جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا غیر یقینی مستقبل اور تحریک انصاف کا عروج


عوامی ردعمل اس سیلاب کی طرح ہوتا ہے جو راہ میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے۔ ایسا ہی عوامی ردعمل 17 جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں دیکھنے کو ملا۔ بری پرفارمنس پر تنگ آئی پبلک کو تحریک انصاف کی حکومت سے نجات دلانے کے لیے اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئیں اور جمہوری طریقے سے ان ہاؤس تبدیلی لے آئیں۔ حسب روایت صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے اور پھر مبینہ کرپشن کا ایک نیا پینڈورا بکس کھل گیا۔ بظاہر یہی لگا کہ تبدیلی سرکار ناصرف نا اہل بلکہ کرپٹ بھی تھی۔ بڑی شد و مد کے ساتھ کرپشن کی داستانیں سنائی جانے لگیں۔

ایسے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سازش کا بیانیہ لے کر پبلک میں نکلے اور ایک سیاسی جا رہا نہ پالیسی اپنائی۔ بظاہر جس سیاسی جماعت کا گراف گر چکا تھا ایک بار پھر اس کو عوامی پذیرائی ملنے لگی۔ تحریک انصاف کے عوامی اجتماع بڑے سے بڑے ہونے لگے ایسے میں سیاسی طور پر یک طرفہ ہونے والی فضا کو اپنے حق میں کرنے کے لیے نون لیگ کی رہنما مریم نواز شریف کو میدان میں اتارا گیا۔ تاہم ایسے میں پنجاب کی حکومت ڈگمگانے لگی۔ سردار عثمان بزدار کے مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کے 20 اراکین صوبائی اسمبلی منحرف ہوئے۔ تو تحریک انصاف نے ایکشن لیا اور ان کو ڈٰی سیٹ کرا کے ضمنی انتخابات کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔

وفاق کے بعد پنجاب میں بھی نون لیگ کی حکومت ہونے کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی یقینی تصور کی جانے لگی۔ مختلف اداروں کے سروے ہوئے اور نون لیگ کو ان 20 نشستوں میں سے 12، تحریک انصاف کو 6 اور دو آزاد امیدواروں کی کامیابی کی پیش گوئیاں کی گئیں۔ 17 جولائی کو پولنگ ہوئی اور تحریک انصاف نے حیرت انگیز طور پر بازی الٹ دی۔ اور ضمنی الیکشن کے ایسے نتائج سامنے آئے کہ نون لیگ تو دور خود تحریک انصاف کے لیے بھی شاید خلاف توقع تھے اور ان نتائج پر نون لیگی عطا اللہ تارڑ کو کہنا پڑا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہو گیا۔ تحریک انصاف کو ایک واضح کامیابی ملی اور پنجاب میں ایک بار پھر تحریک انصاف کی حکومت بننے کی امید ہو گئی۔

22 جولائی تک نئے وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہو جائے گا جو کہ بلاشبہ تحریک انصاف یا پھر اس کا حمایت یافتہ ہو گا۔ اب اس ضمن میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی شاید اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف جس کے پاس پنجاب میں نمبر پورے ہیں اپنا وزیراعلیٰ بنا جائے گی۔ تاہم اس سیٹ اپ کے بھی زیادہ چلنے کی امید کم دکھائی دیتی ہے کیونکہ عمران خان جلد سے جلد نئے انتخابات کے حامی ہیں تاکہ وہ اس عوامی رائے سے فائدہ اٹھا سکیں جو ان کے حق میں بہتر ہو چکی ہے۔ اور جس کا ایک فائدہ وہ ضمنی انتخابات میں اٹھا چکے ہی۔ کپتان کا بیانیہ پبلک نے قبول کر لیا ہے اور اسی کو پذیرائی مل رہی ہے۔ جبکہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا کمزور بیانیہ نہیں نہیں چل سکا۔

اب نئے عام انتخابات اسی سال ہوں یا پھر آئندہ سال منعقد ہوں طے شدہ امر ہے کہ اگر عمران خان کے بیانیہ کے ساتھ پبلک اسی طرح منسلک رہی تو پنجاب میں نون لیگ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا غیر متوقع نتائج کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ نون لیگ کو پرانے نظریاتی کارکنوں کو ہی ٹکٹ دینی پڑے گی اور پارٹیاں بدلنے والوں سے متعلق اپنی پالیسی میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ اور جب تک مخلوط حکومت ہے نون لیگ کو پنجاب میں کامیابی کے لیے پبلک کو ڈلیور کرنا ہو گا۔ میڈٰیا پر سیاسی مخالفین کی کردار کشی کی بجائے پبلک کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ وگرنہ اسی طرح کی صورتحال میں تحریک انصاف دوبارہ اقتدار میں آ رہی ہے

رہی بات کہ پنجاب کے ان ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا حاصل کیا تو بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے پنجاب میں سیاسی طور پر بہت کچھ کھو دیا ہے۔ جنوبی پنجاب جہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک موجود تھا میں کسی ایک نشست پر بھی اپنا امیدوار نا کھڑا کرنا ایک غیر سیاسی اور مایوس کن فیصلہ تھا۔ پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت کی خاطر بہت بڑٰی قربانی دی اور جنوبی پنجاب میں نون لیگ کا مقابلہ کرنے کی بجائے تحریک انصاف کو میدان دے دیا۔ اب یہ میدان ملنا بہت مشکل ہے اب جنوبی پنجاب میں بھی نون لیگ کا مقابلہ تحریک انصاف ہی کرے گی۔

اگر پیپلز پارٹی دوبارہ اپنے پیر جمانے کی کوشش بھی کرے گی تو جنوبی پنجاب کے مخدومین کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مخدوم احمد محمود پارٹی کے ساتھ مخلص مگر تنظیمی طور پر مکمل غیر فعال ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی جنوبی پنجاب میں گرفت انتہائی کمزور ہو چکی ہے جبکہ ملتان کے مخدوم یوسف رضا گیلانی کو اپنے بیٹوں کے سیاسی مستقبل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے اچھا محکمہ لینے کی خاطر نون لیگ کو سفارشیں کراتے رہے اور اسی لیے دل کھول کر نون لیگ کی حمایت کی کہ کسی طرح ان لیگ کی ہمدردی حاصل کرسکیں۔

پاکستان کی سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی آصف علی زرداری کو پنجاب اور بالخصوص جنوبی پنجاب میں پارٹی کی ابتر حالت پر توجہ دینی ہوگی اور نون لیگ سے الگ بیانیہ ترتیب دینا ہو گا۔ جنوبی پنجاب کی قیادت نوجوان سیاسی لیڈر شپ کے ہاتھوں میں دینی ہوگی تاکہ پارٹی کو اور ورکرز کو فعال کیا جا سکے۔ اور اگر یہ فیصلے بروقت نا کیے گئے تو آئندہ عام انتخابات میں جنوبی پنجاب سے کسی اچھی خبر کی توقع نا کی جائے۔ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو اور کو چیئرمین آصف علی زرداری کو جنوبی پنجاب پر فیصلے لینے ہوں گے وگرنہ یہی کچھ ہو گا کہ آئندہ مقابلہ تحریک انصاف اور نون لیگ میں ہو گا جبکہ پیپلز پارٹی کے ورکرز کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ فی الوقت زمینی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کہیں مقابلے میں نہیں ہے اور جنوبی پنجاب کی یہی قیادت مسلط رہی تو آئندہ بھی مقابلے میں نظر نہیں آئے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments