ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی شکست کے اسباب


یہ محض چند نشستوں پر مقابلہ نہیں تھا۔ ان ضمنی انتخابات میں نہ صرف پنجاب بلکہ بڑی حد تک وفاق کی حکومت بھی داؤ پر لگی تھی۔ اب یہ کہنے سے ہزیمت کم نہیں ہو سکتی کہ دو ہزار اٹھارہ میں بھی نون لیگ ان نشستوں پر کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ دو ہزار اٹھارہ کی سیاسی حرکیات اور موجودہ ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت تمام ریاستی مشنری تحریک انصاف کے ساتھ اور نون لیگ کے مخالف تھی، اب لیکن وہ حالات نہیں تھے۔

کم از کم موجودہ انتخابات کی صحت اور ان انتخابات کی حد تک ریاستی اداروں کی غیر جانبداری پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں شکست کے بعد نون لیگ کی سیاست زیادہ متاثر نہیں ہوئی مگر حالیہ شکست سے نون لیگ کی سیاست پر دیرپا اثرات ہو سکتے ہیں۔ اب لاکھ تاویلیں گھڑ لی جائیں جتنا مرضی زور اسپن ڈاکٹرائن پر لگا لیا جائے نون لیگ کی سیاست کو جو دھچکا پہنچا ہے اس کا مداوا جلد اور آسان نہیں ہو گا۔

اصل وجہ یہی ہے کہ خوف کی فضا میں کیے گئے سیاسی فیصلوں کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ آج شکست کے جو اسباب بیان کیے جا رہے ہیں کون تسلیم کرے گا کہ کہنہ مشق سیاستدان عدم اعتماد کا ایڈونچر کرنے سے قبل ان سے نا واقف تھے۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو پذیرائی اس لیے ملی تھی کیونکہ امید تھی کہ واقعتاً اب عوامی مفاد پر مبنی سیاست کریں گی۔ عدم اعتماد کے ایڈونچر کے بعد کیا اس تاثر کو دوبارہ سے تقویت نہیں ملی کہ پچھلے تین سال کی نون لیگ کی جدوجہد جمہوریت نہیں بلکہ دراصل مفادات کی خاطر تھی۔

شکست کا سارا ملبہ اب بجا طور پر لوٹوں پر ڈالا جا رہا ہے، ہم شروع دن سے کہہ رہے تھے کہ اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دینے کے صلے میں ایسے ارکان بالآخر اپنی نشست اور موجودہ پارٹی رکنیت سے محروم ہو جائیں گے۔ یقیناً لوٹوں نے حکومت کو خیرباد آئندہ انتخابات میں نون لیگ یا پیپلز پارٹی سے ٹکٹ ملنے کی یقین دہانی پر ہی کیا تھا، کیا اس وقت ان جماعتوں کی قیادت کو علم نہیں تھا کہ اندرونی طور پر اس حوالے سے ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔

اس کالم کے ذریعے یہ نا چیز بارہا یہ دہائی دیتا رہا کہ عمران حکومت کی رخصتی کے بعد جو بھی فارمولا بنا اس سے ملکی مسائل فوراً حل ہوں گے نہ ہی پلک جھپکتے عوامی مشکلات میں کمی آئے گی۔ کیونکہ جو بھی سیٹ اپ قائم ہوا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اسے ہر صورت مکمل کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی حکومت آ جائے زمینی حقیقت یہی رہے گی کہ ریاست پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کی خواہشات سے روگردانی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

نون لیگ کے چند اہم رہنماؤں تک بھی اپنے تحفظات پہنچائے کہ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں کسی بھی دوسری جماعت کی نسبت نون لیگ کے مفاد میں یہ صورتحال سب سے نقصان دہ ہوگی۔ کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچا تو لا محالہ مہنگائی کا سیلاب آئے گا جس کے بعد تحریک انصاف اپنی ناکامی عوام کے ذہنوں سے محو کر کے خود کو سیاسی شہید کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتیں اقتدار کے فوائد سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوتی رہیں گی مگر حکومتی اتحاد کی سربراہی سنبھال کر بدنامی صرف نون لیگ کے حصے میں آئی گی۔

اس عرصے کے دوران نون لیگ کے جس رہنما سے بات ہو سکی ہر کسی کے سامنے اپنے خدشات رکھے کہ لوٹوں کے سہارے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور شہباز شریف وزیراعظم بن بھی گئے تو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تباہ ہو جائے گا۔ نون لیگ سے تعلق رکھنے والے کسی سیاستدان نے ایک مفروضہ خوف کے بیان کے علاوہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا کہ صرف عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے سے عوام کے مسائل کس طرح حل ہوں گے اور کیا گارنٹی ہے کہ نئی بننے والی حکومت کو آسانی سے چلنے دیا جائے گا۔

ن لیگ اور اس وقت کی دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مگر تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کرنے کی پتہ نہیں کیا جلدی تھی؟ پچھلے ساڑھے تین سال میں معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس پس کر عوام بدحال ہو چکے تھے۔ چند ماہ مزید اسی طرح گزرتے تو جس خوشحال طبقے کے دل میں عمران خان کی محبت تھوڑی بہت برقرار تھی یقیناً وہ بھی تائب ہو جاتا۔ آئی ایم ایف تحریک انصاف کی حکومت کے سر پر ڈنڈا لیے کھڑا تھا، دوست ممالک بھی تحریک انصاف کی قیادت کی بے مروتی اور بد اخلاقی پر مبنی رویے سے خائف ہو کر پاکستان کی مزید مدد سے انکاری ہو چکے تھے۔

موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں بالخصوص نون لیگ کے ذہن پر پھر بھی نجانے کیوں یہ خوف طاری تھا کہ اگر عمران خان کی حکومت رواں سال نومبر تک کا عرصہ نکال گئی تو وہ ایک اہم عہدے پر اپنی من پسند شخصیت لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس خوف کو جواز بنا کر یہ طے کر لیا گیا تھا کہ یہ تقرری ہو گئی تو اگلے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کی جیت پکی ہوگی اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم کر کے ان کا سیاسی مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک کر دیا جائے گا۔ حالانکہ نون لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں اگر اقتدار حاصل کرنے میں اتنی بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتیں، تو دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑی معیشت میں کسی ریاستی ادارے کے لیے دوبارہ تحریک انصاف کی سرپرستی کا تصور ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔

پنجاب میں ہوئے ضمنی انتخاب کے نتائج نے ہمارے تمام خدشات درست ثابت کر دیے ہیں۔ عمران خان اپنے دور حکومت کی بدترین کارکردگی کے باوجود دوبارہ سے عوامی مقبولیت کے عروج پہ ہیں۔ لوگ مہنگائی اور بے روزگاری بھول کر ان کے سازشی پراپیگنڈے کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں۔ یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ اقتدار سے فراغت کے بعد خان صاحب کا عوام میں نکلنا مشکل ہو گا اور وہ کسی سہارے کے بغیر انتخابات میں نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔

یقیناً اس میں تحریک انصاف کے پراپیگنڈے کی صلاحیت کو داد بنتی ہے کہ بدترین پرفارمنس کے باوجود نہ صرف عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت دیدنی تھی بلکہ انتخابی معرکے میں بھی اس نے نون لیگ کو بری شکست سے دوچار کیا۔ لیکن اس شکست کی بڑی وجہ ابلاغ کے محاذ پر نون لیگ کی کمزوری کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور کی کمی اور نا خواندگی بھی ہے۔ ہم مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ عمران خان کا کرپشن مخالف بیانیہ بھی خوب بکا تھا اور ہمارے جیسے نیم خواندہ معاشرے میں امریکہ مخالف سازشی بیانیہ بھی بہت اثر انگیز ہو سکتا ہے۔

لہذا ضروری ہے کہ جلد از جلد حکومت سپریم کورٹ کے ذریعے کھلی سماعت میں امریکی سازش یا مداخلت کی تحقیقات کرائے تاکہ تحریک انصاف دوبارہ کسی مفروضے کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اچھی بات ہے کہ نون لیگ ضمنی انتخابات ہارنے کے بعد بھی تحریک انصاف کی طرح اپنی سیاست بچانے کی خاطر ملکی مفاد کو داؤ پر نہیں لگا رہی، لیکن بہرحال نون لیگ ایک سیاسی جماعت ہے اور ایک حد تک ہی وہ غیر مقبول فیصلوں کے نتائج برداشت کر پائے گی۔ اگلا انتخاب اگر جیتنا ہے تو اسے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور غیر مقبول فیصلوں کے اسباب اور وجوہات سے قوم کو آگاہ کرنا بھی نون لیگ کی ذمہ داری ہے۔ لیگی قیادت کو اب یہ ادراک ہونا چاہیے کہ عمران خان کے پراپیگنڈے کا توڑ پھسپھسی تقریروں سے نہیں صرف جارحانہ بیانیے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments