پنجاب میں ہار جیت اور عمرانیات


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

کہتے ہیں انتخابی عمل کیسا بھی ناقص ہو جاری رہنا چاہیے۔ یہ مشق دوہراتے رہنے کے نتیجے میں ووٹر اور امیدوار کو تازہ سمجھ ، پرکھ ، موقع اور اپنے ہی گزشتہ فیصلوں کے معیار اور خامیوں کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ عمل جاری رہے تو لڑکھڑاتا گرتا پڑتا چلنا سیکھ ہی جاتا ہے۔ درمیان میں ہی رک جائے یا روک دیا جائے تو جوہڑ بن جاتا ہے۔ اور پھر صفر سے سفر شروع کرنا پڑتا ہے۔

سیاسی و جمہوری عمل بہتا رہے تو صرف ووٹر ، امیدوار ، سیاسی جماعت یا اس کی قیادت ہی مستفید نہیں ہوتی بلکہ ان اداروں کو بھی قدرے اور ذہنی بالیدہ ہونے کا موقع ملتا ہے جو روزمرہ سیاسی و جمہوری عمل کا براہِ راست آئینی حصہ نہ ہونے کے باوجود اپنے حجم اور طاقت کے بل پر کھیل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سیاسی عمل جاری و ساری رہے تو یہ پھر ایک خودکار میکانزم بنا کر نہ صرف پرانی خامیاں و بری عادات درست کرنے کی اپنی صلاحیت بڑھاتا ہے بلکہ نئی خامیوں اور چیلنجوں کا بھی گزشتہ ناکامیوں کی روشنی میں پہلے سے بہتر طریقے سے سامنا کر سکتا ہے۔ تسلسل کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ کوئی سیاست میں کتنا ہی نووارد یا جذباتی ہو البتہ اسے لمبی اننگ کھیلنے کا شوق ہو تو بالآخر اسے بھی کسی نہ کسی مرحلے پر تحمل ، بردباری ، لچک اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی کھلاڑی یہ قواعد جلد سمجھ جاتا ہے تو کوئی دیر سے۔ بالآخر سیکھنا سب ہی کو پڑتا ہے اگر سسٹم کو چلانا اور آگے بڑھانا مقصود ہو۔

اس بقلم خود بھاشن کی روشنی میں اگر پنجاب کے ضمنی انتخابی نتائج کو دیکھا جائے تو کئی قیمتی تجربات ہاتھ لگے ہیں جو سیاسی عمل مسلسل رہنے کی صورت میں اور سیقل ہو سکتے ہیں۔

اگر موجودہ پاکستانی سیاست کے مرکزی کرداروں میں نسبتاً نئے کردار عمران خان کی حکمتِ عملی کو دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی پنجاب مہم تین نکات کی بنیاد پر چلائی۔بیرونی مداخلت ، معاشی بحران اور مرضِ لوٹائیت۔

اگرچہ دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کی حکومت لوٹوں یا لوٹا گیر جماعتوں کی مدد سے ہی بنی یا بنوائی گئی اور اس کا انھوں نے اقتدار سے ہٹنے کے بعد بارہا کھل کے طرح طرح سے اعتراف بھی کیا۔مگر اس تلخ تجربے سے وہ آئندہ کے لیے واقعی کچھ نیا سیکھ کر بیک ڈور اور بیک روم سیاست پر حقیقتاً نفرین بھیج چکے ہیں تو یہ ان کے ہمدردوں اور جمہوری عمل کے لیے اچھی خبر ہے۔

اگر عمران خان واقعی پاکستانی سیاست کو اتھل پتھل سے نکالنے کے لیے پرعزم ہیں اور اپنے نئے پاکستان کو سیاسی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں اس سوچ کی کڑوی گولی بھی نگلنا پڑے گی کہ سیاسی مخالفین جانی دشمن اور غدار نہیں ہوتے ، وہ آپ کے لیے انتہائی ناپسندیدہ ہو سکتے ہیں۔آپ بھلے انھیں نجی حیثیت میں کبھی چائے پر بھی مدعو نہ کریں لیکن جب آپ ایک سیاسی جماعت کے قائد یا پھر کسی آئینی عہدے پر متمکن ہوتے ہیں تو ذاتی پسند ناپسند یا نفرت کو سیاسی گفتگو ، مذاکراتی عمل ، کردار سازی اور قومی اہمیت کے کسی اہم نکتے پر اتفاق کی اشد ضرورت پر ہرگز اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ اس عادت کے نتیجے میں دوسری جانب سے بھی کسی خیر کی توقع عبث ہے اور حتمی نقصان سیاسی و جمہوری عمل اور ملکی ترقی کے مستقبل کو ہی پہنچتا ہے۔

اگر آپ اب عوامی طاقت پر بھروسے کے پہلے سے زیادہ عادی ہو گئے ہیں تو عوام بھلے آپ کے امیدواروں کو منتخب کریں یا آپ کے ناپسندیدہ امیدواروں کو چنیں۔دونوں صورتوں میں عوامی فیصلے کا مجموعی احترام لازم ہے۔عوامی فیصلے کو بھی ذاتی پسند ناپسند کے خانے میں بانٹنا سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے بجائے گول گول گھماتا رہے گا۔

اس تجزیے کے لیے ابھی کچھ دن چاہئیں کہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کو کامیابی عمران خان کے بیرونی مداخلت کے بیانئے کے سبب حاصل ہوئی یا مہنگائی اور لوٹا ازم نے ووٹر کو پولنگ بوتھ تک پہنچنے پر مجبور کیا۔ اس کامیابی کے بعد بھی اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ نیوٹرلز ، ایکس ، وائی ، زیڈ نیز جانبدار الیکشن کمیشن اور ریاستی مشینری کے بے پناہ دباو کے باوجود محض ووٹ کی طاقت پر جیتے ہیں تو انھیں اپنے اس موقف کو دوبارہ دیکھنا چاہیے۔

پاکستان کی اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی آئی پر آ جائے تو کم ازکم ضمنی انتخابات کی یہی روایت رہی ہے کہ وہی لوگ جیتتے ہیں جنھیں اسٹیبلشمنٹ جتانا چاہے۔ لہٰذا موجودہ نتائج کی روشنی میں تحریکِ انصاف کو کھلے دل سے یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ یہ انتخاب گزشتہ ضمنی انتخابات کے موازنے میں زیادہ شفاف اور منظم تھا۔اور آیندہ اس میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔

اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ عوامی طاقت کے بل بوتے پر بیس میں سے پندرہ نشستیں جیتے ہیں تو باقی پانچ نشستوں کے بارے میں بھی آپ کو یہی سوچنا چاہیے کہ وہ امیدوار بھی ان حلقوں میں ووٹروں کی طاقت کے بل پر ہی جیتے ہوں گے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بے پناہ دباو اور جانبداری کے باوجود پندرہ نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو پھر اسی منطق کا اطلاق بقیہ پانچ حلقوں پر بھی ہونا چاہیے جو آپ ہی کے سابق حلقے ہیں۔

اب یہ امکان پہلے سے زیادہ ہے کہ عام انتخابات جلد سے جلد کرانے پر تمام سیاسی کھلاڑیوں کا اتفاق ہو جائے تاکہ معلق معیشت کو زمین پر اتارنے کے لیے ضروری سیاسی و انتظامی یکسوئی حاصل ہو سکے۔ یہ اعتراف خود تحریکِ انصاف کے حلقے بھی کرنے لگے ہیں کہ اس معاشی چیلنج سے اکیلے نپٹنا کسی بھی حکومت کے لیے بذاتِ خود سنگین آزمائش ہے۔

لہٰذا عمران خان تازہ کامیابی کے بعد اگر اگلے عام انتخابات کی مہم میں اس نیت سے جائیں کہ وہ جیتنے کی صورت میں پہلے سارے چوروں کو الٹا لٹکائیں گے پھر کوئی اور کام کریں گے تو یہ تجربہ اگر بقول عمران خان پچھلے ساڑھے تین برس میں کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہ لا سکا تو آگے کیا ہو جائے گا۔اور کون سی جماعت ہے جس میں سب دودھ کے دھلے ہیں۔ لہٰذا دوسری دفعہ اگر موقع ملتا ہے تو اسے پہلے موقع کی طرح ضایع کرنا ایک اور المیہ ہو گا۔

پچھلے تین ماہ میں شاید خان صاحب کو احساس ہوا ہو کہ میڈیا یا اعلیٰ عدلیہ یا الیکشن کمیشن اتنے برے ادارے نہیں جتنے وزارتِ عظمی کی کرسی پر بیٹھ کے نظر آتے ہیں۔لہٰذا ان اداروں کے ساتھ بلا ضرورت سینگ پھنسانا یا آئین کو دعوتِ مبازرت دینا دراصل مزید قیمتی قومی وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے۔

تحریکِ انصاف کو موجودہ کامیابی انھی نشستوں پر ہوئی ہے جو پہلے بھی اسی کے پاس تھیں۔اپنی ہی نشستوں پر کامیابی کو پیمانہ بنا کر اگر عام انتخابات میں اترا گیا اور نتائج حسب ِ منشا نہ آئے تو کیا دوبارہ یہ نعرہ لگے گا کہ سارا عمل ہی فراڈ ہے لہٰذا چلو چلو اسلام آباد چلو۔یا پھر عام انتخابات کے نتائج کو ضمنی انتخابی فتح کی عینک اتار کے دیکھنے کی ضرورت و بلوغت کو اہمیت دی جائے گی۔یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ اسی پر آگے کے سیاسی و اقتصادی استحکام کا دار و مدار ہے۔

جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کو اس کے طے شدہ دائرے تک محدود رکھنے کی تمنا ہے تو کہنا جتنا آسان ہے ہونا اتنا ہی مشکل۔اسٹیبلشمنٹ اور غیر سیاسی اداروں کو آکسیجن اگر ریاستی آئین کے مہربند سلنڈر کے بجائے سیاسی جماعتوں اور سیاست بازوں سے ملتی رہی تو نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلے گا۔

اگر سیاستداں واقعی سیاسی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں تو پھر سلیکٹڈ اور امپورٹڈ جیسی لفظیات دفنا کے ملک کی کم از کم تین بڑی جماعتوں کو ایک سہہ فریقی عہدنامے پر متفق ہونا پڑے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کا رسوخ سکیڑنا ہے تو باہم دل بڑا کرنا پڑے گا۔دل پہلے جیسا سکڑا رہا تو اسٹیبلشمنٹ اور پھلے گی اور اس کام کے لیے اسے تابع داروں اور موقع پرستوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔

یا اپنی اپنی ناک سے آگے دیکھنا سیکھ لیں یا پھر جمہوری پاکستان کا مستقبل حال میں ہی دیکھ لیں۔ ناک اور نیک مستقبل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments