سردیاں


پاکستان میں سردیاں وقت بے وقت آجاتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ سردیاں 1958 میں آئی تھیں ورنہ اس سے پہلے ہمارے وطن کا موسم معتدل رہتا تھا خاص طور پر شہروں کا ، سردیاں زیادہ تر سرحدی علاقوں میں ہی رہتی تھیں اور ان کی وجہ سے ہمارے دشمن کانپتے رہتے تھے۔ سردیاں اگر صرف سرحدی علاقوں میں رہتیں تو شاید معاملات اسی طرح چلتے رہتے۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ یہ سردیاں بنا اجازت شہری علاقوں میں بھی آنے لگیں۔ ہوتا یہ کہ جب گرمیاں اپنی حدوں سے نکلنے لگتی تو سردیاں آ جاتیں اور لوگوں کو اچھا بھی لگتا لیکن پھر یہ سردیاں جانے کا نام ہی نہ لیتیں اور دھیرے دھیرے جڑوں میں بیٹھنے لگتیں جس سے عوام کی ہڈیوں کا گودا جمنے لگتا تو وہ پھر واپس گرمیوں کو لانے کے لیے کوششیں شروع کر دیتے اور ایک وقت آتا کہ سردیوں کو بادل ناخواستہ واپس جانا پڑتا۔

سردیاں چلی تو جاتیں لیکن ان کی پوری کوشش ہوتی کہ ان کے جانے کے بعد گرمی بھی ایسی ہی آئے جو کہ موسم کو زیادہ گرم نہ کرسکے اور یہ تاک میں بیٹھی رہتیں کہ کب موقع ملے اور یہ بہانہ بنا کر واپس آجائیں۔ حالانکہ سردیاں اپنی طرف سے بہت کوشش کرتیں کہ وہ کسی طرح موسم کی گرم بازاری کو برقرار رکھ سکیں لیکن ایسا نہ ہو تا۔ پھر یہ ہوا کہ لوگوں پر دھیرے دھیرے سردیوں کے اسرار کھلنے لگے اور ان کو لگا یہ گرم موسم ان کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا سردیاں پہنچا جاتی ہیں۔ جب سردیوں کو زیادہ دن ہونے لگتے تو لوگ سردیوں کو ڈرانے کے لیے مکرانی لہجے میں کہتے ”جاڑے“ شاید یہیں سے سردیوں کے لیے جاڑے کا لفظ بولا جانے لگا اور وجاہت حسین وجاہت کو کہنا پڑا کہ

کیا کہوں تم سے بات جاڑے کی
لمبی ہوتی ہے رات جاڑے کی

جب سردیوں نے یہ دیکھا کہ لوگو ان سے متنفر ہو رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کیوں نہ ہم گرمیوں کے پیچھے ہی رہیں اس طرح لوگ بھی خوش رہیں گے اور ہم گرمیوں کی آڑ لے کر وطن کے موسم کو سرد بھی کرتے رہیں گے۔ بہت دن تک تو سردیوں کی یہ چال چلتی رہی لیکن پھر یہ ہوا کہ لوگوں نے محسوس کیا کہ ملک میں موسم تو گرم ہے پھر کسی کو نزلہ تو کسی کو زکام کسی کو کھانسی تو کسی کو لرزہ چڑھ جاتا یہ چکر کیا ہے۔ لوگوں کو کچھ کچھ سمجھ آنے شروع ہو گئی تھی اور سب سے بڑی مصیبت ان سردیوں پر سوشل میڈیا کے ذریعے آئی ادھر موسم میں ہلکا سا تغیر دیکھا ادر ادھر سوشل میڈیا نے چلانا شروع کر دیا

گرم کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی ”سردی“ ہے اس پر دۂ زنگاری میں

معاملہ خالی گرمیوں کا ہوتا تو شاید سردیاں اس کو کنٹرول بھی کر لیتیں لیکن سردیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اس سوشل میڈیا کو کیسے ٹھنڈا کریں۔ کچھ لوگ جو سوشل میڈیا پر زیادہ ہی بولتے ان کو کبھی کبھی ٹھنڈی ہوائیں اڑا کر لے جاتیں کچھ کو ذرا اوپر اڑا کر زمین پر پٹخ دیتیں اور کچھ کو زیادہ ہی اونچا اڑا لے جاتیں کہ بے چارے واپس زمین پر واپس ہی نہیں آتے۔ کچھ کو یہ سردیاں کسی ایسی سرد جگہ پہ رکھ دیتی کہ جہاں ان کا سب کچھ ٹھنڈا ہوجاتا اور یہ کسی کام کے نہ رہتے۔

کچھ لوگوں پر یہ سردیاں اتنے بڑے بڑے اولے برساتیں کہ بے چارے گنجے ہو جاتے اور باقی تمام عمر لوگوں کو بتاتے رہتے کہ بھائی ہمارے گنجے ہونے پر اولے نہیں پڑے بلکہ ہم اولے پڑنے سے گنجے ہوئے ہیں۔ لیکن کوئی ان کا یقین ہی نہ کرتا۔ یہ گرمیوں اور سردیوں کا کھیل شاید اسی طرح چلتا رہتا اور عوام ان دونوں موسموں کہ بیچ پستے رہتے لیکن پھر خدا کو اس بے موسمی ملک پر رحم آیا اور سردیاں گرمیوں کے بہانے ایک ذرا گرم مزاج کے شخص کو لے آئیں۔

انہوں نے سوچا کہ یہ گرم مزاج شخص صرف سامنے سامنے سے گرمی دکھائے گا اور اپنا گرم رخ ہماری طرف نہ کرے گا۔ شاید یہ ہی ہوتا لیکن اس گرم مزاج کو لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ان سردیوں کے چکر میں خود ہی ٹھنڈا ہو جاؤں تو اس نے سوچا کہ ان سردیوں میں جو مہینہ زیادہ سرد ہو اس کے دن کم کروں اور اسے ایکسٹینشن نہ دوں، جو مہینہ کم سرد ہو اس کے دن بڑھا کر اس کو ایکسٹینشن دے دوں۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ کوئی سرد مہینوں کے دن کم یا زیادہ کرے اور وہ بھی کو بلڈی گرم مزاج شخص نا نا!

ایسا کیسے ہو سکتا ہے اس پر تو سرد مہینے کا بھی خون کھول اٹھا اور وہ اس گرم مزاج شخص پر بھی سرد ہوا چلانے کے لیے اس کے لان میں ہیلی کاپٹر لے کر آ گیا۔ اس تیز ہوا نے اس گرم مزاج شخص کو تھوڑی دیر کے لیے دوسرے گرم مزاجوں سے بدل دیا لیکن اس کے بعد آنے والے گرم مزاجیے بھی اتنے گرم ثابت نہ ہو سکے کیونکہ ان کے پیچھے بھی تو سرد مہینہ ہی تھا نا۔ ہمارے اس بدقسمت ملک میں یہ سردیوں اور گرمیوں کی لڑائی کچھ ایسی ہوئی کہ بہار کا موسم جو پہلے کبھی کبھار تھوڑے دنوں کے لیے آ جاتا تھا بالکل ہی غائب ہو گیا۔ خزاں اس انتظار میں ہے کہ یہ لڑائی ذرا اور بڑھے تو وہ اس ملک کو پوری طرح لپیٹ میں لے لے۔ میرے منہ میں خاک کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں ہمیشہ کے لیے خزاں چھا جائے اور پھر نہ گرمی رہے نہ سردی۔ بہار تو پہلے ہی روٹھ چکی ہے۔

کسی بھی سرزمین کی خوش حالی اور خوبصورتی کے لیے چاروں موسم ضروری ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ زندگی کسی ایک موسم کے سہارے گزاری جائے۔ ہر موسم اپنی اپنی حدود میں رہ کر ہی زمین کو بارآور کر سکتا ہے اور نہ ہی موسموں سے زندگی کے رنگ برقرار رہ سکتے ہیں ورنہ تو زمین کے چہرے پر ہمیشہ کے لیے خزاں کی زردی چھا جائے گی۔

جنید اختر
Latest posts by جنید اختر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments