کیا سائنس نے تخلیق کائنات کا راز پا لیا ہے؟


12 جولائی 2022 ء کو ناسا (National Aeronautics and Space Administration) کے ماہرین فلکیات نے آج سے 13 ارب سال قبل، ہماری کائنات کی پیدائش کے وقت کی کچھ تصاویر دنیا کے سامنے رکھی ہیں۔ یہ بات بہت حیران کن اور دل چسپ ہے کہ قدیم کہکشائیں کس قدر مہیب، پراسرار اور خوبصورت تھیں۔ کہکشاؤں کی یہ تصاویر ”جیمز ویب“ نامی خلائی دوربین سے لی گئی ہیں۔ جیمز ویب James Webb ابھی تک تعمیر کی جانے والی خلائی دور بینوں میں سب سے طاقتور دوربین ہے۔

آئینوں، عدسوں اور فلٹرز پر مشتمل جیمز ویب تعمیر کرنے میں 15 سال لگے اور 10 ارب لاگت آئی ہے۔ اس کی تعمیر کے لیے ناسا کو یورپین خلائی ایجنسی اور کینیڈین خلائی ایجنسی کا تعاون حاصل تھا۔ دسمبر 2021 ء کو جنوبی امریکہ کی ریاست ’فرینچ گیانا‘ سے خلا میں بھیجی جانے والی دوربین اس وقت زمین سے دس لاکھ میل دور ہے۔ ایک دور بین ساڑھے تیرہ ارب برس قبل کی تصاویر کیسے لے سکتی ہے؟ بگ بینگ کے وقت کیا ہوا تھا؟ بگ بینگ سے قبل کیا تھا؟ کیا سائنسی آلات اور ماہرین فلکیات کائنات کی پیدائش کا سراغ لگا لیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے کرتے سائنس بہت آگے تک جا چکی ہے اور ہر ایک سوال کے جواب میں ایک طویل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں پر اس موضوع پر چند عرض داشتیں پیش کی جائیں گی؟

پہلے سوال کا جواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ ہماری زمین کا سورج سے فاصلہ 149 ملین کلو میٹر ہے۔ جبکہ روشنی کی رفتار 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ یوں سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچتے پہنچتے 8 منٹ اور 27 سیکنڈ لگتے ہیں۔ گویا اس وقفے میں اگر سورج بجھ جائے تو ہم زمین والوں کو 8 منٹ 27 سیکنڈ کے بعد معلوم ہو گا۔ خلا میں فاصلے روشنی کی رفتار طے کرتی ہے جو آئین سٹائن کے مطابق ایک مستقل قدر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ستارہ سورج کے مقابلے میں لاکھوں گناہ زیادہ دور ہور ہو تو اس کی روشنی کی روشنی کو زمین تک پہنچتے پہنچتے ایک دن، ہفتہ، مہینہ یا ایک سال بھی لگ سکتا ہے اور ایک سو یا اس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ اس عرصے کو نوری سال کہا جاتا ہے۔ جو ستارے ہم رات کو آسمان میں دیکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے وہ اب اپنی جگہ پر نہ ہوں۔ مگر ان کی روشنی ہم تک اب پہنچی ہے۔ اسی طرح بگ بینگ کے وقت کی روشنی جیمز ویب تک پہنچی ہے۔ اس روشنی کو دور بین تک آتے آتے ساڑھے تیرہ ارب سال لگ گئے ہیں۔

بگ بینگBig Bang کا نظریہ بہت پرانا نہیں۔ یہ تھیوری بیلجیم کے پادری ’جارج لیمیٹرا‘ نے 1920 ء کی دہائی میں پیش کیا تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ایک ماہر فلکیات اور طبیعیات داں بھی تھے۔ بعد میں اس پر تحقیق شروع ہو گئی۔ اور اس کے حق میں سائنسی شہادتیں موجود ہیں۔ جن میں سے ایک کائنات کا درجہ حرارت ہے۔ اور دوسرا اس کا مسلسل پھیلاؤ۔ کائنات کا درجہ حرارت اس وقت 3 ڈگری کیلون (منفی 270 ڈگری سنٹی گریڈ ہے ) اور یہ درجہ حرارت کائنات کی پیدائش کے وقت 1000 کھرب ڈگری تھا۔

کائنات جوں جوں پھیلتی گئی یہ ٹھنڈی بھی ہوتی گئی۔ تمام ماہرین فلکیات اس تھیوری سے متفق ہیں کہ کائنات کا آغاز ایک ایٹم (ذرہ) سے ہوا۔ جو ایک خاص وقت پر کہیں موجود تھا، تمام کائنات کا مادہ اور توانائی اس ذرے میں موجود تھی۔ یہ ذرہ پھٹا اور پھیلنا شروع ہوا۔ اس سے قبل کیا تھا؟ ابھی تک راز ہے؟ اس سے قبل وقت بھی تھا کہ نہیں۔ ابھی تک سائنس اس پر بھی لمحہ موجود تک خاموش ہے۔ سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ عین ممکن ہے کہ Big Bang کی طرز پر کچھ ارب سال بعد ایک بگ کر نچ Big Crunch ہو اور کائنات دوبارہ سکڑ کر ذرہ بن جائے اور دوبارہ بگ بانگ ہونے کا انتظار کرے۔

جو تصاویر جیمز ویب نے کھینچی ہیں وہ بگ بینگ کے رونما ہونے کے ایک دو سیکنڈ بعد کی ہیں۔ زمین سمیت نظام شمسی کے دیگر سیارے سورج سے الگ ہوئے اور اپنے مداروں کے گرد گھومنے کے ساتھ ساتھ سورج کے گرد بھی گھومنے لگے اور گھومتے گھومتے گول شکل اختیار کر گئے۔ اسی طرح لاکھوں کروڑوں کہکشائیں وجود میں آئیں۔ مگر اس سے پہلے گیسیں تھیں جو پہلے مائع اور پھر ٹھوس حالت میں آتی گئیں۔ سب سے پہلے ایٹموں سے مالیکیول بنے مالیکیول سے وہ تمام عناصر وجود میں آئے جو ہم میٹرک کی کیمسٹری کی کتاب میں موجود اٹامک ٹیبل میں دیکھتے ہیں۔

کائنات کی ساری کار گزاری کے پیچھے کشش ثقل ہے۔ جو آیزک نیوٹن نے ستارہویں صدی میں دریافت کی تھی۔ فلکی اجسام کشش ثقل کی وجہ خلا میں محو گردش ہیں۔ کشش ثقل کے مطابق: کائنات میں ہر شے دوسری شے کے لیے ایک کشش کی قوت رکھتی ہے۔ یہ قوت ان دو اشیا کی کمیت کا حاصل ضرب اور ان کے درمیاں فاصلے کے مربع کا حاصل تقسیم کے برابر ہوتی ہے۔

جب کہکشائیں بنیں تو ساتھ بلیک ہول بھی وجود میں آئے۔ مگر بلیک ہول کا نظریہ 1783 ء میں برطانیہ کے ایک غیر معروف سائنسدان جان مائیکل نے سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ اس کی تھیوری کے مطابق بلیک ہول خلا میں اس قدر بھاری بھرکم حجم کے مالک اجسام ہیں جو اپنے اندر کنویں کی طرح خلا رکھتے ہیں۔ اور اس قدر زیادہ کشش ثقل کے مالک ہیں کہ اشیاء تو کیا روشنی جیسی لطیف شے بھی ان سے بچ کر نہیں جا سکتی۔ یہ قریب سے گزرنے والی ہر شے کو اپنی اندر غرق کر دیتے ہیں۔ بلیک ہول کے اندر کشش ثقل کے علاقے (فیلڈ) میں وقت رک جاتا ہے۔ گویا اگر ہم بلیک ہول میں گر جائیں تو ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مگر نقصان یہ ہے کہ کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔

کائنات کتنی وسیع ہے؟ اس کا اندازہ لگانا تو فی الوقت مشکل ہے مگر یہ پتہ چل چکا ہے کہ ہم صرف 5 فیصد کائنات دیکھ سکتے ہیں۔ اور سائنسدان اب اس نتیجے پر بھی پہنچ چکے ہیں کہ ہماری کائنات سے باہر دیگ کائناتوں کا وجود بھی ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ فلکی کرے مسلسل حرکت میں بھی اسی وجہ سے ہیں کہ ان کو دیگر کائناتوں کی کشش ثقل اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ observable cosmosعالم کائنات میں ابھی تک ہم صرف 200 کہکشائیں دیکھ پائے ہیں۔

جن میں سے ایک ہماری کہکشاں ”ملکی وے ہے“ ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق ہماری کائنات میں 2 کھرب کے قریب کہکشائیں موجود ہیں۔ جیمز ویب نے بگ بینگ تھیوری کو درست ثابت کر دیا ہے۔ یہ کائنات کا ایک عظیم دھماکے (بگ بینگ) کے نتیجے میں پیدا ہونے کا تیسرا ثبوت ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ جیمز ویب کائنات کی وسعت، کہکشاوں اور کائنات کے جنم سے قبل کے ماحول کے بارے میں مزید دلچسپ معلومات سامنے لائے گی۔ اور تخلیق کائنات کے بارے میں صدیوں سے قائم قدیم روایات و نظریات کو علم و دانش اور سائنس کی میزان پر رکھ کر حقیقت اور عقیدت کو الگ الگ کر دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments