پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا فضل ہے


ویسے تو فیل ہونا کوئی نیک شگون نہیں۔ لیکن صاحب کیا ہے کہ ہر بار پاس ہونا بھی ذہانت کا معیار نہیں۔ ہم تو صرف اس بات کو جانتے ہیں کہ دو لوگ جب میدان میں اتریں، تو دونوں میں کسی ایک کو ہارنا ہوتا ہے اور ہم نے الحمدللہ خود کو اس کے لیے ہمیشہ تیار رکھا۔ گھر والوں کو شادی مرگ سے بچانے کے لیے پاس ہونے کی کبھی شعوری یا لاشعوری کوشش ہرگز نہیں کی۔ جن دنوں ہم علم کی طلب میں مکتب جاتے تھے، ان دنوں پڑھائی کو سر پہ سوار کرنے کا رواج ہرگز نہیں تھا۔

دماغ پہ زیادہ بوجھ نہ پڑے اس واسطے زیادہ تر طلبا نصابی سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے۔ بلکہ یوں کہیے نصابی سرگرمیوں سے دور ہی رہتے۔ امتحان میں کامیابی سراسر طلبا اور ماؤں کی مشترکہ دعاؤں کا نتیجہ ہوتی۔ جس سال دونوں میں کسی ایک کا دھیان بٹ جاتا اس سال طلبا فرسٹ کلاس نمبروں سے فیل ہو جاتے۔ جیسے ہی امتحانات قریب آتے تو میرے جیسے بیشتر طالب علم دین کے انتہائی قریب ہو جاتے۔ نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا ہوجاتا، جس کی گواہی چہروں سے مل جاتی، چند ہی دنوں میں ماتھے پہ ایسا کالا نشان پڑتا کہ عادی نمازیوں کی نمازوں پہ شبہ ہونے لگتا۔

طلبا کے خالص اسلامی حلیے سے ہی پتہ چل جاتا کہ اس کے امتحان سر پہ ہیں۔ پورے علاقے میں طلبا کے عابد ہونے کی دھوم مچ جاتی۔ اس ساری ریاضت کے بعد بھی اگر کامیابی حاصل نہ ہوتی تو سیدھا ممتحن پر شک پڑتا کہ طلبا کی نیت تو انتہائی نیک تھی۔ کچھ طلبا تو ایسے بھی تھے جو اس میں سازش کی بو پا لیتے جو اس کے خلاف کی گئی تھی۔ ایک قیاس یہ بھی ہے کہ طلبا پاس ہو کر بے روزگار رہنے کی بجائے فیل ہو کر مزید علم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔

ان دنوں طلبا فیل ہوتے تھے یا پھر بہت ہوا تو پاس ہو گئے۔ چونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا ابھی رجحان نہیں تھا لہذا فرسٹ پوزیشن لانے کا بوجھ بھی تمام طلبا کے ناتواں کندھوں پر ہرگز نہیں ہوتا تھا۔ فرسٹ سیکنڈ ہر کوئی نہیں آتا تھا، جو آتا وہ سینکڑوں میں اکیلا ہوتا لہذا کونے میں تنہا ہی کھڑا رہ جاتا۔ جم غفیر پاس ہونے والوں کا ہوتا یا پھر فیل ہونے والوں کا۔ جس طرح فیل ہونے والے طلبا کی دل جوئی کی جاتی، اس سے کئی طلبا کو اپنے پاس ہونے پر افسوس ہونے لگتا اور وہ حسرت سے بن کھلے غنچوں کی طرف دیکھنے لگتے۔

کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ پاس ہونے والے غم میں مبتلا ہو جاتے کہ کیا تھا اگر وہ بھی فیل ہو جاتے۔ بس جی فیل ہونے والوں سے خصوصی شفقت برتی جاتی۔ انھیں حوصلہ دیا جاتا کہ ہمت نہیں ہارنی، اس بار نہیں تو اگلی بار کامیابی قدم چومے گی۔ پڑھائی سے بیزار نہ ہوجائیں اس واسطے فیل ہونے والوں کو کم ہی کوسا جاتا۔ آج کے والدین کے طرح نہیں کہ پاس ہو کر بھی ڈانٹ ہی پڑتی کہ پوزیشن کیوں نہیں لی۔ البتہ پرچہ چیک کرنے والوں کی غائبانہ شامت آجاتی، جس نے انتہائی سخت مارکنگ کی تھی۔ تیرہ تو آ ہی گئے تھے کیا تھا اگر بارہ پندرہ نمبر رعایتی دے دیتے۔ ان دنوں رعایتی نمبروں کی بڑی مانگ ہوتی تھی۔ کہ زیادہ تر دعا یہی ہوتی، بے شک رعایتی نمبر مل جائیں لیکن بس پاس ہوجائیں۔ کہ پرچے چیک کرنے والے کسی قسم کی رعایت دینے کے روادار ہرگز نہیں ہوتے تھے۔

پے درپے ناکامیوں کے وار سہنے کے بعد کسی بھی طالب علم کا پاس ہونا اس بات کا ثبوت ہوتا کہ وہ متعلقہ مضامین میں مکمل عبور حاصل کر چکا۔ لہذا خوب آؤ بھگت ہوتی، ہر کوئی توصیفی نگاہوں سے دیکھتا۔ طالبعلم بھی یوں اکڑتا جیسے رستم کو اکھاڑے میں پچھاڑ کر آیا ہو۔ یقین کریں پورا زمانہ طالب علمی میں پوزیشن یا گریڈ کا چکر ہی نہیں ہوتا تھا۔ سچی بات ہے صاحب سیدھے زمانے تھے کبھی کسی کے والدین نے بھی فرسٹ، سیکنڈ پوزیشن یا کسی گریڈ کا نہیں سوچا تھا کہ یہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ ان کے لیے تو طلبا کا امتحان میں پاس ہونا ہی بڑی کامیابی ہوتی تھی۔ کہ امتحان لینے والے طلبا کو یونہی پاس نہیں کر دیتے تھے۔

یہ ’امتحان‘ نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور فیل ہو ہو کے ’پاس‘ کرنا ہے

لیکن جہاں اتنی تبدیلیاں آئیں ہیں وہاں فیل ہونے کا رواج بھی متروک ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ سب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے فضل کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ پرائیویٹ اداروں کی بھرمار نے فیل ہونا بھی ایک خواب بنا دیا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی شکل میں تعلیم کاروبار بن چکی ہے اور ان کاروبار کرنے والوں نے طلبا کو نمبرز اور گریڈ کے چکر میں الجھا دیا ہے۔ طلبا کی ذہنی سطح کیسی ہی ہو یہ طے ہے کہ فیل کسی نے نہیں ہونا۔

سب پاس ہو جاتے ہیں وہ بھی اے گریڈ کے ساتھ۔ جن کے بی گریڈ آئیں ان کے والدین منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ اے گریڈ لینے سے طلبا آئن سٹائن اور نیوٹن بن جائیں گے۔ قسمے ایسا تو نیوٹن اور آئن سٹائن کے والدین نے بھی نہیں سوچا تھا۔ یہ گریڈز کا چکر محض اپنے اپنے ادارے کی مشہوری کے لیے ہے۔ یقین کریں سو میں نوے نمبر یا اے گریڈ لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ طلبا جو پڑھ رہے ہیں وہ اس کو کس حد تک سمجھ رہے ہیں۔ گریڈ بڑھ گئے ہیں اور تعلیم کا معیار گر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوران تعلیم ہمیشہ اے گریڈ لینے والے عملی زندگی میں ناکام ہو رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments