مغالطے یا فیلسیز


سادھ گرو سوشل میڈیا کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں جو اپنی بات بڑی آسانی سے بیان کرتے ہیں۔ ایک پروگرام میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ لوگ کسی چائے کی دکان پر چائے پینے جائیں تو چائے بنانے والا آپ کو بین الاقوامی کرکٹ کے اسرار و رموز پر اپنی ماہرانہ رائے پیش کرے گا۔ وہ کسی میچ میں ٹنڈولکر کی غلطیوں کا ذکر کرے گا۔ گواسکر کو وہ شاٹ ویسے نہیں کھیلنی چاہیے تھی جس بنا پر وہ آوٴٹ ہو گیا تھا اور کوہلی نے میچ میں فلاں غلطی کی جس کی وجہ سے بھارت میچ ہار گیا۔

اگر سیاست کی بات ہوتو وہ آپ کو بتائے گا کہ وزیراعظم کی کون سی پالیسی ملک کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور کس فیصلہ سے عوام میں بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ معاشیات کے میدان میں اپنی ماہرانہ رائے کی بدولت ملکی معیشت کی بہتری کے نسخے اسے ازبر ہوں گے۔ غرض کھیل کا میدان ہو، سیاست ہو، معاشیات ہو یا صحت، وہ ہر میدان میں اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا دے گا۔ مگر چائے بنانا جو اس کا اصل کام ہے بالکل بے کار بنائے گا۔

آج کل سوشل میڈیا کا یہی حال ہے۔ ہر شخص ٹویٹر یا فیس بک پر ہر معاملہ میں اپنی ماہرانہ رائے پیش کر رہا ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ کس ماہر کی کس بات پر یقین کیا جائے۔

منطق میں ایک باب مغالطے کا ہے۔ یعنی آپ اپنی بات کو اس طرح پیچدار بنائیں کہ لوگ اس سے متاثر ہوجائیں خواہ وہ حقائق کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اکثر وکیل اس طریق کو مقدمہ جیتنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی یہ معاملہ جذبات کو ابھار کر ، کبھی رحمدلی کو ، کبھی شخصیات کو منفی طرز پر پیش کر کے، کبھی الفاظ کے ہیر پھیر سے، غرض اس کا مقصد دانستہ یا نا دانستہ عوام کو اصل سوال سے ہٹا کر اپنی من مانی بات کو منوانا اور اس سے ذاتی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آئے روز ایسی مثالیں نظر آتی ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہیں۔ سیاستدان، صحافی اور ایسے لوگ جن کا معاشرے میں ایک مقام ہوتا ہے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے عجیب و غریب منطق کا سہارا لیتے ہیں۔

مثلاً اگر کسی سیاستدان پر بددیانتی کا الزام لگے تو اس کے حامی یہ سوال اٹھا دیتے ہیں کہ فلاں نے اس سے بہت زیادہ خرد برد کی ہے۔ کبھی رحم کی اپیل کی جاتی ہے۔ اگر آپ کی گاڑی کو کوئی گدھا گاڑی والا ٹکر مار دے تو کہا جاتا ہے کہ چھوڑیں جی یہ غریب آدمی ہے۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ کبھی جذبات کو ابھارا جاتا ہے خصوصاً مذہبی معاملات میں یا قومی اور سیاسی معاملات میں، فلاں غدار ہے، فلاں گستاخ ہے، قتل کردو، آگ لگا دو ، لوٹ لو، کبھی قوت اور طاقت کے استعمال کی دھمکی دی جاتی ہے اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ایسا مزہ چکھائیں گے کہ نسلیں یاد رکھیں گی۔ غرض مختلف طریق سے اپنے ناجائز کاموں کا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ اور یہی ذہنیت پھر اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ایک عالم سیموئل جانسن کا قول ہے کہ

”حب الوطنی کسی بدمعاش کی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے“ ۔

سوشل میڈیا مفاد پرستوں کا پنڈورہ بکس بن چکا ہے۔ بعض دفعہ افسوسناک حد تک اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ محترم نواز شریف صاحب کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ جب لندن میں بیمار تھیں تو بڑے بڑے سیاستدان اور ٹی وی پر آنے والے تجزیہ نگار یہ تجزیے کر رہے تھے کہ یہ بیماری بناوٹی ہے اور محض دھوکہ ہے۔ یہ رویہ ان کے خاندان کے لیے یقیناً دکھ کا باعث ہو گا جو اپنی ایک عزیز شخصیت کو آخری دموں پر دیکھ رہے تھے۔ بالآخر ان کا انتقال ہو گیا اور ان بظاہر بڑے بڑے لوگ کہلانے والوں کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ اپنے ان بیانات پر ان کے خاندان سے معافی ہی مانگ لیتے۔

گزشتہ سال آصف علی زرداری صاحب کافی بیمار ہو گئے تو ٹویٹر پر ایک سفید ریش دوست نے انکشاف کیا کہ آصف زرداری صاحب دراصل انتقال کر گئے ہیں اور پیپلز پارٹی کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے دراصل کسی کو ولی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ ستائیس رمضان المبارک کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس روز وہ ان کے انتقال کا اعلان کریں اور اس طرح ستائیس رمضان کی مبارک تاریخ کو ان کا انتقال خدا کے ایک پسندیدہ بندے کا انتقال قرار دیا جا سکے۔ آصف زرداری صاحب اب بھی ملک میں موجود ہیں اور وہ سفید ریش بزرگ بھی بغیر کسی شرم اور ندامت کے اب بھی ٹویٹر پر لمبی لمبی چھوڑتے رہتے ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ ہماری قوم ان مغالطوں کے زیر اثر ایسے راستوں پر چل پڑی ہے جو سوائے دائروں میں گھومنے کے کسی منزل پر نہیں پہنچاتا۔ ہمارے باشعور اور تعلیم یافتہ طبقے کا فرض ہے کہ وہ قوم کو ان مغالطوں کا درست تجزیہ کر کے خوش فہمیوں سے باہر نکال کر سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی کرے ورنہ بقول چوہدری محمد علی صاحب

جو کھویا تھا اسے پانے کی خاطر
جو پایا تھا اسے بھی کھو رہا ہے

قمر سلیمان
Latest posts by قمر سلیمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).