سانپوں کی طرح ہوشیار، کبوتروں کی مانند بھولے


کتابوں اور ادبی دوستوں کی رفاقت میری زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ ہے۔ عید کی چھٹیوں میں بارشوں نے جہاں کراچی کا برا حال کیا ہوا تھا، لائٹ اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی بار بار معطل ہو رہی تھی۔ ایسے میں لاہور سے جناب حسن ترمذی صاحب نے وٹس ایپ پر 2 کتابیں پی ڈی ایف کی صورت میں تحفہ بھیجیں اور ساتھ ہی وائس میسج بھیجا کہ یہ دو کتابیں آپ کو بھیجی ہیں سو چا آپ کے فائدہ کی ہوں گی۔ یہ کتابیں مبشر علی زیدی کے کتب خانے سے ڈاؤن لوڈ کی ہیں۔ میں نے شکریہ کا میسج بھیجا اور ساتھ ہی کتابیں ڈاؤن لوڈ کر کے لیپ ٹوپ پر پڑھنے لگ گیا۔

پہلی کتاب کا نام ”بھولے کبوتر، ہوشیار سانپ“ (افسانوں کا مجموعہ) تھا جسے جناب طالب شاہ آبادی، پی ایچ ڈی نے مرتب کیا ہے۔ یہ شمالی ہند و پاک کے مسیحی معاشرہ کی ایک جھلک ہے جسے 1970 میں ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، پرانا قلعہ، لکھنو نے شائع کیا تھا۔ 200 صفحات پر مشتمل کتاب کو میں نے ایک ہی رات میں پڑھ ڈالا۔ جس نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کا ارادہ کیا۔

یہ کتاب ایک شاندار کتاب ہے اور بالخصوص مسیحی ادیبوں کے لئے ایک قیمتی اور تاریخی سرمایہ ہے۔ ٹیکنالوجی نے اس سرمائے کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ورنہ یہ نایاب نسخہ ہم تک کیسے پہنچتا۔ کتاب میں بھارت اور پاکستان کے مختلف مردو خواتین افسانہ نگاروں کے 21 افسانے ہیں جو مختلف سماجی، مسیحی اقدار اور معاشرتی رویوں پر مبنی ہیں۔

مجھے تقریباً تمام ہی افسانوں اچھے لگے لیکن ڈاکٹر طالب شاہ آبادی کا ”شمی“ ، حیا لدھیانوی کا ”کالی اوڑھنی“ اور اختر کاشمیری کا ”زرد گلاب“ نے بہت متاثر کیا۔

اس کتاب کا پیش لفظ بہت ہی جاندار ہے جو میری نظر میں پوری کتاب پر بھاری ہے۔

ڈاکٹر طالب شاہ آبادی لکھتے ہیں۔ ”ہند و پاک کے مسیحی اوبا نے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اگر کارہائے نمایاں انجام نہیں دیے تو نہ سہی لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے ایک خاموش خدمت ضرور انجام دی ہے۔ مسیحی اوبا نے انیسویں صدی کے آخر سے آج تک اردو میں ہزاروں کتابیں لکھ ڈالی ہیں جن میں سے زیادہ تر مذہبیات سے متعلق ہیں۔ اس عظیم انبار میں جہاں نثر نگاری کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں وہاں منظوم کلام کے شہ پارے بھی نظر آتے ہیں۔ گو قصوں کہانیوں کی بہت سی کتابیں معرض وجود میں آئیں۔

ہندو پاک کے مسیحی معاشرہ کی تشکیل میں مختلف نسلوں، قوموں اور جماعتوں کا ہاتھ رہا ہے۔ اس بر صغیر میں بولی جانے والی سبھی زبانوں کے نمائندے اس معاشرہ میں موجود ہیں، اگر آپ یہاں کے مسیحیوں کے ناموں پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ان میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی۔ سکھ بھی ہیں اور پارسی بھی، قبائلی بھی ہیں اور پس ماندہ اقوام کے لوگ بھی۔ مسیحی کلیسیاء جہاں ان مختلف اور گوناگوں تہذیبی اور لسانی قدروں سے مالا مال ہوئی وہاں اسے متعدد معاشرتی مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑا لیکن خدا کا شکر ہے کہ گزرے سو سال کے عرصے میں یہاں کے مسیحیوں نے اپنے آپ کو ایک مخصوص مقامی معاشرہ میں ڈھال لیا ہے اور اب وہ ایک عظیم اور متحدہ اقلیت کی صورت میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ ”

میری نظر میں پاکستانی مسیحی ادیبوں کے لئے یہ کتاب ایک مشعل راہ ہے۔ کسی بھی زبان اور ادب کا تعلق کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں ہو نا چاہیے کیونکہ ادب اس چیز سے مبرا ہوتا ہے، وہ انسانوں کا ادب ہوتا ہے مذاہب کا نہیں۔ میری نظر میں اردو زبان اور ادب میں مسیحیوں کو اپنا ادبی حصہ بڑھانا چاہیے تھا کیونکہ ان کے پاس تعلیمی اداروں کا ایک مربوط نظام، علم و فہم سے فطری لگاؤ اور بائبل مقدس میں موجودہ ادبی صنف کو معاشرتی و سماجی قدروں کے ساتھ منسلک کر کے اردو ادب میں ایک نئی صنف کا اضافہ کرنا چاہیے تھا۔

ہمارے ہاں شاعروں اور موسیقاروں کا کمی نہیں رہی لیکن افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور نثر نگار بہت کم رہے ہیں۔ ڈرامہ نگاری میں ڈاکٹر ڈنیس آئزک، عاشر عظیم، شاعری میں نذیر قیصر اور ڈاکٹر کنول فیزوز ایک روشن مثال ہیں۔ ابھی ایک نوجوان رائٹر ایڈیسن ادریس مسیح اچھے ڈرامے لکھ رہے ہیں۔ افسانہ نگاری میں منظور راہی، آصف عمران، جیم فے غوری اور ہریش میسی، نثر میں اعظم معراج، حمید ہنری، ڈاکٹر شاہد ایم شاہد اور بیشمار نام نمایاں ہیں۔ یہ ایک طویل اور ریسرچ پر مبنی کام ہے جس کے لئے اچھا خاصا وقت، سرمایہ اور محنت درکار ہے۔ اس پھر کبھی بات کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments