پنجاب کے ضمنی الیکشنز کے بعد


پنجاب میں بیس سیٹوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی واضح کامیابی پاکستان کے عوام، اور سیاست میں ایک نئے رجحان کی عکاسی کرتی ہے، چاہے ہمیں یہ صورتحال پسند ہو یا نہ ہو، لیکن اب یہ ”امر واقع“ ہے، مسلم لیگ نون اس تمام صورتحال کی سب سے بڑی متاثرہ فریق بن کر سامنے آئی ہے، اور پنجاب جو روایتی طور پر اس کی طاقت کا گڑھ سمجھا جا رہا تھا وہاں یہ تبدیلی پی ڈی ایم میں شامل سب جماعتوں کی بہ نسبت مسلم لیگ نون کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے، جس کا خمیازہ اسے مستقبل میں بھی اٹھانا پڑے گا۔

اپنے روایتی گڑھ سے یہ انتخابی شکست دور رس نتائج کی حامل ہے، کہ بظاہر اس شکست کی وجہ سے پنجاب جیسے بڑے صوبے کی حکومت مسلم لیگ نون کے منتخب کردہ وزیر اعلی کا عہدہ، وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے فرزند ارجمند حمزہ شہباز کے ہاتھوں سے نکل کر ان کے روایتی حریفوں کے ہاتھ جاتا نظر آ رہا ہے، جو مستقبل میں بھی پنجاب کی سیاست پر مسلم لیگ نون کے لیے خطرے کا باعث بنے گا، اس انتخابی رجحان کے پنجاب بلکہ مرکز کی سیاست پربھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی کی طرف سے یہ بیانیہ بھی سامنے آ رہا ہے، کہ چیف الیکشن کمشنر پر، پی ٹی آئی، کے اعتراضات اور تحفظات دور کرنے کے لیے دراصل یہ سازش کی گئی ہے، اور اسی وجہ سے محترمہ مریم نواز شریف نے پی ٹی آئی کو مبارک بھی دی ہے، تاکہ آئندہ الیکشن میں الیکشن کمیشن کی ”ملی بھگت“ سے الیکشن میں متوقع دھاندلی پر قبل از وقت ہی پردہ ڈالا جا سکے، یہ وہی مخصوص پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے، جس کے ذریعے بیک وقت کئی سیاسی مخالفین یا اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور ان کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی تمام تر قانون اور اصول پسندی کے باوجود محفوظ شدہ، فارن فنڈنگ کیس، کا محفوظ شدہ فیصلہ سنانے کا ”فیصلہ“ نہیں کر پا رہا۔

دوسری طرف پنجاب کے ضمنی الیکشن سے ایک روز قبل ایک ”اہم ترین عہدیدار“ کی چوہدری پرویز الہی سے ملاقات کی خبر، بھی پی ٹی آئی قیادت کو شطرنج کی بساط پر دوبارہ سے نظر ڈالنے پر مجبور کر رہی ہے، گو کہ کچھ عرصے سے تحریک انصاف کی قیادت کے اداروں کے بارے میں بیانئیے میں ”پھر سے“ تبدیلی آتی دکھائی دے رہی ہے، اور کچھ مفاہمتی ایلچیوں اور جرگہ داروں کی آمد و رفت کی شنید بھی ہے، گویا مسلم لیگ نون کی راہیں روز بروز مزید مسدود ہوتی یا کی جاتی، دکھائی دے رہی ہیں۔

”کاغذات پر“ نون لیگ کی حکومت کے باوجود یہ پارٹی اپنے جلا وطن قائد میاں نواز شریف کی واپسی کے لیے کوئی ریلیف لینے میں نہ صرف مکمل طور پر ناکام نظر آئی ہے، اس سلسلے میں پارٹی کی طرف سے اس ضمن میں کوئی خاص سنجیدہ کوشش بھی دکھائی نہیں دی، گویا مجبوری سی مجبوری ہے، نہ جانے اس اقتدار کے ”پیکیج“ میں ”بہت سے کیمپ آفس“ رکھنے اور صبح بہت سویرے اٹھنے کی مراعات کے علاوہ وہ کون سی مراعات و سہولیات ہیں، جو اس سلوک کو موجودہ حکومت کے لیے قابل قبول اور قابل برداشت بناتی ہیں، جو سلوک شاید کوئی پالتو جانور بھی قبول نہ کرے۔

اسی طرح محترمہ مریم نواز شریف کے پاسپورٹ کی واگزاری تک میں موجودہ حکومت ناکام دکھائی دی ہے، اس صورتحال میں موجود مجبور و محدود حکومت کے لیے ”حکومت“ کا لفظ استعمال کرنا بھی کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے لیے اس تمام صورتحال کی ذمہ داری اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ اور مخالفین جتنی ہی یا شاید اس سے بھی زیادہ مسلم لیگ نون ہی کی اعلیٰ قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے، پارٹی عہدوں پر نامزدگیاں کہیں باہر سے تو نہیں کی جاتیں، پارٹی صدارت سمیت وزیر اعلیٰ پنجاب تک کے لیے بھی اعلی ترین قیادت یعنی محترم میاں نواز شریف کی ہی طرف سے نامزدگیاں پارٹی بلکہ ”خاندان“ میں کسی تقسیم کی نفی کرتی ہیں، جیسا کہ تاثر مخالف جماعتوں کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے، درحقیقت مسلم لیگ نون ایک پارٹی سے زیادہ ایک فیملی گروپ کے طور پر نمایاں اور متحد رہی ہے، اور آج بھی ہے، پوری پارٹی میں سے جب بھی کسی اہم عہدے پر تعیناتی یا نامزدگی کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمیشہ پہلی ترجیع خاندان ہی ہوتا ہے، پارٹی قیادت کا اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی تجاوز کو چیلینج کرتا جو بیانیہ اور اس کا واضح الفاظ میں اظہار، عام میں پارٹی اور اس کی اعلیٰ جلا وطن قیادت کی وسیع پیمانے پر حمایت کا باعث بنا تھا، نامعلوم وجوہات سے اس بیانئیے سے بھی یو ٹرن لے لیا گیا، بظاہر اس مراجعت کی وجہ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات اور ذاتی نوعیت کے ریلیف ہی نظر آتے ہیں، یعنی ”قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند“ بنیادی اور اصولی موقف میں یہ تبدیلی بھی عوام کو پارٹی قیادت سے متنفر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

موجودہ حکومت نے اپنی سیاسی کمک کے طور پر محترمہ مریم نواز شریف کی سیاسی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کی بہت کوشش کی، اور ان کو محترم عمران خان کے مقابلے میں عوامی جلسوں سے خطاب کروائے گئے، لیکن تمام تر شعلہ بیانی کے باوجود محترمہ کی تقاریر میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی اقدامات کو چیلینج کرنے کا عنصر غائب تھا، جو کہ محترمہ کی قیادت کا بنیادی کرشمہ سمجھا جاتا تھا، جب یہ بیانیہ جو مقبولیت کی بنیادی وجہ تھا، واضح طور پر ترک کیا جاتا، عوام اور کارکنوں نے محسوس کیا تو ان تقاریر کی اثر انگیزی میں بھی کمی آتی چلی گئی، پاکستان میں روایتی طور پر کیونکہ قیادت ہمیشہ عوام سے بالکل علیحدہ فضاء میں سانس لیتی ہے، جہاں ان کو کسی شدید نقصان کے بعد ہی عوامی رائے کا کسی حد تک اندازہ ہو پاتا ہے، تب اپنے ذاتی مفاد میں اپنی فطری ذہانت یا چالاکی کو بروے کار لاتے ہوئے، عوامی خواہشات کو سمجھنے اور اس کے قریب ترین موقف اختیار کرنے کا رویہ ظاہر کیا جاتا ہے، اور دوبارہ سے عوامی حمایت حاصل ہوتے ہی، یا مطلوبہ اختیار و عہدے حاصل ہوتے ہی، اسی اعلی آب و ہوا، ماحول اور کیفیت کے ”ائر کنڈیشنڈ اور ساونڈ پروف“ کو کون میں جا بسیرا کیا جاتا ہے، جہاں نہ تو باہر کی تپتی ہوا پہنچتی ہے، اور نہ عوام کی چیخ و پکار کی آوازیں ڈسٹرب کرتی ہیں، مسلم لیگ نون میں تمام موجودہ جماعتوں کی نسبت زیادہ تعداد میں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ اور باشعور کارکن شامل ہیں، جن کی حمایت اور مخالفت کا معیار کسی شخصی یا خاندانی وفاداری یا عقیدت سے ہٹ کر ہمیشہ ملک کا مفاد اور نظریہ پاکستان رہا ہے، لیکن افسوسناک امر ہے کہ پارٹی قیادت کبھی ان کے معیار پر پوری اترنے اور استقامت دکھانے میں کامیاب نہیں رہی، اس وقت اعلیٰ قیادت کے نزدیک ترین آس پاس ”درجہ دوئم“ کی وہ قیادت دکھائی دے رہی ہے، جن کی کمزوری اپنے خاندانی پس منظر کے تناظر میں جائز یا ناجائز طریقے سے کمائی گئی دولت ہے، ان ہی اصحاب کے والد صاحبان نے سفید پوشی کی شہرت کے ساتھ اپنی سماجی و سیاسی زندگی گزاری، لیکن آج ان کی ہی سیاست میں موجود اگلی نسل سرمایہ داروں کی صفوں میں شامل ہو چکی ہے، لہذا ان کے اپنے ذاتی مالی مفادات بھی ان کو اپنی اختلافی حدود کو محفوظ حد تک محدود رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

یہاں تو پرویز رشید جیسے غیر سرمایہ دار مخلص سیاسی کارکن کو جب ناجائز طور پر سینٹ کی رکنیت حاصل کرنے سے روکا گیا، تو پارٹی یا پارٹی قیادت میں سے ان کے حق میں کوئی آواز تک نہیں اٹھی، یہ صرف ایک مثال نہیں، ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ دوسری طرف موجودہ انتخابی کامیابی سے تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے سرپرستوں کی ہمہ جہت کوششیں اور حکمت عملی بھی ان کے مقصد کے مطابق کامیابی سے ہمکنار ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، ان کی طرف سے عوام کے سامنے پیش کیا گیا امریکی سازش کا مبہم بیانیہ بھی مقبولیت حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے، ایک منصوبہ بند طریقے سے طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے عوام کو ان کے تاریخی شعور، فہم اور تجزیے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے، لہذا اب مقتدرہ کے ففتھ جنریشن منصوبہ سازوں کی طرف سے جو بھی سوچ، موقف اور بیانیہ چاہے وہ کتنا ہی جھوٹا اور مضحکہ خیز کیوں نہ ہو، اسے عوام کی ناخواندہ، نیم خواندہ اور ناقص خواندہ، اکثریت حقیقت سمجھ کر ایسے ہر غیر قانونی، غیر آئینی موقف پرنہ صرف یقین لے آتی ہے بلکہ اس کی حمایت میں کھڑی بھی ہو جاتی ہے، جس کی بہترین مثال تحریک انصاف کا کارکن ہے، جو اپنی قیادت کے ہر روز کی بنیاد پر تبدیل ہوتے موقف کی حمایت پورے جوش و خروش سے کر رہا ہے، کسی دلیل، شہادت، منطق سے ان کا کوئی سروکار نہیں ان کا اثاثہ اپنی قیادت کی شخصیت کی کشش، خوبصورتی، اور عقیدت کے درجے پر پہنچی ہوئی وابستگی ہے۔

یہ مخلص عقیدت مند صدق دل سے سمجھتے ہیں، کہ ان کے محترم قائد، روس، پاکستان کے لیے تیس فی صد سستا تیل حاصل کرنے کے لیے گئے تھے، جو ساڑھے پانچ ہزار میل کا سمندری سفر طے کر کے پاکستان پہنچتا اور یہاں استعمال سے قبل بھارت کی آئل ریفائنریوں میں، جہاں یہ مخصوص سہولت موجود ہے، ریفائن ہو کر پاکستان کی مارکیٹ میں صارفین کو ”سستا“ فراہم ہوتا۔ یہ اعلی نظر حضرات یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں فرماتے کہ اگر امریکہ اور مغرب کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے روس سے ہی ایندھن حاصل کرنا ہے، تو اپنے ہمسائے میں واقع ایران جہاں آج بھی ریفائنڈ پیٹرول کا ریٹ پندرہ روپے لیٹر ہے، تو ہم اپنے ہمسائے سے جس نے معاہدے کے تحت ایندھن اور گیس کی سپلائی کے لیے ہم سے ملنے والی اپنی سرحد تک پائپ لائن بچھا رکھی ہے، ہم اس سے ہی کیوں نہیں لے لیتے، اتنا سوچنے کا ہمارے ”باشعور“ عوام کے پاس وقت نہیں ہے، لہذا اپنی ذمہ داری پر احتیاط سے گزریں کیونکہ ”آگے کام جاری ہے“ لگتا ایسا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے حامی عوام کے جم غفیر کے نالوں کا آخر ”افلاک“ سے جواب آنے کو ہے، شواہد اور قرائن سے ایسا دکھائی دے رہا ہے، کہ آئندہ انتخابات جو اب کچھ زیادہ دور دکھائی نہیں دے رہے، ان میں محترم عمران نیازی صاحب کی جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی، اور وہ حسب منشاء نومبر کے آخر میں اعلیٰ عہدے کے لیے ان ہی کا انتخاب اور نامزدگی کر سکیں گے جن کے بارے میں موصوف نے حال ہی میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اور ان کے ماتحت ادارے بجٹ یا قانون سازی کے مواقع پر اتحادی جماعتوں اور دیگر ممبران کا ”ہانکا“ کر کے ان کو خان صاحب کے لیے ”دستیاب“ کرتے، اور یوں کاروبار حکومت کرپٹ اپوزیشن کی بدنیتی، بدعنوانی اور مخالفت کے باوجود، بخیر و خوبی جاری رہتا۔

اس تمام منظر نامے میں آئندہ کم ازکم بیس سال تک پاکستان میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں، جو کچھ جیسے چل رہا ہے اور جو چلا رہا ہے، یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا، اور وہی چلاتے رہیں گے، پاکستان کے عوام کی خوش فہمیوں یہاں لفظ ”خارش“ زیادہ مناسب ہوتا، کا علاج بھی شاید یہی کچھ ہے، گویا ”تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں“ یہاں عوام معاشی طور پر اسی نزع کے عالم میں رہیں گے، پاکستان میں پھر سے ”اسلامی“ کے متبرک اضافے کے ساتھ ”اسلامی صدارتی نظام“ نافذ کیا جائے گا، اب خدا سے دعا ہے کہ جس طرح پہلے یہ متبرک نظام جاتے جاتے اپنے ساتھ مشرقی پاکستان، کو، پاکستان کی اکثریتی آبادی سمیت لے گیا تھا، اب تو یہاں مزید کچھ جانے کی گنجائش ہی نہیں رہی، لہذا اب تو کبھی کبھی پاکستانی عوام کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ ”بحیرہ عرب“ والا ارشاد، انتباہ یا ”پیش گوئی“ لگنے لگتا ہے۔

ایک انتہائی مفلوک الحال شخص، فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک نجومی کے پاس گیا، اور اسے اس کی واجبی فیس دے کر اس کے سامنے اپنا دائیاں ہاتھ کیا، اور اس سے اپنی قسمت کا حال پوچھا، نجومی نے بغور اس کے ہاتھ کا معائنہ کیا اور کہا، چالیس سال کی عمر تک تمہاری مشکلات ایسے ہی قائم رہیں گی، اس شخص نے فوراً پوچھا اور اس کے بعد ۔ نجومی سکون سے بولا، اس کے بعد تمہیں ان حالات کی عادت ہو جائے گی۔ ہمارا بھی من حیث القوم کچھ ایسا ہی مستقبل نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments