وہ گھرانا جو بھوکا رہتا ہے مگر خوراک کوڑے دان میں پھینکتا ہے


فرض کریں اگر کوئی ایسا گھرانا ہو جو غربت کا شکار ہو۔ جنہیں ضرورت کے مطابق خوراک میسر نہ ہو۔ کبھی کبھی فاقے بھی پڑتے ہوں۔ لیکن جب آپ ان کے گھر کا کوڑے دان دیکھیں تو آپ کو علم ہو کہ یہ گھر والے اچھی بھلی مقدار میں کھانے کے قابل خوراک روزانہ اپنے کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ کبھی اس کوڑے دان سے تازہ پھل برآمد ہوتے ہوں۔ بعض مرتبہ تازہ تازہ سبزیاں ضائع کی جاتی ہوں۔ بعض دنوں میں ان کے بچے بے نیازی سے کچا گوشت اس کوڑے دان کی نذر کر دیتے ہوں۔

اور اس کے ساتھ وہ ہر وقت یہ بڑ بڑ بھی کریں کہ کیا زمانہ آ گیا ہے، کھانے پینے کی چیزیں کتنی مہنگی ہو گئی ہیں۔ انسان زندہ رہے تو کس طرح۔ آپ اس گھرانے کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟ یقینی طور پر آپ یہی کہیں گے کہ عجیب بیوقوف لوگ ہیں۔ اگر بجائے اتنے شکوے کرنے کے یہ لوگ خوراک ضائع نہ کریں تو انہیں فاقے نہ کرنے پڑیں۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ کیا ایسا کوئی گھرانا ہے؟ جی ہاں اس زمین پر بسنے والی نسل انسانی وہ گھرانا ہے جو ایک طرف بھوک کا شکار ہے اور دوسری طرف پوری دنیا میں کمال بے نیازی سے مسلسل خوراک ضائع کر رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ سینہ کوبی بھی جاری ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کو تو گویا آگ لگ گئی ہے۔

یہ مسئلہ کتنا اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جو خوراک انسانوں کا پیٹ بھرنے کے لئے تیار کی جاتی ہے، اس کا تیس سے چالیس فیصد حصہ کسی انسان کے منہ تک نہیں پہنچ پاتا بلکہ پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ اور دوسری طرف روزانہ دنیا کے اسی کروڑ افراد اس حالت میں بھوکے سوتے ہیں کہ انہیں اپنی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں ملی ہوتی ہے۔ گویا ہم وہ گھرانا ہیں جو کہ روز خوراک کے تین تھیلے خرید کر لاتے ہیں اور ان میں سے ایک تھیلا گھر میں داخل ہونے سے بھی قبل پھینک دیتے ہیں اور پھر ہم میں سے کئی بھوکے رہتے ہیں۔ یہ تو صحیح ہے کہ خوراک کا ضیاع سو فیصد نہیں رک سکتا لیکن تیس سے چالیس فیصد خوراک کا ضیاع بہر حال ایک ظلم ہے۔

اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ کیوں اہم ہو گیا ہے؟ کیونکہ اگر دنیا کی آبادی اور اقتصادی ترقی اسی رفتار پر آگے بڑھتی رہی تو 2050 تک دنیا کو آج کی نسبت ہر سال مزید ساڑھے پانچ کروڑ ٹن خوراک کی ضرورت پڑے گی۔ یہ خوراک کہاں سے آئے گی؟ اس کے لئے دنیا میں اتنے رقبہ پر موجود جنگل یا گھاس کے میدان ختم کرنے پڑیں گے جتنا بھارت کا رقبہ ہے۔ اس طرح جنگل ختم کرنے کا کیا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس عمل کے نتیجہ میں اگلے تیس سال میں 80 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہو گا۔

اور اس کے نتیجہ میں زمین کے ماحولیات کا مزید ستیاناس ہو گا اور اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اتنے پاپڑ بیلنے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ پوری دنیا مل کر خوراک کے ضیاع پر قابو پانے کی کوشش کریں اور ماہرین کے نزدیک آسانی سے اس ضیاع کو کم کر بیس فیصد پر لایا جا سکتا ہے اور اگر زیادہ کوشش کی جائے تو خوراک کا ضیاع دس فیصد تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ 2020 کے دوران پونے تین ارب ٹن کے قریب خوراک انسانوں کے پیٹ میں پہنچنے کی بجائے ضائع کر دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سیکنڈ حضرت انسان قابل استعمال خوراک کے 2860 بھرے بڑے سائز کے کوڑے دان پھینک رہا ہے۔

اور اگر دنیا کی نصف آبادی شکم پروری کر کے اپنی صحت برباد کرنے کی بجائے اپنے آپ کو مناسب مقدار یعنی 2300 کیلوریز روزانہ تک محدود رکھے اور گوشت کم اور نباتاتی خوراک یعنی سبزیاں وغیرہ زیادہ کھائے تو محض اس قدم سے خوراک کا ضیاع نصف پر لایا جا سکتا ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء کا ضیاع ہر مرحلہ پر ہوتا ہے۔ فصل کٹتے وقت خوراک ضائع ہوتی ہے۔ منڈی منتقلی کے دوران ضیاع ہوتا ہے۔ اگر پیکنگ ہونی ہے یا خوراک کو سٹور کرنا ہے تو اس عمل میں کچھ حصہ ضائع ہوتا ہے۔ کمپنی نے کسی حصہ کو اپنے معیار کا نہ پایا تو منڈی واپس منتقل کرنے کی بجائے تلف کر دیا۔ پکاتے وقت خوراک کا ایک حصہ ضائع ہوتا ہے۔ اور کھاتے ہوئے ہم احتیاط نہیں کرتے اور اس مرحلہ پر بھی کھانے کا ایک کافی حصہ ضائع ہوتا ہے۔ ذرا پسند نہیں آیا تو کسی کو دینے کی بجائے ضائع کر دیا۔ ضرورت سے کافی زیادہ کھانا تیار کر لیا۔ پھر باقی حصہ ضائع کر دیا۔ دعوت ہوئی تو اتنی اقسام تیار کیں کہ مہمان کے لئے سب کو کھانا بھی ممکن نہیں تھا چنانچہ کچھ مقدار ضائع گئی۔

بعض قسم کی اشیاء پر یہ ضیاع زیادہ ہوتا، مثال کے طور پر عالمی طور پر پھلوں اور سبزیوں کا 54 فیصد مختلف مراحل میں ضائع ہوجاتا ہے۔ جو چیزیں زمین کے اندر سے نکالی جاتی ہیں مثال کے طور پر آلو، شلجم اور اروی وغیرہ، ان کا 53 فیصد حصہ ضائع ہو رہا ہے۔ دالوں کا 26 فیصد، دودھ اور انڈوں کا 19 فیصد، گوشت کا 22 فیصد اور سمندر سے حاصل ہونے والی مچھلیوں وغیرہ کا 40 فیصد حصہ کسی انسان کے پیٹ میں جانے کی بجائے تلف ہو جاتا ہے۔

غریب ممالک میں بھی یہ ضیاع بہت زیادہ ہو رہا ہے اور عمومی طور پر مارکیٹ پہنچنے سے پہلے ہی بہت زیادہ حصہ ضائع ہو چکا ہو تا ہے۔ اور ایسے سائنسی طریق رائج کرنے کی ضرورت ہے جن سے اس مسئلہ کو کم کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر بھارت کے جھارکنڈ میں اقوام متحدہ کے تعاون سے کاشتکاروں میں شمسی توانائی سے چلنے والے ایسے فرج متعارف کرائے گئے ہیں جن میں کاشتکار اپنی سبزیاں اور پھل محفوظ کر سکتے ہیں اور ان کا ضیاع کم ہونے کے ساتھ پیداوار کا معیار بھی خراب نہیں ہوتا۔

امیر ممالک میں زیادہ تر ضیاع مارکیٹ میں اور گھروں میں کیا جاتا ہے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک نہ خریدی جائے اور نہ پکائی جائے۔ اور سب سے ضروری ہے کہ تمام انسانوں کو یہ شعور دیا جائے کہ خوراک کا ضیاع ان کی جیبوں اور پوری دنیا کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے۔

ہم پاکستانی قرض کی مے پینے کو تو معیوب نہیں سمجھتے لیکن غالب کے برعکس یہ سمجھنے کو بھی تیار نہیں کہ یہ فاقہ مستی ایک دن رنگ لائے گی۔ کوئٹہ میں ایک تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ صرف دکانوں میں 18 فیصد پھل اور سبزیاں ضائع ہو رہی ہیں۔ اور دیگر مرحلوں پر جو ضیاع ہو رہا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ اور پکائے جانے سے قبل ہی سبزیوں کا زیادہ تر زیاں ہو چکا ہوتا ہے۔ اور نسبتاً کم ضیاع پکنے کے بعد ہو رہا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں نسبتاً دودھ کی کم مقدار ضائع ہو رہی ہے۔

کوئی بھی مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا، جب تک اسے ایک مسئلہ نہ سمجھا جائے۔ اس بات کا شعور حاصل نہ کیا جائے کہ تھوڑی سی بیدار مغزی سے ہم کتنے بڑے بڑے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اس نیک کام کا آغاز ہم اپنے گھروں سے بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے سڑکوں پر جلسے جلوس نکالنے یا دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments