آئین کی عزت سے ہی قوم کی عزت ہے


آئینی اداروں کو اپنی حدود میں رہنے کی ترغیب دینے والے سیاستدانوں نے ملک کے سب سے بڑے آئینی، عوامی نمائندہ اور انتظامی ادارے پارلیمنٹ اور ملکی انتظام و انصرام کے اعلیٰ عہدوں کی تضحیک کی حدیں پار کر دیں۔ آئینی کا مذاق اڑایا اور پارلیمان کی رکھوالی کے منصب پر مامور سپیکر کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کو بچانے کے لئے ایک ایسا کھیل کھیلا جس کی جمہوری ادوار میں مثال نہیں ملتی۔

اور پھر صرف یہ ہی نہیں بلکہ آئین کی حفاظت اور اپنے حلف کی پاسداری میں عدالتوں کے آئینی دائرہ اختیار کو بھی نظر انداز اور اس کا مذاق اڑایا گیا اور ابھی تک وہ روش اپنی جگہ پر قائم ہے۔

سپریم کورٹ نے اس اخلاقی، سیاسی اور آئینی بحران کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کارروائی کر کے پاکستان کو اخلاقی پستی کے شکار سیاستدانوں کی غیرآئینی اور غیر دانشمندانہ سرگرمیوں سے جان چھڑانے کے لئے اپنے حالیہ فیصلے میں حکومت اور پارلیمان کو ایک واضح حکمت عملی وضع کرنے کا موقع فراہم کیا ہے تاکہ اس طرح کے خطرات کا مستقبل میں راستہ بند کیا جا سکے۔

اب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ آئین اور عدالت عالیہ کے رائے کی روشنی میں اقدامات اٹھا کر آئین، جمہوریت اور قانون کی عملداری کو یقینی بناتی ہے یا پھر اس کوایک بار پھر اپنی سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ اب وقت ہے اداروں کو تقویت، اعتماد اور ایک آخری انتباہ دینے کا کہ اب مزید سیاسی کھلواڑ کی کوئی گنجائش نہیں۔

آئین اور قانون کو اس کی روح کے مطابق حرکت میں لاکر نظام انصاف کو اپنی طاقت استعمال کرنے کا موقع دینا ہو گا تاکہ کوئی ایسی مثال بن سکے جو ماضی کے تمام طعنوں کو دھو سکے اور سات دہائیوں سے ہونے والی قومی بے وقوفیوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔

اس ملک میں اگر ججز اور جرنیلوں کی مثالیں خوش آئند نہیں تو سیاستدان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں لیکن اس کا مورد الزام اداروں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور نہ ہی شخصیات کی غلطیوں کے ادارے جوابدہ ہیں البتہ اس پر اداروں کو اپنے عمل سے پشیمانی کا اظہار ضرور کرنا چاہیے جس کا طریقہ یہی ہے کہ ادارے اس طرح کے واقعات کے مستقبل میں خدشات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس کے سدباب کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانے میں ساتھ دیں۔

اب پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اداروں کی امامت کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے قانونی کارروائی کو عمل میں لائے لیکن اس میں ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس میں انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے اور کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں ہونی چاہیے۔

حکومت کو ایک بات کا انتہائی سنجیدگی سے خیال رکھنا ہو گا کہ کوئی بھی عمل ایسا نہ ہو جس کو تاریخ کے کٹہرے میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور حکومتی وزرا کو اپنی آراء دینے سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہیے اور ان کے بیانوں سے حکومت کی پالیسی کی جھلک ملنی چاہیے جس کے پیچھے کابینہ کے فیصلوں کی طاقت ہو وگرنہ یہ سیاسی کشیدگی کا سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گا۔

تحریک انصاف نے اپنے خلاف ایک بہت بڑا محاذ کھول لیا ہے جس کا پس منظر سیاسی انتقام اور غیر آئینی اقدامات سے تو ہے ہی جس کا وہ اب خود ہی اعتراف کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں مگر زیادہ تر اس کا تعلق ان کے رویوں سے ہے جس کا سلسلہ ابھی بھی نہ صرف جلسے جلوسوں میں بلکہ ایوان صدر سے بھی جاری ہے۔

اتنی ساری الجھنوں کو شروع کرنے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ جن حقائق کی بنیاد پر وہ سازشی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ان حقائق کا حصہ وہ خود بھی رہے ہیں۔ اور ثبوتوں میں جرم کے شواہد ہی نہیں اعتراف جرم کا بھی ساماں ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سپیکر کی رولنگ کو کالعدم دیا جا چکا ہے اور سپریم کورٹ نے اصول وضع کر دیا ہے کہ اقلیت اکثریت پر اپنے فیصلے نہیں ٹھونس سکتی اور جس رولنگ کے پیچھے پارلیمان کی طاقت نہ ہو اس کو کوئی استثنا حاصل نہیں۔ مزید اضافی نوٹ میں صدر سابق وزیراعظم اور ڈپٹی سپیکر پر آرٹیکل کی دفعات کے لگنے کی رائے کا اظہار کوئی چھوٹی بات نہیں اور پھر سینٹ میں اس پر قرار داد بھی جمع ہو چکی ہے جسے تحریک انصاف کو سنجیدہ لینا ہو گا۔

اور اب رویوں کو بدلنے کا آخری موقع ہے جس کے آثار بہرحال نظر نہیں آرہے۔ آج بھی فواد چوہدری کے رویے میں دھمکی آمیز انداز سے ان کے لئے مشکلات میں اور بھی اضافہ ہونے کے خدشات ہیں کیونکہ نرمی تب ہی ممکن ہوگی اگر الجھنوں میں کمی آئے وگرنہ پھر مصلحتیں، محبتیں اور مفاہمتوں کی نیتیں کمزوری دکھنے لگتی ہیں اور اسی مشق نے حالات کو اس سنگینی تک پہنچایا ہے۔ فواد چوہدری کی غیر سنجیدہ حرکتوں کا بہرحال خمیازہ تو اب محرک کرداروں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔

اچھی بات ہے اگر اس اسمبلی میں ایک فوجی ڈکٹیٹر پر غداری کا مقدمہ چلانے کی بات ہوئی اور اس پر کارروائی عمل میں لائی گئی تھی تو پھر سیاستدانوں کو بھی استثنا نہیں ہونا چاہیے اور یہی آئین کی منشا ہے۔ مگر میں پھر کہوں گا کہ اس میں انصاف اور غیر شفافیت ہونی ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتی ہوئی نظر بھی آنی چاہیے کیوں کہ یہ اسمبلی مستقل رہنے کی جگہ نہیں بلکہ یہاں شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں مستقل حکمرانی اگر ہے تو وہ آئین کی ہے اور اسی میں ہم سب کی بہتری کا راز پوشیدہ ہے۔

ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب جو بھی فیصلے ہوں سیاسی ہوں، عدالتی ہوں یا ادارہ جاتی ان میں آئین کی عزت کے بارے رعایت کا پہلو قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments