سلامتی کا راستہ


ٹورانٹو ائر پورٹ سے سیدھے ہم میریٹ ہوٹل پہنچے۔ وہاں چیک ان کرنے والوں کی قطار دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ اس ویک اینڈ پر دراصل ایک تہائی کینیڈا کا نہ صرف انٹرنیٹ ڈاؤن تھا بلکہ ہوٹل کا اپنا نیٹ ورک بھی بند پڑا تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کون سے کمرے خالی ہیں۔ ادھر ہم بیس گھنٹے کے سفر کے بعد پہنچے تھے۔ میری بیگم کے گھٹنے میں ذرا درد ہو رہا تھا تو احتیاطاً اپنے ساتھ کرچ (بیساکھی) لے گئی تھی۔ ہم بہت مایوس ہو گئے تھے۔ لگتا تھا کہ رات لابی میں زمین پر گزارنی پڑے گی۔ اتنے میں ایک مینیجر کی نظر ہم پر پڑی، بیگم کے کرچ کو دیکھ کر دوڑا دوڑا آیا اور تمام قطار کو چھوڑ کر ہمارے لئے ایک خالی کمرہ تلاش کر ہی لیا۔ ہم تو خوب سوئے لیکن صبح ناشتے کے لئے نیچے اترے تو واقعی گزشتہ روز کے مسافر لابی میں لیٹے ہوئے تھے۔

پیغمبر ﷺ نے سلامتی کا درس دیا۔ اپنے کٹر دشمنوں کو معاف کیا۔ کمزور اور خواتین پر رحم کرنے پر زور دیا کہ ”کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو“ اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی بی بی پر ہاتھ نہیں اٹھایا حالانکہ کئی بار سوکنوں کے جھگڑے نے آپ ﷺ کی طبیعت مکدر کی۔ قرآن میں یہ سارے تذکرے موجود ہیں۔ جانوروں پر رحم کیا۔ حتیٰ کہ کسی جانور کے ذبح کے وقت اس کے سامنے چھری تیز کرنے یا دوسرے جانوروں کے سامنے چھری چلانے سے منع کیا۔ اب جبکہ مہذب ممالک میں جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں ہیں ہم ہر آتے جاتے کتے بلی کو بلاوجہ پتھر مارتے ہیں۔ سارے پرندے سوائے کووں اور چیل کے، ہم ہڑپ کر گئے۔

اس سلامتی کے راستے کو ہم نے کیسا پراگندہ کیا۔ سعودی عرب میں ابھی تک موت کی سزا سرعام سر تلوار سے اڑانے کی ہے۔ جب آپ ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہیں کرتے تو ایک انسان کا خون کیا اتنا پتلا ہے کہ سڑک پر بہے اور تماشائی داد دیں؟ اسی سے متاثر ہو کر ہمارے طالبان نے اپنے ہی بے گناہ مسلمانوں کے سروں سے ”خونی چوک“ بھر دیا تھا۔ کیا وہاں سے گزرنے والے بچے اور بچیاں یہ مناظر بھول سکتے ہیں۔ ان کے دماغی ہیجان کو ہم جیسی بے حس قوم سمجھ ہی نہیں سکتی۔ یہی بچے بڑے ہو کر بے رحم بن جاتے ہیں کہ تشدد، خون، مارپیٹ اور گالم گلوچ ان کو نارمل لگتے ہیں۔ وہ تو سب بے رحم رویے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارتے رہے ہیں۔

تہذیب کے اسلامی پہلو دیکھنے ہوں تو مغربی ترقی یافتہ ممالک میں ملتے ہیں۔ سیلز مین سے لے ٹیکسی والا سب سے پہلے آپ کی خیریت مسکرا کر پوچھتا ہے۔ آپ کا خوشی استقبال کرتا ہے۔ جب تک آپ کی تسلی نہ ہو جائے، آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ کل میں اوبر پر ایک مہربان کے گھر گیا۔ ڈرائیور نے کہا آپ جاکر تسلی کر لیں کہ یہی گھر ہے تو مجھے اشارہ کر دیں میں تبھی رخصت ہوں گی۔

مسکراہٹ سے بات کرنا سب سے آسان صدقہ ہے۔ کبھی آپ نے کسی خطیب کے چہرے پر دیکھی ہے۔ ان کے غصے کا اندازہ کرنے کے لئے کبھی جماعت میں چھوٹے بچے کو ساتھ کے جائیں۔ بچے کی تھوڑی سی شرارت سے سارے نمازیوں کا وضو جیسے ٹوٹ جاتا ہے لیکن خطیب پر تو دورہ پڑ جاتا ہے۔ یا کسی کی شامت آئی ہو تو اس کا موبائل بجنا شروع کردے۔

اگر ہم نے مسلمان رہنا ہے تو پورے کا پورا سلامتی کا پیکر بننا پڑے گا۔ سلامتی یہ ہے پیغمبر ﷺ پر مظالم توڑے گئے، معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا، اپنے شہر میں جینا دوبھر کر دیا گیا، حتیٰ کہ ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن صبر اور سکون سے برداشت کیا اور سلامتی کا دامن نہ چھوڑا۔ جب طاقت آئی تو تمام دشمنوں کو معاف کیا۔

سلامتی کا یہ مذہب صرف انسان کی سلامتی پر ختم نہیں ہوتا۔ جانوروں سے لے کر نباتات تک، دریاؤں سے لے کر ماحولیات اور معاشرے سے لے کر قوموں تک کی سلامتی چاہتا ہے۔ جمعے کے خطبوں سے کفار اور غیر مسلموں تک کو بددعائیں دینا بند کرنا ہو گا کہ اللہ کے پیامبر نے کسی کو بددعا نہیں دی۔ ان کو بھی نہیں جو پتھر مارکر لہولہان کرتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک سے ہر کوئی ترقی یافتہ ممالک میں بسنا چاہتا ہے۔ تقریباً ڈھائی کروڑ پختون اسی سلامتی کی آس میں اپنے وطن سے دور رہ رہے ہیں کہ یہاں صدیوں تک خاندانوں کے درمیان دشمنی کی آگ نہیں بجھتی۔

آئیے اب جب السلام علیکم کہیں تو دل سے کہیں۔ خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو۔ یہی مہذب ہونے کی نشانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments