اس کا روس پر حملہ تھا۔ اگرچہ زار روس ”

الیگزینڈر اول ”نیپولین کا اتحادی تھا مگر اس نے برطانیہ کو گندم کی فروخت بند نہ کی تھی۔ اس کے علاوہ“ پولینڈ ’کے بارے میں روس اور فرانس کو ایک دوسرے کے عزائم کے بارے شک تھا۔ تعلقات میں اس کشیدگی کے باعث ”نیپولین“ نے روس پر حملہ کی ٹھان لی۔ جون 1812 میں ”نیپولین“ اپنے 4 لاکھ 20 ہزار لشکر کے ساتھ روس پر حملے کے لیے نکلا روس میں ”الیگزینڈر“ نے سکورج ارتھ پالیسی ”( Schorched، earth۔ policy ) پالیسی اپناتے ہوئے فصلوں اور جانوروں کو ضائع کر کے پسپائی اختیار کر لی۔

پھر 7 ستمبر 1812 کو دونوں لشکروں کا ”برو ڈیمو“ ( ماسکو کے مغرب کا شہر ) میں مقابلہ ہوا۔ کئی گھنٹوں کی بے نتیجہ لڑائی کے بعد روسی پیچھے ہٹ گئے۔ اور نیپولین کو ”ماسکو“ کی طرف بڑھنے دیا۔ سات دن کے بعد جب وہ ماسکو میں داخل ہوا تو شہر کو شعلوں کی لپیٹ میں پایا۔ روسیوں نے اس کو پالیسی کے تحت تباہ کیا تھا۔ اس اجڑے شہر میں اکتوبر کے وسط تک رہنے کے بعد نیپولین نے واپس فرانس جانے کا فیصلہ کر دیا۔ چونکہ ایک تو نومبر سے برف باری اور شدید سردی شروع ہوئی۔ دوسرا اسی دوران روسی افواج نے نیپولین کی فوج پر بے دردی سے حملہ کر دیا۔ جس سے اس کے بہت سارے فوجی ہلاک ہو گئے۔ اور بعض تھکاوٹ، سردی اور بھوک سے مر گئے۔ بالآخر دسمبر کے وسط میں بقیہ فوجی روس سے نکل آئے۔ ان میں لڑنے والے صرف 10 ہزار سپاہی رہ گئے تھے۔

نیپولین کا زوال۔ @
___________________

ان حالات میں نیپولین کے دشمنوں نے اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ برطانیہ، روس، پریشیا اور سویڈن نے اس کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا۔ حتی کہ ”آسٹریا“ نے بھی رشتہ داری کے باوجود نیپولین کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یورپ کی بڑی طاقتیں اب فرانس کے خلاف آمادہ بجنگ تھیں۔

نیپولین کی شکست۔ @
___________________

اگرچہ نیپولین نے چند مہینوں کے اندر نئی فوج بنا ڈالی مگر یہ زیادہ تر غیر تربیت یافتہ اور غیر معیاری تھی۔

اکتوبر 1813 میں اس کو جرمنی کے شہر لیپزگ ” ( Leipzig ) کے باہر یورپی طاقتوں کی متحدہ فوج سے سامنا ہوا جنہوں نے فرانس کے غیر تجربہ کار فوج کو بآسانی شکست دی۔ جنوری 1814 میں اتحادی فوجیں“ پیرس ”کی جانب بڑھنے لگیں۔ دو ماہ بعد“ پریشیا کے ”ولئیم فریڈریک“ اور روس کے ”الیگزینڈر اول“ اپنی افواج کے ساتھ دارالحکومت ”پیرس“ میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ گو نیپولین لڑنا چاہتا تھا مگر اس کے جرنیلوں نے لڑنے سے انکار کر دیا۔ جس پر اپریل 1814 کو ”نیپولین“ نے ہتھیار ڈال دیے اور تحت سے دستبردار ہو گیا

فاتحین نے اس کو تھوڑی سی پینشن دے کر ”اٹلی“ کے ساحل پر ایک چھوٹے سے جزیرے ”ایلیبا“ (Eleba ) میں جلا وطن کر دیا۔

سو دن Hundered Days ) کا دوبارہ اقتدار @۔ ۔

اس کے بعد فرانس کے تحت پر ”لوئیس شش دہم“ کا بھائی ”لوئیس ہشت دہم“ (Louis 18 ) کے لقب سے بیٹھا دیا گیا مگر وہ جلد اپنی رعایا، بالخصوص کسانوں میں غیر مقبول ہو گیا کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ نیا بادشاہ انقلاب کے تحت کیے گئے ”لینڈ ریفامرز ( Land Reforms)“ کو منسوخ کر دے گا۔ لوئیس ہشت دہم ”کی مشکلات کی خبر“ نیپولین ”کے لیے دوبارہ اقتدار کے حصول کا محرک بنی۔ وہ یکم مارچ 1815 کو“ ایلیبا ”سے فرار ہو کر فرانس پہنچا۔ جہاں اس کا شاندار خیرمقدم ہوا۔ پرجوش ہجوم اس کے“ پیرس ”کی طرف مارچ میں ساتھ یو گئے۔ اور ہزاروں رضا کار اس کی فوج کا حصہ بنے۔ چند دنوں میں“ نیپولین ’پھر سے فرانس کا بادشاہ بن گیا۔

اس کے جواب میں اتحادیوں نے فوراً اپنی افواج کو متحرک کیا۔ برطانوی فوج ”ڈیوک آف ویلنگٹن“ کی کمان میں ”بیلجیم“ کے قریب ”واٹر لو“ کے میدان میں جنگ کے لیے تیار ہو گئی۔ 18 جون 1815 کو ”نیپولین“ نے حملہ کر دیا۔ سہ پہر کو ”پریشیا“ فوج بھی برطانیہ کی مدد کو آ پہنچی۔ دونوں کے مشترکہ حملے کے سامنے فرانسیسی فوج جم نہ سکی۔ دو دن کے بعد نیپولین کی افواج کی شکست مکمل ہو گئی

اس شکست سے نیپولین کے ”سو دن“ پر مبنی اقتدار کی کاوش کا خاتمہ ہو گیا۔
اور اس کی جگہ ”پھر سے بھوربن خاندان کی بادشاہت بحال کر دی گئی۔

حکومت برطانیہ نے اس بار ”نیپولین“ کو ”جنوبی بحر اوقیانوس“ کے ایک دور افتادہ جزیرے ”سینٹ ہلینا“ ( St Helena ) جلا وطن کر دیا۔ جہاں وہ چھ سال زندہ رہا۔ اپنی یادداشتیں قلمبند کر لیں۔ 1821 میں وہاں فوت ہو گیا۔

نیپولین بلا شبہ ایک عسکری نابغہ اور بہترین منتظم اور کئی منفرد صلاحیتوں کا مالک تھا۔

جدید یورپی تاریخ پر اس کے گہرے اثرات ہیں اور یوں بہت اہمیت ہے۔ تاہم اس کی تمام فتوحات اور کارناموں کا موازنہ ان کی برپا کردہ جنگوں میں ہلاک ہونے والے لاکھوں افراد سے کیا جائے تو اس کی عظمت ماند پڑ جاتی ہے

فرانس کے ایک ادیب ”الیکسیز ڈی ٹو کیوویلی ( Alexis De Tocqueville ) نے لکھا ہے کہ
He was as great as a man can be with out vi
نیپولین کی شکست پر آزاد یورپی ممالک کے رہنما
”کانگرس آف ویانا“ کے ذریعے یورپ میں نیو ورلڈ آرڈر ”کے قیام کا راستہ نکالنے میں لگ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments