مریم نواز نے ثابت کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی اگلی لیڈر وہی ہیں


پاکستان کی سیاست میں اس وقت دو اہم سیاسی خاندان ہیں، ایک بھٹو خاندان اور دوسرا شریف خاندان، اور دونوں میں بہت سارے مشترکات پائے جاتے ہیں۔ شریف خاندان سے میری مراد نواز شریف اور مریم ہیں۔ شریف خاندان میں شہباز شریف ہمیشہ ثانوی حیثیت میں رہے۔ لیڈر کا کردار نواز شریف ادا کرتے رہے۔

ذوالفقار بھٹو کا شمار پاکستان کے مدبر لیڈروں میں ہوتا ہے۔ جب وہ وزیراعظم بنے تو ایک آمر کے ساتھ ٹکرا گئے۔ نواز شریف کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اختیارات کے معاملے میں جرنیلوں کے ساتھ ان کی کبھی نہیں بنی اپنے ہاتھوں لگائے سپاہ سالار نے انھیں اقتدار سے نکال باہر کیا۔ دوبارہ اقتدار میں آئے تو پھر نادیدہ قوتوں نے ان کے لیے مشکلات پیدا کی انھیں نہ صرف اقتدار سے نکال باہر کیا بلکہ طویل مقدمات میں الجھا دیا گیا۔

بھٹو خاندان اور شریف خاندان میں مشترکات پائے جاتے ہیں جو حیران کن ہیں۔ ذوالفقار بھٹو کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، اسی طرح نواز شریف کے بھی دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بھٹو خاندان کی طرف سے سیاسی وارث ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو شہید ٹھہریں۔ شریف خاندان میں نظر بظاہر سیاسی وارث مریم نواز ہی ہیں۔ بھٹو کا ایک بیٹا فرانس میں زہر خورانی کی وجہ سے جاں بحق ہوا جبکہ دوسرے بیٹے مرتضی بھٹو نے بے نظیر بھٹو شہید کی سیاست کو چیلنج کیا انھیں اپنی والدہ نصرت بھٹو کی ہمدردیاں بھی ملی مگر بے نظیر بھٹو شہید کے مقابلے میں سیاست کا یہ چراغ جل نہ سکا۔ سیاست کا چراغ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا روشن ہوا۔

میاں نواز شریف کے بیٹے بھی سیاست سے دور ہیں اور ان کی دوسری بیٹی اسما نواز کا بالکل صنم بھٹو کی طرح جو اس وقت لندن میں مقیم ہیں، سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔

میاں نواز شریف کے برادر اصغر میاں شہباز شریف اور ان کے فرزند ارجمند حمزہ شہباز شریف سیاست میں ہیں مگر ان کا کردار ہمیشہ ثانوی رہا۔ پاپولر لیڈر میاں نواز شریف ہیں ان کے نام کا ووٹ بنک ہے لیگی کارکنان آج بھی میاں نواز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف ہمیشہ اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے ماتحت رہے آج وزیراعظم ہونے کے باوجود بھی فیصلے میاں نواز شریف کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف جب چاہیں وہ شہباز شریف سے پارٹی صدارت لے سکتے ہیں اور کارکنان میاں نواز شریف کے اس فیصلے کو قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔

پاکستان جیسے ملک میں لیڈر شپ کے اندر چار خصوصیات کا ہونا اہم ہے اور یہ چاروں خصوصیات مریم نواز کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح مریم نواز پرکشش شخصیت کی حامل ہیں۔ عوام کے اندر انھیں پذیرائی خوب ملتی ہے۔ راقم الحروف پچھلے چار سال سے پانامہ کیس کور کر رہا ہے۔ مریم نواز جب بھی پیشی پر عدالتوں کے سامنے حاضر ہوتی ہیں تو کارکنان دور دراز سے ان کی ایک جھلک دیکھنے کو آتے ہیں۔ ہر مقبول لیڈر کے اندر ایک غیر مرئی کشش ہوتی ہے اور وہ غیر مرئی کشش مریم نواز کے اندر بدرجہ اتم موجود ہے۔

پاکستان کے عوام اس لیڈر شپ کے گن گاتے ہیں جو دلیر، نڈر اور بہادر ہو۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی سیاست مصلحت کے گرد گھومتی ہے جبکہ مریم نواز کی سیاست للکار کے گرد گھومتی ہے۔ مریم نواز شریف کی اسی للکار پر کشمیر کی سرسبز وادیاں ہوں یا پنجاب کے میدان، گلگت بلتستان کے سنگلاخ پہاڑ ہوں یا سندھ کے ریگستان لوگ دیوانہ وار باہر نکلتے ہیں اور انھیں پسند کیا جاتا ہے۔

مریم نواز کی ایک اور اہم خصوصیت ہے کہ انھوں نے کہنہ مشق سیاسی اتالیق کی نگرانی میں تقریر پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ وہ عوام کی نبض شناس ہیں اور جان چکی ہیں کہ سامعین کے اندر جوش و جذبہ کب بیدار کرنا ہے اور کب کیا بات کہنی ہے۔

لیڈر کے طور پر جو چیزیں درکار ہوتی ہیں مریم نواز ان سے گزر چکی ہیں۔ راقم الحروف نے احتساب عدالت میں پانامہ کیس کی کم و بیش 180 پیشیاں کور کی ہیں اور آج بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں مریم نواز کا کیس کور کر رہا ہوں۔ احتساب عدالت میں مریم نواز اپنے والد میاں نواز شریف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہی کسی بھی موقع پر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ بیمار والدہ کو لندن چھوڑ کر باپ کے ساتھ 13 جولائی کو اسلام آباد آئیں اور اڈیالہ جیل چلی گئیں۔ انھوں نے کسی بھی موقع پر معافی نامہ تحریر نہیں کیا بلکہ والد میاں نواز شریف کی ہمت بندھاتی رہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے احتساب عدالت نے جب انھیں سزا سنائی تو ان کے والد میاں نواز شریف کی آنکھوں میں اشک آ گئے مگر مریم نواز کے چہرے پر پریشانی کا شائبہ تک نہیں گزرا۔

وزیراعظم اور وزارت اعلی کے لیے بہت ساری چوائس ہوتی ہیں مگر جلسوں سے خطاب کرنا ہو تو مریم نواز، لوگ اکٹھے کرنا ہوں تو مریم نواز اور پھر جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کو ووٹر میں بدلنا ہو تو مریم نواز کو آگے آنا پڑتا ہے۔ میاں نواز شریف کی سیاست کو چیلنج کرنے والی شخصیت کوئی نہیں تھی نون لیگ کو جینوئن لیڈر شپ مریم نواز کی صورت میں مل گئی ہے دور دور تک مریم نواز کی لیڈر شپ کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں۔ نون لیگ کا مستقبل مریم نواز اور مریم نواز کا مستقبل نون لیگ ہے باقی سب لیڈر شپ ثانوی ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments