پاکستان بمقابلہ سری لنکا گال ٹیسٹ: ’چائے کے بعد چیزیں مثبت نہ رہیں‘، سمیع چوہدری کا کالم

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


کرکٹ
لیجنڈری جنوبی افریقی بلے باز بیری رچرڈز کہتے ہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ہمیشہ ان کا اصول رہا کرتا تھا کہ اپنی اننگز کی پہلی 40 گیندوں تک وہ بولرز کو راج کرنے دیا کرتے، کھیل کی نبض کو سمجھتے اور پھر جب وہ پچ سے ہم آہنگ ہو جاتے تو اس کے بعد بولنگ سائیڈ کے لیے محض خوش بختی کی امید ہی کی جا سکتی تھی۔

لیکن گال ٹیسٹ کی پہلی صبح جب کرونا رتنے نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو ان کے ٹاپ آرڈر کا طرزِ عمل رچرڈز کے اس مجرب کامیاب فارمولے کے یکسر برعکس تھا۔ نجانے کیوں سری لنکن ٹاپ آرڈر جلدی جلدی ڈھیر سارے رنز بنا لینا چاہتا تھا؟

ابتدائی اوورز میں وکٹیں اور شاہین شاہ آفریدی کا نام تو اب ’مترادف‘ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور یہاں بھی کرونا رتنے کی وکٹ نے ان کی اس صلاحیت پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔ مگر اس ابتدائی جھٹکے کے باوجود اوشادا فرنینڈو اور کوسال مینڈس نے اپنی برق رفتاری برقرار رکھی کیونکہ اپنی تمام تر سستی کے باوجود یہ پچ نئی گیند کے سامنے ان کے سٹروکس کے لیے بھرپور سہولت فراہم کر رہی تھی۔

لیکن دوسری جانب پاکستانی بولنگ کا ڈسپلن بھی قابلِ دید تھا جہاں آفریدی کی قیادت میں حسن علی اور نسیم شاہ نے بھی تہیہ کر رکھا تھا کہ وکٹیں بٹورنے کے لالچ میں اِدھر اُدھر کی نہیں ہانکیں گے بلکہ سٹمپس کی لائن کے اندر رہتے ہوئے سری لنکن بلے بازوں کو کچھ الگ کرنے پر مجبور کر چھوڑیں گے۔

کرکٹ

اس ڈسپلن کا نتیجہ یہ ہوا کہ جوں ہی ٹاپ آرڈر کی بساط سمٹنے لگی تو مڈل آرڈر کو بھی راہ سجھانا دشوار ہو گیا۔ انجیلو میتھیوز اگرچہ اس بیٹنگ لائن کے تجربہ کار ترین بلے باز ہیں مگر کریز پر اپنے مختصر سے قیام میں وہ بالکل بے بس دکھائی دیے۔ حالانکہ وہ اپنا کھاتہ کھولنے کی کاوش کو مزید کچھ دیر کے لیے مؤخر کر سکتے تھے مگر کوسال مینڈس کی طرح وہ بھی یاسر شاہ کے دام میں آ گئے۔

گال کی پچ عموماً سپنرز کے لیے مددگار رہی ہے مگر یہاں مطلع ابرآلود ہونے کے سبب پیسرز کو بھی بھرپور مدد مل رہی تھی۔ اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حسن علی نے بھی اپنی سوئنگ کی کچھ یادیں تازہ کیں۔

اگرچہ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں چندیمل نے صرف اپنا کنارہ ہی نہیں سنبھالا تھا بلکہ دوسرے اینڈ کو بھی ساتھ لے کر چلے تھے اور یہاں بھی اُنھیں ڈی سلوا اور ڈکویلا سے کچھ ایسی ہی امید بندھنے کو تھی مگر شاہین آفریدی کی سوئنگ کے سامنے بھلا کوئی کیونکر ڈٹ پاتا؟

پہلے دونوں سیشن گال کے سیاہ بادلوں کی طرح پاکستانی بولنگ اور فیلڈنگ بھی اس میچ پر چھائی رہی۔ فرنینڈو اور چندیمل کے سوا کوئی بھی بلے باز پُراعتماد دکھائی نہیں دیا۔

مگر چائے کے وقفے کے بعد شاید کچھ تکان کا احساس تھا یا بابر اعظم کے پلان گڑبڑا گئے کہ جو سری لنکن اننگز 200 کے ہندسے سے کوسوں دور نظر آ رہی تھی، وہاں آخری دو وکٹوں کی پارٹنرشپ ہی ٹیم کے مجموعے میں 89 رنز کا اضافہ کر گئی۔

کرکٹ

اس سیشن میں پاکستان کی جانب سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ دن بھر مؤثر ثابت ہونے والی لینتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستانی سیمرز نے اچانک لینتھ واپس کھینچنا شروع کر دی۔ کوئی جلد بازی سی طاری ہوئی اور نسیم شاہ کی ایک بے مغز سی جارحیت نے دنیش چندیمل اور مہیش تکشانہ کو بھرم بچانے کا پورا پورا موقع فراہم کر دیا۔

آخری وکٹ کی صبر آزما ساجھے داری نے تو کسی حد تک مورال ہی گرا دیا کہ پھر بیٹنگ میں بھی پاکستان اس کوتاہ بینی کے حصار سے نکل نہیں پایا۔

کاسون رجیتھا اگرچہ اس میچ میں سری لنکا کے اکلوتے سیمر ہیں مگر حالیہ کچھ میچز میں بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے خلاف وہ نہایت مؤثر ثابت ہوئے ہیں کیونکہ آف سٹمپ کے باہر سے گیند اندر لا کر وہ ایسا اینگل پیدا کرتے ہیں کہ ڈیوڈ وارنر بھی پچھلی سیریز میں چکرا کر رہ گئے تھے۔ ہوبہو وہی امام الحق کے ساتھ بھی ہوا۔

بحیثیتِ مجموعی یہ پاکستان کے لیے ایک ملا جلا سا دن تھا جہاں اگر پہلے دو سیشنز میں اُنھیں اپنی توقع سے بھی زیادہ کامیابی نصیب ہوئی تو تیسرے سیشن میں اُنھوں نے بذاتِ خود اس برتری کا ایک خطیر حصہ قربان کر ڈالا۔

اس پچ کی چال اور سری لنکن اٹیک میں تین باصلاحیت سپنرز کی موجودگی کے بعد اب یہ لازم ہو چکا کہ پاکستانی مڈل آرڈر اب کوئی واضح برتری حاصل کرے ورنہ اس پچ پر چوتھی اننگز کی بیٹنگ کا نتیجہ عمومی توقعات کو یکسر مات بھی کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments