پاکستان کے اوپر تجربات جاری رہیں گے


سب سے پہلے میں تحریک انصاف کے تمام ہمدرد و کارکنان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے الیکشن جیتنے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ فتح و شکست کھیل کا حصہ ہوتے ہے، لیکن کھیل جاری رہنا چاہیے۔

کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں کبھی کی راتیں۔ اس لئے جہاں فتح کی خوشی مناتے ہیں وہاں شکست کا سوگ بھی منائیں، یہی زندہ دلی ہے۔ کیونکہ دھاندلی بھی مقابلہ کرنے والے کے لئے ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا پر دو بیانیہ ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے جیت کر کوئی کمال نہیں کیا، یہ تو وہی نشستیں ہیں جہاں آزاد امیدوار کھڑے ہوئے تھے جو بعد میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ دروغ بگردن راوی تمام سیاسی پرندوں کو پی ٹی آئی کی منڈیر تک لانے کا سہرا جہانگیر خان ترین اور ان کے جہاز کو جاتا ہے۔ خیر جو کچھ بھی ہو فی الوقت کی حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب خودداری، امریکی سازش، مہنگائی اور مقتدر حلقہ مخالف بیانیہ لے کر الیکشن میں اترے تھے اور اس بیانیہ کو وہ عوام الناس میں بیچنے میں ناصرف کامیاب ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے عوام الناس کے دل میں یہ راسخ کروا دیا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ وہ نہیں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا جڑواں شہر راولپنڈی ہے۔

یہ نتائج اس لئے بھی حیران کن ہیں کہ پنجاب جیسے صوبہ سے مقتدر حلقوں کے خلاف آواز بلند ہونا قابل تحسین ہے۔ چند مزید اہم باتیں اس الیکشن نے واضح کی ہیں جن میں الیکٹیبلز (انتخابی نمائندگان) کی سیاست کا ختم ہونا ہے، عوام الناس نے انھیں مسترد کر کے یہ باور کروایا ہے کہ ووٹ عوامی امانت ہے اس لئے خیانت سے گریز کریں۔ اس انتخابی نمائندگان کی سیاست پر جتنی کاری ضرب لگے گی اتنا طاقت میں مقتدر حلقوں کا اثر ختم ہو گا، نیز لوگوں میں نظریاتی سیاست پروان چڑھے گی جسے مقتدر حلقوں نے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

خان صاحب نے ضمنی انتخابات تک تو الیکشن سائنس سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر جنرل الیکشن میں اس مشق کو دہرانے میں کامیاب ہو سکیں گے کہ نہیں اس پر تبصرہ فی الوقت ممکن نہیں۔

پنجاب میں مقتدر حلقوں کے خلاف ووٹ پڑنا اور پاکستان تحریک انصاف کا اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر الیکشن لڑنا پاکستانی جمہوریت کے لئے خوش آئند ہے۔

ریاست و ملک کی بقا اسی میں ہے کہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں اور الیکشن کا نظام بھی شفاف ہو اور اسٹیبلشمنٹ اس کھیل سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو، اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو عمرانی معاہدہ کر کے من و عن عمل کرنا ہو گا۔ اول حکومت جس کی بھی ہو گی اسے پانچ سال کی مدت مکمل کرنے دی جائے گی۔ دوم ہر صورت میں بلدیاتی نظام اور انتخابات کی ترویج کی جائے گی تاکہ جمہوری لوگوں کی ایک باقاعدہ پنیری لگائی جا سکے جو عوام الناس میں سے ہو۔

مسلم لیگ نون کے لئے اس شکست میں چند واضح نشانیاں ہیں اگر وہ نوشتہ دیوار دیکھنا اور پڑھنا چاہیں۔ مسلم لیگ نون کو موروثی سیاست سے باہر نکلنا پڑے گا۔ شہباز شریف کے بیانیہ سے بالآخر جان چھڑوانا پڑے گی، یعنی آئین و قانون کی بالادستی کا علم بلند کرنا پڑے گا مفاہمت کا راستہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ اپنے دیرینہ کارکنان کو صرف نظر کر کے صرف انتخابی نمائندگان کو اہمیت دیں گے تو آپ عام انتخابات میں بھی ذلیل و رسوا ہوں گے۔

باقی ملک میں جتنا مرضی انقلاب آ جائے اس انقلاب کو بالآخر گیٹ نمبر 4 پر ہی حلالہ کے لئے رجوع کرنا پڑتا ہے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں لیکن ایک بات طے ہے ہمارے سبھی سیاستدان مقتدر حلقوں کے آلہ کار ہی ہیں اور رہیں گے کیونکہ ان کے دانت بھی ہاتھی کے ہیں کھانے کے اور اور دکھانے کے اور۔

ضمنی انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا نیز اب سیاسی حدت میں بھی اضافہ ہو گا اور جس طرح کی ہوا چل رہی ہے، خان صاحب چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ آخر میں عرض یہ ہے خان صاحب کو نکالا ہی لانے کے لئے گیا تھا بس مسلم لیگ نون نے نجانے کس آس پر پھندا اپنے گلے ڈالا یا انھیں سمندر میں کودنے کا مشورہ کس نے دیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

میں یہ بات پہلے بھی عرض کر چکا ہوں مولے کو مولا نہ مارے تو مولا نہیں مرتا، سیاسی جماعتیں اپنے وزن سے فنا ہوتی ہیں کسی ایک شخص کی خواہش پر نہیں۔ پیپلز پارٹی ہمارے سامنے اس کی زندہ جاوید مثال ہے، 4 صوبوں سے سندھ میں مقید ہو گئی ہے۔

جمہور و جمہوریت کا سفر ابھی بھی طویل و کٹھن ہے، اس لئے سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ ڈالر کی اونچی اڑان ہی ہماری معیشت و ملک کے گھبرانے کے لئے بہت ہے اور اگر عوام گھبرا گئی تو اشرافیہ کے دن پورے ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

ملک کیونکہ اسلامی و جمہوری تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے اس لئے تجربات جاری رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments