کچھ فیصلے جو ابھی ہونے باقی ہیں


ضمنی انتخابات کا فیصلہ تو ہو گیا لیکن کچھ فیصلے ہونے ابھی باقی ہیں۔ ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی گروہ بندی میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہو گئی ہے یعنی کچھ عرصہ قبل پاکستان میں جس قسم کی سیاسی تقسیم تھی، ڈرامائی طور پر اس کی کایا کلپ ہو گئی ہے۔ آسانی کے لیے یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس تقسیم میں پاکستان مسلم لیگ نون اس تبدیلی سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے متوازی کھڑی تھی۔ اب تاثر یہ ہے کہ یہ جگہ پی ٹی آئی نے لے لی ہے۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔

موجودہ دور میں سوشل میڈیا رائے عامہ کے ایک حصے کے انداز فکر کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے جنگجووں کی رزم آرائی پر توجہ دی جائے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ پی ٹی آئی یہ محاذ سنبھال چکی ہے اگرچہ عمران خان مختلف تاثر بھی دیتے رہتے ہیں۔ سیاست کی رفتار کو جاننے میں سوشل میڈیا یقیناً معاون بنتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک مسئلہ بھی ہے۔ ٹیلی ویژن صحافت کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی صورت ہوا میں اڑتے ہوئے پتے کی طرح ہوتا ہے جو ابھی یہاں ہے پھر جانے کہاں ہو۔ سوشل میڈیا کا بھی یہی ہے۔ لمحہ قبل ایک تاثر ہے لمحے کے بعد دوسرا۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے رجحانات بدلتے ہیں۔

عمران خان نے جب یہ کہا کہ جب میر جعفر اور میر صادق کا استعارہ استعمال کیا تو ان کے جنگجو لٹھ لے کر اداروں پر پل پڑے۔ ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو روایتی طور پر اداروں کے بارے میں ایک خاص رائے رکھتا ہے۔ قومی امور کے بارے میں ان کے انداز فکر سے اختلاف کرتا ہے۔ اس اختلاف رائے میں بعض اوقات شدت بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ اختلاف کسی ایسی کھلی جنگ میں کبھی نہیں بدلا جو پاک بھارت جنگ کا نقشہ پیش کرے۔ پی ٹی آئی نے سیاست کے میدان سے جیسے رواداری اور لحاظ مروت کو نکال باہر کیا، بالکل اسی طرح ریاستی اداروں کے خلاف بھی تلواریں نکالیں۔ ان کے بارے میں ایسی ایسی بات کہی جسے منھ سے نکالنے سے قبل انسان کو سو بار سوچنا چاہیے۔

موجودہ دور پاکستان کی تاریخ کا کئی اعتبار سے منفرد دور ہے۔ یہ غنیمت ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور خاص طور پر عمران خان بات کرنے کے بعد اس کے درست اور غلط ہونے پر توجہ دے لیتے ہیں لیکن ان کے پیروکار ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ان کے یہاں یہ احتیاط بھی نہیں۔ وہ زبان سے زخم لگاتے چلے جاتے ہیں۔ اس دوران میں ان کی قیادت کی رائے بدل لے تو انھیں بھی اپنی رائے تبدیل کرنے میں ذرا جھجک نہیں ہوتی لیکن صورت حال کوئی بھی ہو، وہ اپنے سیاسی مخالف کے لیے وہی زبان اختیار کرتے ہیں جو کسی ملک دشمن یا دشمن ملک کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھا جائے تو کچھ ایسی صورت حال سامنے آتی ہے گویا مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے متوازی۔ ان کے مقابلے میں عمران خان کی حکمت عملی میں ابہام ہے۔

وہ چند اہم شخصیات کو میر جعفر، میر صادق کی گالی بھی دیتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا ساتھ نہ دینے والے مشرک ہیں اور قبر میں سے سوال کیا جائے گا کہ انھوں نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ اسی سانس وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ اداروں کے ساتھ ان کی کوئی لڑائی نہیں۔ بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ حال ہی میں اس اطلاع نے تو حیران کر کے ہی رکھ دیا ہے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر سے خفیہ ملاقات کے لیے کوشاں رہے ہیں۔

اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر یہ کوئی ایسا راز نہیں ہے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر سے کیوں ملنا چاہتے ہوں گے؟ بات بہت واضح ہے کہ ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ گزشتہ کئی برس سے الیکشن کمیشن میں زیر سماعت تھا۔ انھوں اپنی سرکاری حیثیت میں اثرانداز ہو کر اس مقدمے کو لٹکانے کی بہت کوشش کی۔ اس وجہ سے یہ مقدمہ غیر ضروری طور پر طوالت بھی اختیار کر گیا۔ یہ کریڈیٹ تو مضبوط ارادہ رکھنے والے اکبر ایس بابر کو جاتا ہے جنھوں طویل لڑائی بڑی استقامت سے لڑی۔

بات بہت واضح ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کے مالی معاملات اور ان کے مضر اثرات سے اچھی طرح آگاہ تھے اور چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہو کر اس قانون شکنی کے نقصان دہ اثرات سے بچا جا سکے۔ چیف الیکشن کمشنر سے خفیہ ملاقات عمران خان کی کوشش کے بے نقاب ہو جانے کے بعد وہ ایک مشکل پوزیشن میں جا کھڑے ہوئے ہیں۔ اب تو وہ مسلم لیگ ہر الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ ایمپائر کو ساتھ ملا کر کھیلا کرتی ہے۔ اپنے اس الزام کا وہ کبھی کوئی ثبوت تو پیش نہیں کر سکی۔

کسی الزام کو ثابت کرنا اس جماعت اور اس کے قائد کا کبھی مسئلہ رہا بھی نہیں لیکن حالیہ انکشاف نے یہ ثبوت فراہم کر دیا ہے جو الزام وہ دوسروں پر لگایا کرتے تھے، حقیقت میں وہ خود ایسے ہی کام کیا کرتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی خبر نے تو دراصل سب چونکایا ہے لیکن حقیقت میں تو یہ جماعت بہت پہلے سے ہی اسی قسم کا مزاج رکھتی تھی اور اب بھی اسی کوشش میں ہے۔ اسی جماعت کے ایک بڑے اتحادی چودھری پرویز الٰہی نے نیپیاں بدلنے والی پھبتی کس کر اسی سے پردہ اٹھایا تھا۔

یہ تمام واقعات پی ٹی آئی کی اس کمزوری سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ یہ جماعت اقتدار بھی حاصل کرنا چاہتی ہے اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کسی اصول پر کاربند رہنا بھی ضروری خیال نہیں کرتی۔ سیاسی منظر نامے پر اس جماعت کے ابھرنے سے قبل ہماری سیاسی جماعتیں پختگی کی ایک خاص سطح پر پہنچ چکی تھیں۔ انھوں نے کار سیاست کے اصول وضع کر لیے تھے جن کی پاس داری بھی بڑی حد تک کی جا رہی تھی۔ پی ٹی آئی کے طاقت پکڑنے کے بعد صورت حال بدل گئی اور اس جماعت نے بے اصولی کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں کہ پناہ بخدا۔

اس طرح اس نے سیاسی اقدار کی پابندی کی تازہ روایت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد اس جماعت کو یہ موقع میسر آیا تھا کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر کے اپنی اصلاح کرتی لیکن اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اب اگر یہ جماعت ان ہی طور طریقوں کے ساتھ اقتدار میں واپس آنا چاہتی تو نہ یہ خود اس کے اپنے لیے مفید ہو گا، نہ ملک کے لیے اور نہ قومی اداروں کے لیے جنھوں نے خود کو اپنے آئینی دائرے میں محدود رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں بہتر تو یہی ہے کہ یہ جماعت اپنے طرز عمل کا جائزہ لے کر اصلاح کرے تاکہ سیاست میں اڑتے ہوئے گرد و غبار کو بیٹھنے کا موقع مل سکے۔ اگر یہ جماعت اپنی اصلاح کی طرف راغب نہیں ہوتی تو پھر یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے یا پھر قانون کا سختی سے نفاذ یہ مسئلہ حل کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments