بھارت میں مسلم ادارے اور علمی غفلت


کئی مرتبہ ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑتا ہے۔ بہت سے ملت کے ایسے مسائل ہیں جنھیں دیکھتا ہوں تو بے چین ہو اٹھتا ہوں، نہ لکھوں تو دل کڑھتا ہے۔ لکھوں تو بہت سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں، کئی مرتبہ اپنے دوستوں یا کرم فرما حضرات سے اس کا ذکر کرتا ہوں تو وہ بھی منع کر دیتے ہیں کہ نہ ہی لکھو تو بہتر ہے، آخر کتنے لوگوں کو اپنا دشمن بناؤ گے۔ گذشتہ پانچ سات سالوں میں بیشتر چیزیں سینئرز یا مخلص دوستوں سے مشورہ کے بعد ہی پوسٹ کی ہیں، ان میں ایسے مسائل کی ایک لمبی لسٹ ہے جن پر لکھنے کے باوجود احباب نے منع کیا تو وہ پوسٹ نہیں کی، جو کچھ لکھا ،وہ بہت ذمہ داری، جانچ پرکھ اور کئی مرتبہ پڑھنے کے بعد عام کیا لیکن اس کے باوجود شکایت کنندگان کی فہرست بہت طویل ہے۔

گذشتہ دنوں ایک بڑی ملی تنظیم کے ذریعہ ملت کے اہم دستاویزات کی خاموشی کے ساتھ فروخت اور کباڑی کے یہاں سے اس کی بازیافت پر بغیر نام لیے اپنے درد و الم کا اظہار کیا تو کئی ‘احباب’ نالاں ہو گئے کہ اگر آپ کو مذکورہ تنظیم سے اتنی ہی محبت یا ہمدردی تھی تو پہلے اس کے ذمہ داران سے اس پر گفتگو کرتے یا جو دستاویزات آپ کو ملے تھے، وہ ان تک پہنچا دیتے۔ ایسے افراد کو میں کیسے بتاتا کہ تحریر لکھے جانے کے بعد مذکورہ جماعت کے کئی ذمہ داران کو ارسال کی گئی تھی مگر کسی نے سوائے ایک بڑے ذمہ دار کے (یک سطری جواب جس میں لکھا تھا کہ’آپ کا درد میں نے اعلیٰ ذمہ داران تک پہنچا دیا ہے’) کسی کا کوئی جواب نہیں ملا، اس کے بعد میرے پاس یہی چارہ تھا کہ میں اسے ملت کے مفاد کی خاطر عام کرتا۔چنانچہ جب مذکورہ تحریر معمولی حذف و اضافہ کے بعد میں نے شائع کی تو ایک ہنگامہ بپا ہو گیا جیسے میں نے کوئی بہت بڑا جرم کردیا ہو۔

حالانکہ اس تحریر کے ذریعے میرا مقصد محض دستاویزات کی اہمیت ‘درشانا’ اور اس کی علمی و تحقیقی حیثیت کو اجاگر کرنا تھا، وہ بھی اس لئے کہ مجموعی طور پر ہمارے یہاں اس معاملے کو لے کر بے حسی ہی پائی جاتی ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر شاید ہی کہیں آپ کو باضابطہ لائبریری یا آرکائیول سیکشن دیکھنے کو ملے۔ دوسری چھوٹی بڑی تنظیموں، ملی یا مسلم سیاسی جماعتوں کی بات تو چھوڑ دیجیے، جماعت اسلامی اور جمعیة العلماء جیسی معتبر تنظیموں کے یہاں بھی باضابطہ لائبریری کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری ہے، جہاں ان کے لٹریچر کے علاوہ کوئی دوسری چیز ڈھونڈنے سے نہ ملے گی، حالانکہ اب اس میں تھوڑی سی تنوع آئی ہے اور کچھ دوسری کتابیں بھی رکھی جا رہی ہیں لیکن اس کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

جمعیة العلماءکا بھی وہی حال ہے، مجھے یاد پڑتا ہے دوہزار بارہ تیرہ میں مشاورت پر تحقیق کے دوران جمعیة کی کچھ پرانی فائلوں کی ضرورت تھی۔ جمعیة العلماءکے آفس گیا تو کوئی رسپانس نہیں ملا، کسی طرح جگاڑ اور اعلیٰ ذمہ داران سے رابطہ کے بعد ایک صاحب جن کا نام میں احتیاطا یہاں نہیں لکھ رہا، مجھے ایک بدبودار، حبس زدہ کمرے میں لے جا کر چھوڑ آئے کہ یہیں دیکھ لیں جو چیزیں کام کی ہوں، نکال لیں، وہاں کا حال لکھتے ہوئے اب بھی میرا دل کانپتا ہے، سیلن زدہ کمرے میں مختلف چیزیں بکھری پڑی تھیں، ایک طرف پرانی فائلیں، دوسری طرف روزنامہ اور ہفت روزہ جمعیت کے شمارے بے ترتیب پڑے تھے، کہیں مختلف پمفلیٹ کا تودہ تو کہیں دیگر کتابوں کا بنڈل سڑ رہا تھا۔ اوپر سے گرمی اور بدبو کے بھبھوکوں سے وہاں چند لمحہ بھی ٹھہرنا محال تھا۔ ظاہر ہے ویسے میں میں کیا تلاش کرتا، الٹے پاؤں واپس لوٹ آیا۔

ایک دن اس کا ذکر اپنے دوست افضل خان عمری سے کیا تو اس نے کہا کہ دین دیال اپادیائے واقع ریلوے کالونی کی بی جے پی لائبریری میں بہت امکان ہے کہ تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز مل جائے کیوں کہ میں نے وہاں مسلم مائنارٹی سے متعلق فائلیں دیکھی ہیں۔ ایک دن جیسے تیسے وقت نکال کر میں وہاں جا پہنچا، رسیپشن میں موجود عملہ کو میں نے بتایا کہ تریویدی جی سے ملنا ہے۔ وہ دو منٹ کرسی میں بیٹھنے کےلئے کہا اور اندر چلا گیا، اتنی دیر میں ٹھنڈا گلاس میں پانی لے کر ایک بندہ آچکا تھا، ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ وہ عملہ آیا اور سیدھے مجھے تریویدی جی کے آفس میں لے گیا، میں نے انھیں اپنا مدعا بتایا تو انھوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایک لڑکے کو میرے حوالے کیا اور کہا یہ جو چاہتے ہیں انھیں دکھاؤ اور فوٹو کاپی کرانا چاہیں تو کراکے دو اور ان سے ایک پیسہ نہیں لینا۔

میں وہاں مطلوبہ سیکشن میں گیا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ایک ایک فائل بڑے سلیقے سے ترتیب دی گئی تھی، جس چیز کی مجھے ضرورت ہوتی، میں کہتا اور وہ لڑکا میرے سامنے جِن کی طرح لاکر حاضر کر دیتا، میری حیرانی کی انتہا تو اس وقت اور ہو گئی جب میں نے دیکھا کہ مطلوبہ دستاویز مجھے یہاں مل گئی تھی، ساتھ ہی ساتھ ریڈینس اور دعوت کی وہ پرانی فائلیں بھی مجھے یہاں مل گئی تھیں جو خود جماعت اسلامی کے موجودہ آفسوں میں دستیاب نہ تھی۔ خیال رہے کہ روزنامہ دعوت اور سہ روزہ دعوت کی مکمل فائلیں خود جماعت کے اپنے ریکارڈ میں بھی نہیں ہیں، اسی طرح ریڈینس کی بھی مکمل ریکارڈ جماعت اسلامی سے نکلنے والے مذکورہ اخبارات کے دفاتر میں نہیں ہیں۔ ایسا ہی کچھ حال جمعیۃ کا بھی ہے۔

غالبا دو ہزار بارہ کی بات ہے، میں نام بھول رہا ہوں،جن دنوں میں جامعہ سے ترکی زبان میں ڈپلومہ کر رہا تھا، میرے ایک غیر مسلم ساتھی تھے انھوں نے ایران میں ایک عرصہ گذارا تھا اور ایران سے ہی فارسی زبان میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے، بتایا تھا کہ انھوں نے امروہہ اور میوات کی بہت ساری قیمتی کتابوں کے مسودات ایران کی لائبریریوں میں دیکھے، وہ ہماری حکومت کو گالیاں دے رہے تھے کہ ان کی نا اہلی کے سبب ایسا ہوا، ایران نے کتابوں کی مرمت کے نام پر بہت ساری قیمتی کتابیں یا تو چرا لیں یا اس کے نقول تیار کر کے لے گئے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس کی بات میں کتنی صداقت تھی لیکن اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو ٹھیک ہی ہوا اگر ایرانی اسے نہ لے جاتے تو ہم اس کا جو انجام کرتے وہ ظاہر ہے۔

گذشتہ دنوں لکھی گئی میری ایک تحریر پر میرے دوست افروز عالم ساحل نے ترکی سے کال کیا اور دیر تک افسوس کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے علاقہ’بتیا’ کی ایک لائبریری کا انجام بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ حکومت کے وسٹا پروجیکٹ میں پارلیمان کی باز آبادکاری کے دوران عربی اور فارسی کی بیش بہا کتابیں نکلی ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ موجودہ حکومت کو تو یونہی مسلمانوں یا اس سے جڑے مسائل سے دلچسپی نہیں ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے ذریعے نکالا جانے والا قدیم عربی مجلہ’ثقافة الہند’ بند کر دیا گیا، لیکن کسی نے کوئی ہنگامہ نہ کیا، مذکورہ کتابیں بھی دریا برد کردی جائیں تو کسی کو کوئی فرق نہ پڑے گا۔

آخر ایسی ناقدریوں اور بے حسیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر ہم جیسا کوئی دیوانہ ایسی چیزوں پر توجہ دلاتا ہے تو ہم پر لعن طعن کی جاتی ہے، لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں آخر اس قدر بے حسی ہماری ملت میں کیوں ہے، کیوں وہ جنھیں ہم اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اپنے دستاویز ڈھونڈنے ہمارے یہاں نہیں آتے، کیوں ہمیں اپنے دستاویز ڈھونڈنے ان کے یہاں جانا پڑتا ہے۔ آخر کب تک ہم اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا دوسروں کے اوپر پھوڑتے رہیں گے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گذرا رضی الاسلام ندوی صاحب نے گجرات کی ایک مسلم لائبریری کی دلدوز کہانی لکھی تھی، میں نے خود اپنے یہاں رانچی میں’اردو لائبریری’ کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ آخر ہمارے ہی ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے، میرے پاس تو جواب نہیں ہے، آپ کے پاس کچھ جواب ہوتو بتائیے گا۔

جس طرح ہمیں یہ وہم ہے کہ دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے، یعنی ستائے جانے کا وہم، ہمیں سکون سے سونے نہیں دیتا، اسی طرح ہمیں دیگر حوالوں سے بھی کئی قسم کے اوہام نے گھیر رکھا ہے۔ کبھی ہمیں مذہب خطرے میں دکھائی دیتا ہے، کبھی ہمیں اردو کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے کبھی خود پر بیت رہے رویے پر ہم رو رہے ہوتے ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ جو حقیقی خطرات ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں، ہمارے جو اپنے کرتوت ہیں، وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتے یا دیکھیں بھی تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اب ایسے میں کوئی کچھ بھی کہے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم تو خیر دیوانے ٹھہرے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments