روس کی بین الاقوامی تنہائی اور پوتن کا دورہ تہران


مشرق وسطیٰ اس وقت بڑی عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کچھ دن پہلے صدر بائیڈن نے سعودی عرب اور اسرائیل کا دورہ کیا جبکہ اس ہفتے روسی صدر پوتن اور ترک صدر اردوغان تہران میں ایرانی قیادت کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔

پوتن کا دورہ اس وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے شاید وہ اپنی بین الاقوامی تنہائی کم کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ ایران سے بہتر تعلقات تو روس کے لیے اس کی بین الاقوامی تنہائی کم کرنے میں تو شاید زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوں گے مگر ایک نیٹو ملک کے سربراہ سے ان کی تہران میں ملاقات سے دورے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اردوغان سے ملاقات کے لیے شام میں جاری خانہ جنگی کی خاتمے کے لیے بات چیت کا عذر استعمال کیا گیا ہے مگر اس میں بھی روس کی تنہائی ختم کرنے کی کوشش صاف دکھائی دے رہی ہے۔

ایران کے ساتھ روابط بڑھانے میں یوکرین میں جاری جنگ کا بھی ہاتھ ہے۔ گو روس کو حال ہی میں یوکرین میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مگر ان کامیابیوں کو پائیدار بنانے میں کافی مشکلات درپیش ہیں۔ امریکہ کی طرف سے دیے جانے والے جدید اسلحے کی وجہ سے یوکرین روسی افواج کو کافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ ان نقصانات کا مقابلہ کرنے کے لیے روس کو جدید ٹیکنالوجی والے لڑاکا ڈرون طیاروں کی ضرورت ہے۔ ایران نے حال ہی میں ایسے ڈرون بنانے میں کافی مہارت حاصل کی ہے اور چونکہ اس وقت بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے روس کی ایسے ہتھیار حاصل کرنے اور بنانے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے تو اس دورے کے دوران ڈرون طیاروں کی خریداری ایک اہم موضوع گفتگو ہو گا۔

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روس کی سستا تیل فروخت کرنے کی کوششوں نے بھی ایران کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایران معاشی پابندیوں کی وجہ سے چند ممالک کو ہی تیل بیچ سکتا ہے مگر روس نے بھی پابندیوں کی وجہ سے انہی ممالک کا رخ کیا ہے اور انہیں ایران سے بھی سستا تیل بیچ رہا ہے جس کی وجہ سے ایران میں اس شدید معاشی نقصان پر کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔

پوتن اس ناراضگی کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں گے اور کسی باہمی فائدے کے معاہدے پر متفق ہوں گے جس سے روس کو بھی ایران کی مغربی پابندیوں کو جل دے کر تیل بیچنے کی مہارت سے فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ ایران نے پچھلے سال کے آخری دس مہینوں میں تقریباً اٹھائیس ارب ڈالر کا تیل اسی طریقے سے بیچا تھا۔

اگر ان اہم موضوعات پر دونوں ممالک میں اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے تو یوکرین میں جاری جنگ میں مزید شدت آ سکتی ہے اور عالمی معیشت اور امن کو اضافی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

غالب امکان ہے کہ کہ ایران روس کے ساتھ اپنے تعاون میں مزید اضافہ کرے گا۔ روس اور ایران کے درمیان اعلیٰ سطح کے مختلف وفود کی حال ہی میں کافی ملاقاتیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ایک اہم بین الاقوامی راہداری کا معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق روس، ایران کی بری اور بحری سہولیات کا استعمال کر سکے گا اور اس طرح مغربی معاشی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایران کی ناراضگی دور کرنے کے لیے روس باہمی تجارت کو موجودہ چار ارب ڈالر سے بڑھا کر چالیس ارب ڈالر تک لانے کا عندیہ دے چکا ہے جس میں ایرانی ٹیکسٹائل مصنوعات اور گاڑیوں کی برآمدات شامل ہوں گی جبکہ روس کی طرف سے اناج اور بھارت کو سامان بھیجنے کے لیے ٹرانزٹ سہولت دی جائے گی۔

پوتن کے دورے کا ایران کے لیے ایک اور اہم رخ بھی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایران مغرب اور امریکہ سے اپنے جوہری معاہدے کی بحالی کے بارے میں یکسر نا امید ہو چکا ہے اور اسے معاشی پابندیاں جلد ختم ہوتے نہیں دکھائی دے رہیں۔ صدر بائیڈن کی حکومت نے اس سلسلے میں زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا ہے اور آنے والے امریکی وسط المدتی انتخابات، جن میں مخالف رپبلکن پارٹی کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس معاہدے کی بحالی کے امکانات اور بھی کم ہو جائیں گے۔ ان حالات میں ایران پر معاشی پابندیاں ختم ہونے کے امکانات کم از کم اگلے تین سالوں تک نظر نہیں آتے۔ ایران کے علاقائی حریف سعودی عرب کے اسرائیل سے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی ایران کے لیے اس کی سلامتی کے بارے میں سنجیدہ تشویش کا باعث ہیں۔

ان بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران نے اب اپنے علاقے میں ہی موجود مغرب مخالف قوتوں سے تعلقات مضبوط کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی وجہ سے سے چین کے ساتھ پچیس سالہ دفاعی اور معاشی معاہدہ کیا گیا ہے۔ روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے ہوئے معاشی اور دفاعی تعلقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتے ہیں۔

اردوغان بظاہر تہران میں شام سے متعلق کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں مگر یہ یقینی نظر آ رہا ہے کہ روس اور ترکی کے درمیان بات چیت کا محور یوکرین کی جنگ ہوگی اور اس میں ترکی اور دنیا کو بحیرہ اسود سے اناج کی فراہمی اہم موضوع گفتگو ہو گی۔

امریکہ یقیناً روس اور ایران کے تعلقات میں اس پیش رفت سے فکر مند ہے اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے ایرانی ڈرون طیاروں کے حوالے سے یوکرین میں جاری جنگ کی شدت میں اضافے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔

روسی سفارت کاری سے ایسا لگ رہا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ کا خاتمہ قریب نہیں اور عالمی امن اور معیشت کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ روس اور امریکہ کو عالمی امن اور معیشت کی بقا کے لیے اس تنازعے کو زیادہ آگے بڑھنے سے روکنا ہو گا۔

اس کے لیے لازم ہے کہ مغربی طاقتیں روس کے لیے واپسی کا کوئی باعزت اور قابل عمل راستہ تلاش کریں جس میں روس کے اپنی سلامتی کے بارے میں خدشات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments