بڑے گھر، چھوٹے لوگ


لاہور میں مکان مالکان نے 2 کمسن گھریلو ملازمین کو فریج سے اشیاء نکالنے پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں ایک بچہ جاں بحق ہو گیا تھا جبکہ دوسرا بچہ ہسپتال میں زیر علاج ہے، جاں بحق ہونے والے بچے کے کمسن بھائی کی ویڈیو سامنے آئی ہے، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے ویڈیو جاری کی ہے اور لکھا ہے کہ چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد کی ہدایت پر بیورو نے مقتول بچے کے زخمی ہونے والے سات سالہ بھائی رضوان کو تحویل میں لے لیا ہے، چیئرپرسن سارہ احمد نے تشدد کے شکار زخمی بچے سے ملاقات کی، اس ویڈیو میں چیئرپرسن سارہ احمد نے بچے سے گفتگو کرنے کی کوشش کی لیکن بچہ اتنا خوفزدہ اور سہما ہوا تھا کہ کوئی جواب نہ دے پایا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ واقعات کا ایک تسلسل ہے۔ بہت کم واقعات میڈیا پر آتے ہیں جس سے آگاہی ہوتی ہے وگرنہ بہت سارے ایسے واقعات ہیں جو روز کا معمول ہے اور پوشیدہ ہے جو گھروں کے اندر رونما ہوتے ہیں ہیں۔

چند ایک اندوہناک اور شرمناک واقعات جو میڈیا کے زینب بنے۔

ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کی بیگم کا نو سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ پر وحشیانہ تشدد، بچی نے بیان دیا کہ جھاڑو نہ ملنے پر بیگم صاحبہ نے چولہا جلا کر میرا ہاتھ اس پر رکھ دیا، اس سے پہلے بھی تشدد کرتے تھے اور مجھے پانی والی ٹنکی کے ساتھ سٹور میں باندھ دیتے تھے۔ (خبر جیو نیوز)

اسی دن لاہور کے علاقے گلدشت ٹاؤن میں 14 سالہ ملازمہ حرا کو جناح اسپتال کی ڈاکٹر تانیہ اور ان کے شوہر نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ حرا نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر تانیہ نے مبینہ طور پر تیل چھڑک کر اسے آگ لگانے کی کوشش کی اور اسے زہر کا ٹیکہ کی دھمکیاں بھی دیں۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے اے آر وائی نیوز کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے بچی کا علاج سرکاری خرچے پر کروانے کا اعلان کیا ہے۔ متاثرہ بچی کی والدہ نے با اثر مالکان کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا الزام لگایا اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے انصاف کی اپیل کی۔

کراچی کے علاقے محمد علی سوسائٹی میں دو کمسن ملازمائیں گھریلو تشدد سے تنگ آ کر فرار ہو گئیں، عظمیٰ اور سونیا نامی کمسن ملازماؤں کی عمریں دس سے تیرہ سال کے درمیان ہیں۔ ایک مشکوک شخص نے بچیوں کو گاڑی میں زبردستی بٹھانے کوشش کی تو بچیوں نے شور مچا دیا، شہریوں نے کمسن ملازماؤں کو مشکوک شخص سے چھین کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے جنگ ویب کے نمائندے کو بتایا کہ بچیوں کے والدین اسے مالک مکان کے حوالے کر کے ایڈوانس رقم لے گئے تھے اور گھر میں انھیں کام پر لگادیا گیا جہاں ان پر وقتاً فوقتاً تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ بچیوں کا کہنا ہے کہ وہ واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہیں۔ بچیاں پولیس کو دیکھ کر دھاڑیں مار کر روتی رہیں جبکہ اس موقع پر رینجرز کے اہلکار بھی موجود تھے۔

گزشتہ دنوں ”سبزہ زار“ کے علاقہ میں ”رمیزہ“ نامی ایک گھریلو ملازمہ کا کیس سامنے آیا جو مالکان کی جانب سے شدید تشدد کا نشانہ بنی۔ پولیس کو اطلاع ملتے ہی انہوں نے مالکان کو گرفتار کر لیا لیکن اگلے ہی روز انھیں رہا کر دیا گیا۔ رمیزہ نے کہا کہ مجھے بالکل نہیں معلوم کہ میں کہاں کی رہنے والی ہوں مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میری خالہ نے علی نامی آدمی کے ہاتھوں مجھے کیوں فروخت کیا۔ مجھے اتنا پتہ ہے کہ میں ایک سال سے اس گھر میں رہ رہی ہوں میری مالکن مجھ سے سارے گھر کا کام کرواتی، سونے بھی نہیں دیتی سارا دن کام کرنے کے بعد جب بستر پر جاکر لیٹتی تو مالکن آ کر مجھے مارنا شروع کر دیتی۔ باہر جا کر بچوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی منع کرتی تھی ایک دن میں باہر چلی گئی تو میری مالکن نے مجھے الیکٹرک راڈ لگایا اور پانی کے پائپ کے ساتھ مارا۔

فیڈر کیوں بنا کر نہیں دیا۔ یتیم ملازمہ بچی پر ایسا تشدد کہ انسانیت بھی شرما جائے۔

لیاقت پور: بچی کو فیڈر بنا کر نہ دینا جرم بن گیا کم سن گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد واقعہ ملتان سٹی میں پیش آیا 10 سالہ حنا نامی بچی ملتان میں خالد نامی شخص کے گھر کام کرتی تھی بچی لیاقت پور کے چک نمبر 19 عباسیہ کے رہائشی عباس کی بیٹی ہے بچی کے آنکھوں پے بہیمانہ تشدد کے نشانات ہیں تشدد کرنے کے بعد با اثر ملزمان بچی کو رات کی تاریکی میں گھر چھوڑ گئے والد فوت ہو چکا ہے مجبوری کے تحت کام کرتی تھی حنا کو 3 ہزار روپے تنخواہ کے دیتے تھے ہماری بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہمیں انصاف چاہیے بچی کی آنکھوں میں شدید درد ہے تشدد کے باعث آنکھیں نہیں کھلتی یتیم بچی مجبوری کے تحت کام کرتی تھی۔

مجھے یاد ہے کچھ عرصہ پہلے مبینہ تشدد سے ایک وکیل کی دس یا بارہ سالہ گھریلو ملازمہ جان کی بازی ہار بیٹھی تھی، بچی کے گھر والوں کے ہاتھ میں لاش تھما دی گئی، وہ بہت روئے پیٹے اور الزام لگایا کہ ہماری بچی کو تشدد سے مارا گیا ہے، ان کے رونے پیٹنے اور میڈیا کے دباؤ پر وکیل صاحب گرفتار بھی ہوئے تو ساری وکیل برادری وکیل صاحب کی حمایت میں ان کی پشت پر کھڑی ہو گئی اور فوراً ہی وکیل صاحب ضمانت پر رہا ہو گئے، بعد میں اس کیس کا کیا بنا کوئی خبر نہیں۔

”یہ چند ایک واقعات ہیں، ماضی میں ایسے بے شمار واقعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ کہیں کمسن گھریلو ملازماؤں کو جسمانی اور کہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد بھی ایسا کہ شیطان بھی انگلیاں داب لے، بیلٹوں، پائپوں اور لوہے کے راڈ سے مارنا، استری سے جلانا، سلگتے سگریٹ سے نازک اعضاء کو داغنا، تھپڑوں اور گھونسوں کا نشانہ بنانا، سیڑھیوں سے دھکا دینے جیسے واقعات میں نے پڑھ اور سن رکھے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں میں، یعنی“ حلب برپا ہے بڑی بڑی کوٹھیوں میں ”

ہمارے معاشرے میں جاری اس درندگی کا سختی سے سدباب ہونا چاہیے، غریبوں کی بچیوں کو انسانوں جتنے نہ سہی ان امیروں کے گھروں میں پلنے والے پالتو جانوروں جتنے تو حقوق ملنے چاہیے۔ تف ہے ایسی نام نہاد اشرافیہ اور ”بڑے لوگوں“ پر اور تف ہے اس معاشرے پر جہاں مظلوم کو انصاف نہ مل پائے۔ ان میں سے بیشتر واقعات پر وزیر اعلیٰ سمیت دیگر حکام نے نوٹسز بھی لئے مگر ہمارے کمزور کریمنل جسٹس سسٹم کے باعث ایک دو روز میں ہی ذمہ دار مالکان کی ضمانتیں ہو گئیں۔ ابھی پہلے واقعہ کی بازگشت سنائی دے ہی رہی ہوتی ہے کہ ایسا ہی بچوں و گھریلو ملازمین پر تشدد کا دوسرا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔

ہماری پولیس بھی ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی اور کریک ڈاؤن کی بجائے چپ سادھ لیتی ہے، مگر میڈیا میں جب کوئی ایسا واقعہ سامنے آ جائے تو پولیس، اعلیٰ حکام کے نوٹس پر کارروائی ڈالنے کے لئے ملزمان کو گرفتار تو کر لیتی ہے مگر دوسرے ہی دن ملزمان جیل سے باہر، جبکہ بچے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں حسرت کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔

درندگی اور جہالت کی یہ مثالیں ہمارے اندر چھپے جانور کو آشکار کرتی ہے، ہم امتی تو اس نبی کے ہیں جو ایک بار عید کی نماز پڑھانے عید گاہ جا رہے تھے اور ساتھ میں ان کے کمسن نواسے حسن و حسین بھی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک معصوم بچہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس رو رہا ہے، استفسار پر بچے نے رسول اللہ کو بتایا کہ وہ یتیم ہے اور اس کے پاس پہننے کو اچھے کپڑے نہیں۔ رسول خدا نے اس یتیم کے آنسو پونچھے اور کہا کہ آج کے بعد محمد تمھارے باپ ہیں، اس بچے کو گھر لایا گیا اور اماں عائشہ کے ہاتھوں نئے کپڑے پہن کر وہ بچہ نبی کے نواسوں کے ساتھ ہی عید گاہ پہنچا۔

”ان بے آسراؤں اور غریبوں کی مجبوریوں سے چند ٹکوں کے عوض فائدہ اٹھانے والو اگر قانون تمھاری دولت کا غلام ہے اور تم اس کی پہنچ سے دور ہو تو کم ازکم اس خدا کی عدالت کا ہی احساس کر لو جہاں تمھاری دولت تمھارے کام نہیں آئے گی اور تمھارا پور پور ہی تمھارے خلاف گواہ ہو گا، اس خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے اور سزا کے لیے اس کی تیار کردہ جہنم وہ جگہ ہے جہاں تمھارے ایک ایک ظلم کا جواب آگ اور سخت گیر فرشتوں کی صورت دیا جائے گا۔

سدھر جاؤ قبل اس کے کہ موت کا فرشتہ تمھاری بدبودار روحوں کو تمھارے جسم سے یوں کھینچ کر نکالے جیسے کانٹے دار جھاڑی پر ململ کا کوئی کپڑا ڈال کر گھسیٹا جائے تو وہ تار تار ہو جاتا ہے۔ تمھاری ڈگریاں، تمھاری دولت، تمھارا سوشل سٹیٹس سب قبر کی مٹی میں مل کر فنا ہوجانا ہے اور ساتھ صرف تمھارے اچھے یا برے اعمال ہی جائیں گے۔“

اس طرح کے واقعات معاشرے اور خاص کر روشن خیال چہروں سے نقاب اٹھواتے ہیں۔ ایلیٹ کلاس جو اپنے آپ کو لبرل کہتی ہے، روشن خیال تصور کرتا ہے، مہذب اور ماڈریٹ گردانتا ہے اور معاشرے پر رجعت پسندی، روایت پرستی، دقیانوسیت اور جہالت کی پھبتیاں کستا رہتا ہے، دراصل ان کا اپنا اندرون چنگیز خان سے بھی بدتر اور تاریک تر ہے اور خود یہ شقی القلب ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ جو تعلیم تربیت سے خالی ہے اور جو معاشرہ الہی تعلیمات اور ہدایات سے محروم ہے وہاں انسانیت، اخلاقیات، اقدار، تہذیب اور برداشت و ہمدردی برائے نام ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اسے اسی شرف سے مزین کرانے کے لئے دینی تعلیمات اور اقدار سے اشنا کرنا از حد لازمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments