لوگ دفتر میں یا کام کی جگہ پر پورن کیوں دیکھتے ہیں؟


پورنوگرافی

بہت سے ملازمین کام کے دوران وقفہ لے کر سوشل میڈیا استعمال کرنے، شاپنگ سائٹس دیکھنے اور یہاں تک کہ کسی نئی ڈیٹنگ ایپ کو استعمال کرنے کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں۔ لیکن فحش مواد دیکھنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

یقینی طور پر ایسا کرنے کو باعث شرم سمجھا جاتا ہے مگر ماہرین نفسیات سمیت بالغوں کے مواد کے پلیٹ فارمز اور سائبر سکیورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ اب کام کے دوران فحش مواد دیکھنا زیادہ عام ہو گیا ہے کیونکہ آن لائن پورن مواد تک رسائی آسان ہو چکی ہے۔

دن کے اوقات میں اور کام کے دوران فحش مواد دیکھنے اور اس کے پھیلاؤ کے بارے میں بہت کم تحقیق دستیاب ہے، لیکن گذشتہ کئی برسوں کے دوران کیے گئے سروے بتاتے ہیں کہ کام کے دوران پورن دیکھنا کچھ اتنا غیر معمولی نہیں کہ جو کچھ ملازمین کو حیرت میں مبتلا کر سکے۔

ایک ڈیجیٹل لائف سٹائل میگزین ’شوگرکوکی‘ کے لیے کیے گئے ایک عالمی سروے میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ 60 فیصد سے زیادہ لوگوں، جن سے سوال کیے گئے تھے، نے بتایا کہ انھوں نے دفتر میں کام کے دوران پورن دیکھی ہے۔

اسی طرح سنہ 2020 میں سکیورٹی کے ادارے ’کیسپرسکائی‘ کے ایک سروے کے مطابق گھر سے کام کرنے والے آدھے سے زیادہ ملازمین نے اعتراف کیا کہ وہ ایسے کمپیوٹرز یا موبائل فونز پر بالغوں سے متعلقہ مواد دیکھنے سے نہیں ہچکچاتے جو دراصل انھیں دفتری کام کرنے کی غرض سے دیے گئے تھے۔

دنیا کی سب سے بڑی پورن سائٹ ’پورن ہب‘ کے لیے گذشتہ سال کی گئی ایک عالمی تحقیق اس خیال کی تائید کرتی ہے کہ لوگ کام کے اوقات کے دوران فحش مواد دیکھ رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ رات 10 بجے سے ایک بجے تک کا وقت فحش مواد دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے مگر دوسرا مقبول ترین ٹائم شام چار بجے ہے یعنی وہ وقت جب آفس کا ٹائم ختم ہو رہا ہوتا ہے۔

اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دن کے وقت پورن دیکھنے کا تعلق دفتر سے دور یعنی گھروں سے کام کرنے کے رجحان کی وجہ سے ہو سکتا ہے جو کورونا کی عالمی وبا کے دوران مقبول رجحان تھا۔ تاہم پورن ہب کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے قبل بھی دفتری اوقات خاص کر سہہ پہر کے اوقات میں پورن دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

کام کے اوقات کے دوران بعض اوقات لوگ فحش مواد دیکھتے ہوئے پکڑے بھی جاتے ہیں اور اس نوعیت کی میڈیا رپورٹس نشر ہونے سے اس عمل کے پھیلاؤ کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی ہے۔

ان میں برطانوی رکن پارلیمان نیل پیرش بھی ہیں جو پارلیمنٹ میں اپنے فون پر پورن دیکھتے ہوئے پکڑے گئے اور بعدازاں رواں برس اپریل میں انھیں اس معاملے پر مستعفی ہونا پڑا۔ سویڈن کے ایک جیل گارڈ کو کام کے دوران فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے اپنی تنخواہ سے محروم ہونا پڑا جبکہ ایک آسٹریلوی ایئرلائن انجینیئر کو کمپنی کی جانب سے ملنے والی ٹیبلٹ پر پورن سائٹس دیکھنے کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔

آپ کے لیے یہ سوچ کر حیران ہونا درست ہے کہ سزا کے خطرے کے باوجود لوگ آخر کام کی جگہ پر یا کمپنی کی جانب سے دیے گئے ڈیوائسز پر پورن کیوں دیکھتے ہیں؟ اس کے علاوہ، ماہرین اور کمپنی مالکان کا بھی یہی سوال ہے کہ اس کا ملازمین اور کاروبار پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔

ملازمین کے پورن دیکھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

Triple X sign

نفسیات کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ فحش مواد دیکھنے کی سب سے عام وجوہات یہ ہیں کہ لوگ بور ہو رہے ہوتے ہیں یا اپنے آپ کو دیگر پریشان کُن خیالات سے آزاد کرنے کے لیے وہ پورن دیکھنے کا سہارا لیتے ہیں۔ بالغوں کے مواد کو اس وجہ سے بھی دیکھا جاتا ہے تاکہ نئے نئے تجربات کا لطف لیا جائے، وہ تجربات جو کسی عام آدمی (یا دیکھنے والے کو) اپنی سیکس لائف میں دستیاب نہیں ہوتے۔ تجسس اور خود کی تلاش اور یقیناً ذاتی جنسی لذت کے حصول کے لیے بھی۔

برطانیہ کی برمنگھم سٹی یونیورسٹی میں پیشہ ورانہ صحت کی نفسیات کے پروفیسر کریگ جیکسن کے مطابق تقریباً یہ تمام عوامل ہی کام کی جگہ پر فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے والے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن کریگ جیکسن کا کہنا ہے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ زیادہ تر لوگ جو بالغ مواد کو دفاتر میں دیکھتے ہیں وہ اسے اس طرح استعمال نہیں کرتے جس طرح وہ گھر میں کر سکتے ہیں۔

ان کے مطابق ’میرے خیال میں ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اگر کوئی کام پر فحش مواد تک رسائی حاصل کر رہا ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح خفیہ طور پر اپنی میز کے نیچے مشت زنی کر رہا ہے یا مشت زنی کی غرض سے بیت الخلا کی طرف جا رہا ہے۔ مگر ایسا نہیں کیونکہ آفس میں یہ سب زیادہ تر توجہ ہٹانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ خاص طور پر ’ناراض ملازمین فحش مواد کو ذہنی تناؤ سے نجات حاصل کرنے یا چیلنجز سے نمٹنے کے ایک طریقہ کار‘ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

مختلف اداروں میں بہت سے ملازمین اپنے آپ کو بے وقعت محسوس کرتے ہیں۔ اچھی قیادت یا افسران کی عدم موجودگی میں، انھیں لگتا ہے کہ انھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور انھیں کام نہیں دیا جا رہا ہے اور نہ انھیں صیحح معنوں میں آزمایا جا رہا ہے اور نہ ترقی دی جاتی ہے۔ اور (فحش مواد) اس سوچ سے نمٹنے کا ایک طریقہ بن جاتا ہے۔

کچھ ملازمین کے لیے، کام پر فحش مواد دیکھنے کا انتخاب ایک غیر تسلی بخش کمپنی یا ادارے کے مالک کے خلاف فتح یا بغاوت کے جذبات کی بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے۔

کریگ جیکسن کا کہنا ہے کہ پرانے وقتوں میں کسی کمپنی کے ناخوش عملے کے اراکین گھڑ دوڑ میں جیت کی پیشن گوئیوں پر مشتمل اخبارات کے تراشے پڑھنے میں کافی وقت صرف کر دیتے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’فحش مواد دیکھنا، اس کا ایک ڈیجیٹل ورژن ہے کیونکہ نہ صرف آپ کام کے اوقات میں ڈنڈی مار رہے ہوتے ہیں بلکہ آپ آن لائن کچھ کر رہے ہیں، جسے دیکھنا باعث شرم سمجھا جاتا ہے اور یہ آپ کو معلوم ہے کہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

لوگ عوامی مقامات پر پورن کیوں دیکھتے ہیں؟

’عرب دنیا میں بڑھتی ہوئی طلاقوں کی وجہ پورن ہے‘

‘ہمارے والدین خفیہ طور پر پورن کی سلطنت چلارہے تھے’

’کم عمری میں پورن دیکھنے سے ذہن تباہ ہو گیا، ڈراؤنے خواب آنے لگے‘

برطانیہ میں کونسل برائے سائیکو تھراپی کی ترجمان پاؤلا ہال کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اپنی ملازمت سے مطمئن اور اچھی کارکردگی دکھانے والے افراد بھی فحش مواد تک رسائی کو اپنے لیے ’ریوارڈ سسٹم‘ (یعنی بطور انعام) کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

’جیسا کہ کسی ملازم نے اپنی سیل کا ہدف پورا کیا ہے، کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے یا آن لائن اپنا کوئی کام مکمل کیا ہے۔۔۔ اس کے بعد اپنے لیے بطور انعام وہ پورن دیکھتا ہے۔‘

پورنو گرافی

’بطور ٹریٹ ہمارے پاس ایک کپ کافی اور ایک کیک ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر کسی دوسرے شخص کے پاس اپنے آپ کو انعام دینے کے لیے فحش مواد ہو سکتا ہے۔‘

کریگ جیکسن کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بہت سی کمپنیوں کی جانب سے آئی ٹی سکیورٹی میں اضافہ کرنے کے باوجود، دفاتر میں فحش مواد دیکھنے کی روش پروان چڑھ سکتی ہیں کیونکہ کمپیوٹر اور سرورز پورن دیکھنے والوں کی نشاندہی میں اتنے مؤثر نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق ’بہت سے ملازمین یہ جان چکے ہیں کہ بالغوں کے مواد کی نگرانی اور بلاک کرنے کے لیے ان کی کمپنی کا آئی ٹی سسٹم بالکل بھی معیاری نہیں ہے۔‘

’نفسیات میں بہت سی چیزوں کی طرح، اگر آپ یہ کرتے ہیں اور ایسا کرنے سے آپ کو اچھا احساس بھی ہوتا ہے اور آپ سے اس عمل پر کوئی بازپرس بھی نہیں ہوتی تو تو آپ ایسا بار بار کریں گے۔‘

گھروں سے کام کرنے کے اثرات

بلاشبہ اگر آپ آفس کے بجائے گھر سے کام کر رہے ہیں تو بالغ مواد تک رسائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ کیونکہ گھر میں آپ اس خطرے سے آزاد ہو جاتے ہیں کہ آپ کا کوئی ساتھی یا کولیگ آپ کو پورن سائٹس ’براؤز‘ کرتے ہوئے دیکھ لے گا۔ اور آپ اپنا نجی وائی فائی استعمال کرتے ہوئے باآسانی آفس کی ڈیوائش (کمپیوٹر) پر ایسے مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، فحش ویب سائٹوں پر عالمی طور پر ایسے صارفین کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہوا جب بہت سے ملازمین کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے آغاز کے دوران گھر پر کام کرنے لگے۔ تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ جزوی طور پر سماجی تنہائی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطح کے تناؤ اور بوریت کی وجہ سے بھی تھا۔

آج جبکہ گھر سے کام کے دوران فحش مواد کے استعمال کے بارے میں کوئی نیا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، پاؤلا ہال کا خیال ہے کہ کام اور تفریح ​​کے درمیان جاری دھندلی حدود کی بدولت، باقاعدگی سے کام کے اوقات کے دوران گھر میں فحش مواد دیکھنے کی صلاحیت نے کچھ لوگوں کی فحش مواد دیکھنے کی عادات کو متاثر کیا ہے۔

پاؤلا ہال کے مطابق رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایسے صارفین کی تعداد بڑھی ہے جنھیں وبائی مرض کے بعد سے گھر سے کام کرتے ہوئے فحش مواد دیکھنے کی لت لگی۔

ان کے مطابق یہ میرے کلائنٹ گروپ میں بہت عام ہے۔۔۔ لوگ فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے اپنا کام وقت پر مکمل کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، یا یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کے لیے اوور ٹائم کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے دن کا بیشر حصہ آن لائن سیکس چیٹ رومز میں گزارا ہے۔‘

وینڈی ایل پیٹرک، سان ڈیاگو میں مقیم کریئر ٹرائل اٹارنی ہیں جو کام کی جگہ پر ہونے والے جرائم اور تشدد کے بارے میں لکھتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’بند دروازوں کے پیچھے فحش مواد دیکھنا بہت آسان ہے، اور دفتر کے مقابلے گھر میں ایسا کرنا بہت آسان ہے۔‘ ان کے مطابق ’دفتر سے دور یعنی گھر سے کام کرنے کے کلچر نے ملازمین کے لیے زیادہ وقت، جگہ اور کوئی احتساب کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے فحش مواد دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔‘

لیکن بہت سارے دوسرے لوگوں کو یہ یقین نہیں ہے کہ وبائی مرض نے لوگوں کی دن کے وقت کی ’براؤزنگ‘ کی عادت کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ کریگ جیکسن نے تحقیق کی طرف اشارہ کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے دور دراز اور ہائبرڈ ورکرز‘ اب اس صورتحال میں اب زیادہ ایسی سرگرمیوں میں مگن ہو گئے ہیں۔ اب وہ کم بریک لیتے ہیں، جتنے وقفے کے وہ دفاتر میں کام کے دوران لیتے تھے۔

ان کے مطابق ’مجھے نہیں لگتا کہ گھر سے کام کرنے نے اچانک ہم سب کو موقع پرست فحش تاجروں کے ایک گروپ میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ ہم کام میں بہت مصروف ہیں۔ یقیناً ایک فرق یہ ہے کہ میں گھر پر اپنے انٹرنیٹ پر جو کچھ کرتا ہوں میرے آجر کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘

زہریلے اثرات

موبائل

کریگ جیکسن کا کہنا ہے کہ بہت سے ملازمین ممکنہ طور پر ابھی بھی یہ جان سکیں گے کہ کام کے دوران اور کمپنی کی ڈیوائسز پر فحش مواد دیکھنا سنگین غلطی ہے۔ بہت سی مثالیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگوں کو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر انھیں خاموشی سے استعفیٰ دینے کے بارے میں کہا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ایسے ملازمین جو ایسا کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں ان کے لیے بہتر حل یہی ہے کہ اگر وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کی کمپنی کا مالک بہت ہمدرد ہے، اور انھیں اپنی ملازمت کو برقرار رکھنے کی شرط کے طور پر مشاورت یا تھراپی کی پیشکش کی جائے۔

وینڈی ایل پیٹرک کا استدلال ہے کہ دفتری اوقات کے دوران ملازمین کا فحش مواد کا استعمال کمپنیوں پر بھی بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کر سکتا ہے اور ایک زہریلا یا خطرناک کلچر پروان چڑھ سکتا ہے۔ ان کے مطابق فحش مواد دیکھنے میں اکثر غیر انسانی جنسی سکرپٹ شامل ہوتے ہیں۔ بار بار نمائش کے ذریعے کام کی جگہ پر تعلقات کی صلاحیت اور لطف کو کم کر سکتا ہے اور بعض دفعہ یہ غیرحساس اور نامناسب بات چیت کا ذریعہ بنتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ بدترین صورتوں میں یہ جنسی ہراسانی کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ کریگ جیکسن کا کہنا ہے کہ ایمپلائمنٹ ٹربیونلز میں ان کی تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ایسے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے، جن میں خواتین کے کام کی جگہ کے تجربات فحش مواد کے بارے میں مردوں کے رویوں، فحش مواد شیئر کرنے یا غلطی سے فحش مواد سامنے آنے سے متعلق ہیں۔‘

مزید پڑھیے

میا خلیفہ: ’پورن میں کوئی پیسے نہیں‘

کیا فحش فلمیں صحت کے لیے مضر ہیں

پاکستان میں ’ریوینج پورن‘ کے بڑھتے کیسز: ’تصاویر دوبارہ انٹرنیٹ پر آنے کا ڈر اب زندگی بھر رہے گا‘

کچھ لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ پیداوار اور منافع ملازمین کی فحش مواد دیکھنے کی عادات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ نفسیاتی تحقیق کا ایک ادارہ پہلے سے ہی موجود ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کام پر غیر اخلاقی رویے میں مشغول ہونا ایک پھِسلن والی ڈھلوان ہو سکتی ہے، جو تیزی سے خطرناک عادات کا باعث بنتی ہے۔

کریگ جیکسن نے جرنل آف بزنس ایتھکس میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مقالے کی طرف بھی اشارہ کیا، جو یوٹاہ میں چرچ سے منسلک تعلیمی مرکز بریگم ینگ یونیورسٹی کے محققین کے ذریعہ شائع ہوا ہے۔

ایک برداشت والا مستقبل؟

کام کے اوقات کے دوران فحش مواد دیکھنا شاذ و نادر ہی کسی خطرے سے خالی نظر آتا ہے۔ پاؤلا ہال کا کہنا ہے کہ اس رجحان کو زیادہ باریک بینی سے قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ کام پر فحش مواد دیکھنے والوں کو محض برا بھلا کہنے کے بجائے اس کے اثرات سے متعلق زیادہ کھلے پن کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اُن کے مطابق جس طرح کام کے اوقات میں شراب نوشی کے مضر اثرات سے متعلق آگاہی پیدا کی گئی بالکل اسی طرح اس معاملے میں بھی ایسی ہی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

آج کل کے دور میں بھی کچھ ملازمین دوپہر کے کھانے کے وقت کبھی کبھار شراب کا گلاس پینے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ اکثر ایسا کرنے سے کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے اور یہ کہ اگر وہ میزوں کے نیچے بوتلیں چھپا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات بہت آگے جا چکے ہیں۔

پاؤلا ہال کہتی ہیں کہ فحش مواد کے ساتھ یہ لوگوں کو خطرات سے آگاہ کرنے کے بارے میں بھی ہے تاکہ لوگ سمجھداری سے انتخاب کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کو یہ پہچاننے میں مدد ملنی چاہیے کہ آیا ان کا فحش مواد استعمال اس قسم کے انحصار میں بدل رہا ہے جو دفتری کام میں ڈیڈ لائن یا تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔

دریں اثنا کریگ جیکسن کا کہنا ہے کہ ایسے کاروباروں کے مینیجرز جہاں فحش مواد دیکھنے کا رواج پایا جاتا ہے کو مشورہ دیا جائے گا کہ وہ کمپنی کی ثقافت پر نظرثانی کریں۔ ان کے مطابق ’اگر کام کی جگہیں دوستانہ ہوتیں اور ملازمین کو ٹھیک طریقے سے کام سونپا جاتا تو ہم شاید یہ محسوس کر سکتے کہ لوگوں کو پھر ایسے فحش مواد کو دیکھنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔‘

جب گھر سے کام کرنے کی بات آتی ہے تو پاؤلا ہال کا خیال ہے کہ ہماری گھریلو اور نجی زندگیوں کے درمیان دھندلی سرحدوں کا مطلب یہ ہے کہ بالغوں کے مواد کو دیکھنے کے لیے وقت نکالنے والے ملازمین کے لیے ممکنہ طور پر برداشت بڑھ رہی ہے۔

اور جب تک یہ ذاتی ڈیوائس کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے اور عملے کی کارکردگی یا باہمی تعلقات کو متاثر نہیں کر رہا ہوتا ہے، وہ جسمانی کام کی جگہوں پر فحش دیکھنے کے مقابلے میں اسے بہت کم پریشانی کا باعث دیکھتی ہیں۔ ان کے مطابق ’کوئی اپنے گھر کی رازداری میں اپنے کافی وقفے میں کیا کرتا ہے یقیناً یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ مشترکہ کام کی جگہ پر ایسا کرنا مختلف نتائج کا حامل ہوتا ہے اور جیسا کہ حالیہ واقعات نے دکھایا ہے، کام کی جگہ پر فحش مواد دیکھنا اب بھی بہت زیادہ باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments