اگر پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب نہ بن سکے تو؟


اگر میں یہ سوچوں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پنجاب میں اکثریت حاصل کر کے پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ بنوانے میں کامیاب ہو جائے گی تو میری طبیعت درست نہیں ہوگی بلکہ مجھے کوئی وہم ہو گا اور وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔

لیکن پھر بھی وزیر اعلیٰ کا منصب اگر مسلم لیگ (ق) کے پرویز الہٰی کے پاس چلا جائے تو سب سے پہلے چوہدری شجاعت حسین کو صدارت سے الگ کر کے بالکل اسی طرح چیئرمین بنا دیا جائے گا جس طرح ہم 2002 ء میں پیر جو گوٹھ پیر پگاڑا کو بنانے گئے تھے یا راجہ ظفر الحق مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔

اس کے بعد پرویز الہٰی قوم کے عظیم تر مفاد میں مونس الٰہی کو 20 ارکان پر مشتمل (ق) لیگ کا صوبائی صدر بنا دیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ چوہدری شجاعت حسین اپنے صاحبزادے شافع کو پنجاب کا صدر بنائیں گے گویا وہ خاندان جو سیاست میں گمبھیر مسائل پر ’مٹی پاؤ‘ یا ’فیر دیکھاں گے‘ کے لیے مشہور اور روٹی شوٹی کھاؤ کے حوالے سے اپنی مثال نہیں رکھتا تھا، وہ اولاد کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔

چوہدری پرویز الہٰی 1997 ء میں بھی وزیر اعلیٰ کے امیدوار تھے مگر ان کی یہ خواہش 2002 ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں پوری ہوئی۔ 1997 ء میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے اور پرویز الہٰی اسپیکر پنجاب اسمبلی بن کر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔

پرویز الہٰی کی خواہشات یہاں تک محدود نہیں بلکہ 2007 ء میں وہ خود وزیراعظم بننا چاہتے تھے اور اپنے فرزند مونس الہٰی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے مگر ایک بار پھر ایسا نہیں ہوسکا، اور جب 2022 ء میں انہوں نے پھر وزیر اعلیٰ کی سیٹ پر نظریں جمائیں تو ان کی جگہ قرعہ حمزہ شہباز کا نکل آیا۔

اچھا سیاستدان ہمیشہ اچھے وقت کا انتظار کرتا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین سے کوئی سو اختلاف کرے مگر ان کی رواداری، مہمان نوازی، مروت اور میل ملاقات، رکھ رکھاؤ کا ہر کوئی قائل ہے۔ غلام اسحٰق خان نے جب میاں نواز شریف کی اسمبلی توڑی تو نواز شریف اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کے ہاں ہی قیام کرتے تھے، غالباً کلثوم نواز شریف صاحبہ بھی۔

یہ چوہدری شجاعت حسین ہی ہیں جن کے معاملات آصف زرداری کے ساتھ بھی خوشگوار ہیں اور چوہدری سالک حسین شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بھی ہیں۔ محترم عمران خان نے اقتدار کے حصول کی مجبوری کے باعث چوہدری برادران کے ساتھ معاملات کیے تھے مگر شکایات کا ایک انبار بھی ساتھ چلتا رہا۔ عمران خان سے تو اختلاف تھا مگر اب وزیر اعلیٰ بننے کے لیے پرویز الہٰی نے برادم شجاعت کا ہاتھ چھوڑ کر مونس الہٰی کو اپنی انگلی پکڑا دی۔

یوں سیاست جدا جدا ہو گئی اور مفادات میں یکسانیت نہ رہی۔ یعنی جو کام کوئی نہ کر سکا عمران خان اور مونس الہٰی نے کر دکھایا۔ مونس الہٰی تو وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے دور میں بھی مشکلات کا شکار رہے اور پھر این آئی سی ایل کے حوالے سے گرفتار ایسے ہوئے کہ شاندار گھر میں رکھا گیا۔ اب پھر ایف آئی اے کے دفاتر جانا پڑ رہا ہے۔ چوہدری شجاعت کے بقول ان کے والد چوہدری ظہور الہٰی کہا کرتے تھے کہ کھانا کھلانے سے کوئی غریب نہیں ہوتا۔ مہمان اپنی قسمت کا کھانا ساتھ لے کر آتا ہے۔

کم پڑھنے والوں کو علم ہو گا کہ چوہدری ظہور الہٰی اور ذوالفقار علی بھٹو بہترین دوست ہوا کرتے تھے۔ بھٹو نے 70 ء کے انتخاب میں چوہدری ظہور الہٰی کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا۔ انتخاب کے بعد بھٹو کی خواہش تھی کہ ظہور الہٰی ان کے ساتھ مل جائیں مگر ایسا ممکن نہ ہوا۔ دوستی اختلاف اور پھر کسی حد تک دشمنی تک پہنچ گئی۔ اکبر بگٹی نے ظہور الہٰی کا دھیان رکھا اور یہ ان کا تعلق خاندانوں کے درمیان گھریلو تعلقات میں تبدیل ہو گیا۔ اگر کبھی کوئی مسلم لیگی کسی مشکل کا شکار ہوا تو چوہدری شجاعت حسین نے بغیر اعلان کے اس کی اس قدر مدد کی کہ کسی اور کی ضرورت نہ رہے۔

میں فرض کرلیتا ہوں کہ چوہدری پرویز الہٰی کسی نہ کسی طرح وزیر اعلیٰ بن جاتے ہیں تو ان کا ہدف پی ٹی آئی سے مزید نشستوں کا تقاضا ہو گا یا شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد برائے پی ٹی آئی ہو گا؟ معاملہ تو چند روز تک اپنے اشاریے دینا شروع کردے گا اور اگر حمزہ شہباز کے پاس اکثریت رہی تو پرویز الہٰی اسپیکر بھی نہیں رہ سکیں گے۔ بغیر اقتدار اور مدد کے کس طرح پنجاب کی سیاست میں کردار ادا ہو گا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دوست مزاری اگلے اسپیکر ہوسکتے ہیں یا پھر ان کے خلاف پی ٹی آئی عدم اعتماد کی تحریک لائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کا ڈپٹی اسپیکر کون ہو گا ابھی اس بارے میں کوئی رائے سامنے نہیں آئی۔

پنجاب میں حمزہ شہباز کے برقرار رہنے کی صورت میں حالات کا جائزہ لیتے ہوئے چند بڑے فیصلے پنجاب اور مرکز میں بھی ہوں گے۔ دونوں کا تناسب اور رجحان فیصلہ کرے گا کہ قومی اسمبلی کے 7 استعفے کب منظور ہوں گے اور اسی روشنی میں باقی استعفوں کے بارے میں بھی اسپیکر راجہ پرویز اشرف اعلان کردیں گے۔

گو اس دوران سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔ کراچی کے حالات متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پیپلز پارٹی کے تعلقات عیاں کریں گے۔ جماعت اسلامی کی برسوں کی محنت اور بالخصوص حافظ نعیم الرحمٰن کی رات دن کی محنت اور کراچی کے حقوق دو سے متعلق ردعمل بھی سامنے آ جائے گا، مگر دلچسپ صورتحال کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 نشستیں جیتنے والی پی ٹی آئی کی سامنے آئے گی اور اس کی تنظیم، بیانیہ، کارکردگی، عوامی رابطہ سب کچھ عیاں ہو جائے گا۔

کراچی اور حیدر آباد کی مقامی سیاست میں پٹھان فیکٹر بھی اہم ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے عوامی رابطے بھی واضح ہوں گے۔ گورنر شپ کا معاملہ بھی ابھی طے ہونا باقی ہے مگر سب سے ضروری سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکومت کا پی ٹی آئی کے ساتھ عدالتی معاملہ ہو گا۔

عدالتی معاملہ تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس بھی محفوظ فیصلے کی صورت میں موجود ہے۔ اگر پی ٹی آئی پنجاب میں جیت گئی تو اس کی روشنی میں پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر تعیناتی اول اور قومی اسمبلی توڑ کر دوبارہ الیکشن دوسرے درجے اور مقام پر ہو گا، اور اگر صورتحال یہی رہی تو نئی طرز کا انتشار، سیاست، احتجاج، مظاہرے اور عدالتوں پر رکیک حملوں کے لیے تیار رہیں۔
بشکریہ ڈان اردو۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments