رحم بی بی کا ٹی وی


جب پہلی بار پڑوسیوں کی چھت پہ ایک انٹینا ہوا میں لہرایا تو مجھے بہت تجسس ہوا اور میں نے کھوج بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اماں سے پوچھا۔ ”اماں یہ کیا ہے؟“

”یہ شیطان کا بلاوا ہے بیٹا“ جس گھر کی چھت پہ یہ لگا دیکھو سمجھو وہاں شیطان کا بسیرا ہے ”انھوں نے جھٹ سے جواب دیا۔ میں اماں کی باتوں کو زیادہ تو نہیں سمجھ سکا، بس اتنا ضرور تھا کہ میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو گیا کہ شیطان اس گھر میں آ کر ضرور اپنا رین بسیرا کرتا ہو گا جس کی چھت پہ یہ انٹینا لگا ہوتا ہو گا۔ یوں اس انٹینا اور اس گھر سے تھوڑی سی کراہت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ ہمارے محلے میں لایا جانے والا یہ پہلا ٹی وی تھا جسے تاؤ سلامو شہر سے خرید کر لایا تھا۔ محلے کی عورتیں دانتوں میں انگلیاں داب کر اس عجوبے کو دیکھا کرتی تھی مگر میری اماں پرلے درجے کی اس کی مخالف تھی، سو ہم پر اس گھر جانے اور ٹی وی دیکھنے کی سخت پابندی عائد تھی۔

محلے میں کھیل کود کے دوران بچے جب کارٹونز، ڈراموں اور کوئز مقابلوں کی بات کرتے تو ہم ہونقوں کی طرح ان کے منہ تکتے رہ جاتے، ہمیں تو ٹی وی والے گھر جانے کی چنداں اجازت نہ تھی تو ہماری جانے بلا کہ ڈرامے اور کارٹون کیا ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی محلے کے بچے اور عورتیں سر شام اس گھر میں جمع ہو جاتے اور پھر ڈرامہ سیریل دیکھتے۔ نو بجے کے خبر نامہ سے ذرا پہلے جیسے ہی ڈرامہ ختم ہوتا سب اٹھ اٹھ کے اپنے گھروں کی راہ لیتے۔ ٹی وی کے سامنے اگر کوئی بیٹھا رہتا تو وہ تاؤ سلامو اور اس کی بوڑھی ماں رحم بی بی ہوتے جو نیند آنے تک ٹی وی دیکھتے رہتے۔ کبھی کبھی تاؤ سلامو کی بیوی گلزاراں کے بڑبڑانے پہ بھی ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا جاتا تھا۔

ایک دن اماں نے سوجی کا حلوہ پکایا تو پلیٹ بھر کے مجھے دی اور کہا کہ تاؤ سلامو کے گھر دے کے فوراً آ جاؤ، کیوں کہ اس کے بعد تجھے اور گھروں میں بھی جانا ہے۔ میں حلوہ لے کے تاؤ کے گھر گیا تو تائی گلزاراں گھر کے کونے میں بنے کچن میں بیٹھی کچھ پکا رہی تھی، کچن کی حد بندی کرنے والی چھوٹی سی کچی دیوار کے عقب سے تائی نے مجھے دیکھ لیا اور خوشدلی سے اٹھ کر میرے ہاتھ سے پلیٹ لے لی۔ ”بہت بھاگ بھری ہے تیری ماں، کسی بھی موقعے پہ مجھے نہیں بھولتی، بیٹا دو منٹ بیٹھ میں تجھے یہ پلیٹ دھوکے دیتی ہوں“ تائی کے لہجے سے اپنائیت چھلک رہی تھی۔

سامنے دالان میں تاؤ سلامو اور اس کی ماں رحم بی بی ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ میں اس شجر ممنوعہ کو دیکھ کر تھوڑا سا ٹھٹھکا مگر پھر نجانے کیوں میرے قدم سکرین پہ رنگ برنگے عکس دکھاتے ٹی وی کی طرف بڑھ گئے اور میں ڈرتے ڈرتے اماں رحم بی بی کی چارپائی کی پائنتی کی اور بیٹھ گیا۔ ماں بیٹے دونوں نے اچٹتی سی نگاہ مجھ پر ڈالی اور پھر ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔ ٹی وی پر کوئی ڈرامہ چل رہا تھا جس میں میاں بیوی کا جھگڑا دکھایا جا رہا تھا۔

میرا متحیر ذہن اس بات پہ حیران تھا کہ گھر میں ہونے والی لڑائی کو ٹی وی والوں نے کیمرے لگا کر کیسے ریکارڈ کیا ہو گا، کیا ان لڑنے والوں کو خبر نہ ہو گئی ہو گی کہ ان کی باتیں ریکارڈ کر کے دوسروں کو دکھائی جا رہی ہیں۔ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات میرے ذہن میں گھوم رہے تھے، مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب کچھ بہت دلچسپ معلوم ہو رہا تھا۔ میں حیرت کے ایک نئے جہان میں موجود تھا، سوچوں کا یہ طلسم کدہ تب ٹوٹا جب تائی گلزاراں کی آواز نے مجھے چونکا دیا ”پتر تیری اماں تجھے بلانے آ گئی ہے“ اماں میرا انتظار کرتے کرتے خود آ گئی تھی اور میرے عین پیچھے آ کھڑی ہوئی تھی۔

یہ خجلت سے بھرپور عجیب لمحات تھے، اماں تقریباً کھینچتے ہوئے مجھے گھر لے آئی۔ کتنے تھپڑ پڑے یہ تو صحیح سے یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ میں پہلے تھپڑ پہ ہی زور زور سے رونے لگا تھا۔ آسمان کو چھوتا ہوا اماں کا غصہ ذرا کم ہوا تو اس نے مجھے پاس بلایا اور نرمی سے مجھے آئندہ اس فعل قبیح سے باز رہنے کی تلقین کی۔

اب ایک طرف ماں کی زجر و توبیخ تھی اور دوسری طرف رنگ و نور سے لبریز نظارے۔ میں کڑی آزمائش میں گھر چکا تھا۔ ٹی وی دیکھنے کی شدید خواہش میرے دل میں کسمساتی رہتی تھی۔ میں ایک شام ڈرتے ڈرتے تاؤ کے گھر جا پہنچا اور کچھ ہی دیر ٹی وی دیکھ کر پلٹ آیا، اماں کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ پھر تو یہ سلسلہ ہی چل نکلا می اماں سے نظر بچا کے تھوڑی بہت دیر کے لئے تاؤ سلامو کے گھر چلا جاتا اور کچھ وقت ٹی وی دیکھ کر واپس آ جاتا۔ بعد میں اماں کو بھنک بھی پڑ بھی گئی تھی، مگر اب پٹائی کی روش ڈانٹ ڈپٹ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ رفتہ رفتہ ٹی وی میرے دل میں گھر کرتا چلا گیا اور میں روز تاؤ سلامو کے گھر جا کر ڈرامہ دیکھنے لگا۔

محلے کی ایک دو اور عورتوں کی طرح میری ماں کو بھی رحم بی بی بہت بری لگتی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ اس بوڑھی لوگائی کو دیکھو قبر میں ٹانگیں ہیں اور آٹھوں پہر ٹی وی دیکھتی رہتی ہے، نہ نماز کی نہ روزے کی بس اسے ڈرامے اور فلمیں دکھا لو۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی تھی کہ تاؤ سلامو کی عمر رسیدہ ماں رحم بی بی نے کبھی مصلے کا منہ تک نہیں دیکھا تھا، روزے اس نے کبھی بھول کر بھی نہیں رکھے تھے۔ جب اس کا بیٹا سلامو کہیں سے ٹی وی خرید کر لایا تو وہ ٹی وی کی ہی ہو رہی۔

ڈراموں کا شوق اس قدر بڑھ گیا کہ دیکھتے دیکھتے اگلی قسطوں کے بارے میں پیش گوئیاں کرنا شروع ہو گئی۔ ڈرامہ سیریل کے دوران کبھی کمرشل آتے تو ٹی وی والوں کو صلواتیں سناتی اور اگر بجلی چلی جاتی تو واپڈا والوں کو قدیم و جدید مغلظات سے نوازتی۔ اگر اس کے اور ٹی وی کے درمیان سے کوئی گزر جاتا یا لمحہ بھر کو ٹھہر جاتا تو جوتا تک دے مارتی تھی۔ ڈراموں پر رواں تبصرہ کرنا اس کی عادت تھی، اس کی اس عادت سے سب کو چڑ تھی مگر اس سے پنگا لینے کی ہمت کسی میں نہیں تھی، بس کبھی کبھار اس کا بیٹا تاؤ سلامو اسے ٹوک دیتا تھا ”اماں بول بالی ہو کے ڈرامہ دیکھ لے کیوں مزہ خراب کرتی ہے“ مگر رحم بی بی کسی کی بات پہ کان نہیں دھرتی تھی۔ سانجھ کی روٹی وہ ٹی وی کے عین سامنے کھاٹ پہ بیٹھ کے کھاتی تھی۔ الغرض ٹی وی سے چند لمحوں کی جدائی بھی اسے گوارا نہ تھی۔

پھر اچانک ایک ایسی خبر ملی جس نے سب محلے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ رحم بی بی کو خانہ خدا اور روضہ رسولﷺ کی زیارت کا پروانہ مل گیا تھا وہ عمرے پہ جا رہی تھی۔ محلے کے سب مرد و زن حیران تھے کہ رحم بی بی کو اچانک عمرے پہ جانے کا خیال کیسے آ گیا۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب رحم بی بی نہایت صاف ستھرے، اجلے کپڑے پہن کر اماں سے ملنے آئی اور گلے لگ کے کہنے لگی ”میری بیٹی! کہا سنا معاف کر دیو“ اماں کے آنسو چھلک پڑے اور اس نے رحم بی بی سے خانہ خدا کے سامنے سب کے نام لے لے کر دعا کرنے کی درخواست کی۔ رحم بی بی کو رخصت کرتے ہوئے ہر کوئی اسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

محض چند دن کے بعد ایک اور خبر ملی جس کو سن کر محلے کے سب لوگ پہلے سے سو گناہ زیادہ حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ رحم بی بی نے روضہ رسول ﷺ پہ حالت دعا میں جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور شہر نبیﷺ کی خاک اوڑھ کر سکون کی نیند سو گئی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments