آم اور اس سے جڑی روایات


آج بھی جب کبھی ذہن بچپن کے واقعات اور ماضی کی روایات میں کھو جاتا ہے تو بے شمار بھولی بسری یادیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ والدین کا وہ سنہرا دور جب وہ مکمل طور پر فعال تھے۔ اپنی گوناگوں مصروفیات اور معاشی تگ و دو کے باوجود وہ اپنی روایات اور اقدار کو بھی کسی طور زندہ رکھے ہوئے تھے اور انہیں بخوبی نباہ بھی رہے تھے۔ تقسیم کے بعد اکثر خاندان ٹوٹ پھوٹ اور کسمپرسی کا شکار ہوئے اور حالات کے جبر کے باوجود انہوں نے اپنی اقدار کو بھی زندہ رکھا جو یقیناً آسان نہ ہو گا۔

کیسے کیسے خوبصورت رشتے تھے اور ان سے جڑی معاشرتی روایات کی پاسداری بھی کی جاتی تھی۔ اکثر گھرانوں میں سب مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل رہتے تھے۔ والدین، بھائی، بھابھیاں، نند، دیور سب اکٹھے رہتے اور مل بانٹ کر کھاتے، چیزوں اور وسائل کی افراط تو نہ تھی لیکن کم میں بھی برکت تھی اور اچھا گزارا ہوجاتا تھا۔

عید اور دوسرے تہواروں کو ہنسی خوشی منایا جاتا تھا۔ عزیز و اقربا کا آنا جانا لگا رہتا تھا، بزرگوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کا برتاؤ کیا جاتا تھا اور ہر ایک کو اپنی حدود کا احساس رہتا۔ چچا، تایا اور پھوپھیاں بھانجے بھتیجوں کی تربیت کیا کرتی تھیں اور اکثر سرزنش بھی کرتے لیکن کیا مجال ہے کہ والدین دخل اندازی کریں یا کبھی کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کرتے۔

کچھ رشتے ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ کے سمجھے جاتے۔ جیسے دیور بھابھی، بہنوئی اور سالے سالیوں کا رشتہ، نند اور بھابھی کے درمیان شوخیاں اور جملے بازی ہوتی لیکن کیا مجال ہے کہ کوئی اخلاق سے گری ہوئی بات یا کسی قسم کا لچر اور بیہودہ مذاق کیا جائے۔ باہمی احترام اور رواداری مقدم سمجھی جاتی۔

جب تک اماں رہیں کسی حد تک ان روایات پر عمل بھی ہوتا رہا، پکوان بھی پکتے تھے اور تہواروں پر دینے دلانا بھی ہوتا۔ اماں ساون کے گیت پوربی زبان میں خوب گاتی تھیں اور اپنا میکہ یاد کر کے روتیں۔ پوتے پوتیوں کی پیدائش پر بھی گیت گاتیں ان کے ساتھ خالائیں اور نانی اماں بھی سر ملاتیں یہ گیت ڈھیٹ پوربی میں ہوتے۔ ہمارے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ لیکن اس کی لے بہت اچھی لگتی تھیں۔ اس کی علاوہ اور بہت سے گیت موقع اور موسم کے لحاظ سے گائے جاتے۔

ایک دن چچی مرحومہ بڑی ترنگ میں گنگنا رہی تھیں ”مورے سیاں جی اتریں گے پار ندیا دھیرے بہو“ تو بھائی صاحب نے مذاقاً کہا چچی فلمی گانا گا رہی ہیں تو جواب دیا ”ارے ہٹو ہم تو یہ ہم اپنے بچپن سے گاتے آئے ہیں“ ۔ شاید یہ کوئی پوربی لوک گیت تھا جو بعد میں فلمایا گیا۔ عظیم موسیقار نوشاد کے اکثر گیت پوربی دھنوں پر بنے تھے اسی لیے آج بھی دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔

اماں بہت روایتی خاتون تھیں ہر تہوار اور شادی بیاہ کے موقع پر دینے دلانے کا بہت اہتمام کرتیں۔ یہاں تک کہ گھر کے ملازمین کے لئے بھی جوڑے بنتے اور بڑے چاؤ سے کہتیں ”اے بھیا یہ پرجا کا حق ہے“ دور دراز کے رشتہ کی بہنوں کو بھی ”نیگ“ بھی بھجواتیں۔

والد مرحوم آم کے موسم میں بیٹیوں کو آم ضرور بھجواتے۔ والدین کے انتقال کے بعد یہ روایت میں الحمد للہ آج تک نباہ رہا ہوں اور آموں کی فصل میں اپنی بہنوں کو آم کا تحفہ ضرور بھیجتا ہوں۔ اب دو بہنیں تو امریکہ سدھاریں جو تیسری کراچی میں ہیں وہ شوگر کی مریضہ ہو گئیں لہذا اب یہ روایت بھی دم توڑتی محسوس ہو رہی ہے۔

میں آج بھی فصل کا پہلا آم اس وقت تک کبھی نہیں چکھتا جب تک کسی مستحق کو آم خرید کر نہ دے دوں محض اس خیال سے کہ میرے والدین کو بہت پسند تھے اور ان کی روح اس عمل سے ضرور خوش ہوگی۔

کیا ہوئے وہ لوگ اور کہاں گئیں وہ روایتیں۔ اب تو اپنا ہی پیٹ نہیں بھرتا سب کچھ ہونے کے باوجود دوسروں کو دینے کا حوصلہ نہیں۔

سب چلے گئے اور اپنے ساتھ وہ میٹھی اور محبتوں بھری روایت بھی لے گئے اب تو ہر طرف نفسا نفسی اور خود غرضی کا راج ہے کوئی گداز اور رکھ رکھاؤ باقی نہیں رہا۔

اللہ ان نیک ہستیوں کے درجات بلند فرمائے جن کے دم سے تہذیب اور شائستگی کا رواج تھا۔
ایک روایت جو اب تک ذہن میں ہے اور اس کا مظاہرہ اکثر اپنے ارد گرد دیکھا وہ ”آم بجھانا“ تھا۔

یوپی اور اودھ کے لوگ آم کو ایک پھل ہی نہیں بلکہ ایک روایت اور ثقافت سمجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب آم گھر میں آتے اور اگر ان میں کوئی دو گٹھلیوں والا کوئی آم مل جاتا تو وہ کھایا نہیں جاتا اور الگ رکھ لیا جاتا تھا۔ اس آم کو ”آم بجھانے“ کے لئے استعمال کیا جاتا وہ اس طرح کہ اسے کسی طرح چھپا کے یا کسی کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کے دیور اپنی بھابھی کو یا سالی اپنے بہنوئی کو کسی بہانے پکڑا دیتیں اور آم بھجواتیں۔ میرے والد مرحوم کو ان کی سالیاں ”نواب دولھا“ کہا کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ میری چھوٹی خالہ گھر آئیں اور ایک کپڑے میں پوشیدہ کوئی چیز ابا کو کسی بہانے دی ابا نے جیسی ہی اسے ہاتھوں میں لیا خالہ نے جھٹ کہا ”نواب دولھا فراموش۔ دو سو آم“ ابا نے حیرانی سے اس چیز کو دیکھا اور چھوڑنا چاہا لیکن دیر ہو چکی تھی۔ خالہ دھوکہ دینے میں کامیاب ہو چکی تھیں انہوں نے دو گٹھلیوں والے آم کو بڑی ہوشیاری سے چھپا کر ابا کو پکڑا دیا تھا اور اب ابا کے لئے ان کو دو سو آم دینا لازم ہو گیا تھا۔ ابا مرحوم فراخدل کے مالک تھے انہوں نے بھی بڑے چاؤ سے اپنی عزیز سالی کا مان رکھا اور دو سو آم گن کر دیے۔ ایسا ہی ایک مرتبہ میری والدہ مرحومہ نے اپنے بہنوئی کے ساتھ کیا اور ڈھیر سارے آم کی حقدار ٹھہریں۔

ہائے کیسے لوگ اور کیسے زمانے تھے۔ ایک بار مجھے بھی دو گٹھلیوں والا آم مل گیا آیا تو میں نے بیگم سے کہا چلو کسی سے آم ”بھجوائیں“ تو انہوں نے میری طرف حیرانی سے دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہوتا ہے۔ اور میں نے خاموش ہی رہنے میں عافیت سمجھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments