جب وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی رات کی تاریکی میں شہباز شریف سے ملنے نیویارک آئے


اکتوبر، سنہ 2005 ء کا مہینہ تھا۔ جب چوہدری برادران اپنی فیملیوں سمیت انگلینڈ میں جمع تھے۔ وہاں پر ان کی موجودگی کا سبب اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے فرزند چوہدری مونس الٰہی کی شادی کی تقریبات تھیں۔ چوہدری مونس الٰہی کی شادی کی رسومات جب اختتام پذیر ہو چکیں۔ تو ماسوائے چوہدری پرویز الٰہی کے، باقی فیملی ممبران نے پاکستان واپسی کی تیاریاں شروع کر دیں۔

یاد رہے کہ یہ وہی وہ دن تھے جب 5 اکتوبر، 2005 ء کو پاکستان میں تاریخ کا خوفناک ترین زلزلہ آیا ہوا تھا۔ انسانی جانوں اور املاک کے بھاری نقصانات کی وجہ سے آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات بدترین مصائب کا شکار تھے۔

اکتوبر، 2005 ء کے وسط میں جب امریکہ میں موسم خزاں اپنے عروج پر تھا۔ ایسی ہی ایک خنک شام کو ورجینیا میں مقیم چوہدری برادران کے قریبی ساتھی چوہدری شمشاد کو انگلینڈ سے چوہدری شجاعت حسین کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔

چوہدری شجاعت حسین نے چوہدری شمشاد کو آگاہ کیا کہ اگلے روز، دن تین بجے، برٹش ائر ویز کی پرواز کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی واشنگٹن کے ڈیلاس ائر پورٹ پہنچ رہے ہیں۔ آپ انہیں وہاں ریسیو کرنے جائیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے یہ بھی بتایا کہ وہ کچھ دن امریکہ میں قیام کریں گے۔ اس دوران آپ ان کے اعزاز میں کوئی سیاسی تقریب اور زلزلہ زدگان کے لیے فنڈ ریزنگ وغیرہ کے انتظامات کر لیجیے گا۔

ورجینیا میں چوہدری شمشاد سے گفتگو ختم کر کے چوہدری شجاعت حسین ایسی ہی ایک کال میری لینڈ، امریکہ میں معروف کارڈیالوجسٹ اور اپنے فیملی معالج ڈاکٹر مبشر چوہدری کو کرتے ہیں۔ اور امریکہ میں چوہدری پرویز الٰہی کے میزبان کے طور پر انہیں ان کی آمد کی اطلاع کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مبشر، چوہدری شجاعت حسین سے اپنی گفتگو ختم کر کے چوہدری شمشاد کو کال ملاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ انہیں چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے اگلے روز چوہدری پرویز الٰہی کی آمد کی اطلاع موصول ہو چکی ہے۔ بعد ازاں پروگرام کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کے میزبان ڈاکٹر مبشر چوہدری اگلے روز انہیں ائر پورٹ سے ریسیو کر کے اپنے گھر میری لینڈ لے جاتے ہیں۔

چوہدری شمشاد اتنے شارٹ نوٹس پر ایک روز چھوڑ کر شام کے وقت میری لینڈ میں ہونے والی سیاسی تقریب کے لئے بندے اکٹھے کرنے کا مشن اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ فوری طور پر واشنگٹن ڈی سی، ورجینیا، میری لینڈ اور نیویارک میں اپنے حامیوں اور دوستوں کو چوہدری پرویز الٰہی کی میری لینڈ آمد اور وہاں پر ہونے والے اجتماع میں شرکت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

دو روز بعد عشائیہ تقریب میں خاطر خواہ لوگوں نے شرکت کی۔ تقریب میں زیادہ تر شرکاء کا تعلق ضلع گجرات اور گرد و نواح کے علاقوں سے تھا۔ اس موقع پر زلزلہ زدگان کے لیے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ڈالر کے فنڈز بھی اکٹھے کیے گئے۔

چوہدری پرویز الٰہی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اتنے کم وقت میں اتنے زیادہ لوگوں کی شرکت اور فنڈ ریزنگ پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے خاص طور لوگوں کو اکٹھا کرنے پر چوہدری شمشاد کی تعریف کی۔ اور اپنے فیملی معالج و میزبان ڈاکٹر مبشر کا بھی خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔ جنہوں نے تقریب کے شرکاء کے لیے کھانے کے انتظامات سمیت فنڈ ریزنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ میں اپنے میڈیکل چیک اپ وغیرہ کے علاوہ اب چوہدری پرویز الٰہی کی امریکہ آمد کا اصل اور اہم مرحلہ شروع ہونے جا رہا تھا۔

اکتوبر کے مہینے کے وسط میں ہی ایک دن رات کے وقت خاموشی سے ایک گاڑی میری لینڈ سے نکلی، جس میں چوہدری پرویز الٰہی سمیت کچھ اور لوگ بھی سوار تھے۔ اس قافلے کی اگلی منزل نیویارک سٹی تھا۔ جہاں پنجاب کا موجودہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب ہی کے ایک سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سے خفیہ ملاقات کے لیے جا رہا تھا۔

یہ ملاقات اسی رات کے پچھلے پہر نیویارک یا نیو جرسی کے کسی نامعلوم مقام پر ہوئی تھی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ ملاقات دو مقامات میں سے کسی ایک مقام پر ہوئی ہو گی۔ نیو جرسی کے علاقے ’فورٹلی‘ کے ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس کی بلڈنگ میں، جہاں شہباز شریف ان دنوں اکیلے رہتے تھے۔ یا پھر مین ہیٹن، نیویارک میں ٹائمز سکوائر کے قریب واقع شیرٹن ہوٹل میں۔

جس رات یہ ملاقات ہوئی اس سے اگلے روز اس ملاقات سے واقفیت رکھنے والے ایک انتہائی معتبر ذریعہ نے ہمیں نیویارک میں بتایا تھا کہ گزشتہ رات دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو گئی ہے۔ جس کے لیے چوہدری پرویز الٰہی خصوصی طور پر رات کے وقت میری لینڈ سے نیویارک آئے تھے، اور ملاقات کے بعد الصبح کسی اور سے ملے بغیر خاموشی سے واپس لوٹ گئے ہیں۔

تاہم ذرائع نے مجھے درست جائے ملاقات کا بتانے سے گریز کرتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ یہ کنفرم کیا تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی شہباز شریف سے ملاقات کر کے الصبح واپس میری لینڈ لوٹ گئے ہیں۔

اس وقت اس واحد مصدقہ ذریعہ کے علاوہ ہمارے پاس اس سکوپ نما خبر کی تصدیق کا اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔ (افسوس کہ اس واحد ذریعہ کا سنہ 2008 ء میں اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال ہو گیا تھا)

میں ان دنوں نیویارک سے ایک خبر رساں ادارے کے لیے بطور بیورو چیف کام کرتا تھا۔ میں نے اپنے خبر رساں ادارے میں اور ایک دوسرے صحافی دوست ندیم منظور سلہری نے ”روزنامہ نوائے وقت“ میں یہ خبر فائل کی تھی۔ خبر چھپنے کے بعد ایسی کسی ملاقات کی غالباً تردید بھی آئی تھی۔ جس کے آنے کی ہمیں بھی توقع تھی۔ کیونکہ رات کی تاریکی میں ہونے والی ایسی ہائی پروفائل خفیہ ملاقاتوں کی عموماً تردید ہی آیا کرتی ہے۔

اس مضمون کی تیاری کے دوران میرے استفسار پر ڈاکٹر مبشر چوہدری، چوہدری شمشاد اور پاکستان مسلم لیگ (ن) امریکہ کے ایک اہم عہدیدار نے چوہدری پرویز الٰہی کی شہباز شریف کے ساتھ ہونے والی ایسی کسی ملاقات سے مکمل طور پر اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔

نیویارک میں مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت بھی مکمل طور پر اس اہم ملاقات سے بے خبر تھی۔ شہباز شریف کی جانب سے اس ملاقات کی آگاہی رکھنے والا اگر کوئی شخص ہو سکتا تھا۔ تو وہ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ سینیٹر اور شہباز شریف کے رازداں کیپٹن (ر) خالد شاہین بٹ ہو سکتے تھے۔ جن سے تصدیق کے لیے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔

سنہ 2005 ءمیں جن دنوں شہباز شریف نیویارک میں مقیم تھے۔ اس وقت ان کا زیادہ تر وقت مین ہیٹن، نیویارک میں واقع ’کشمیر ریسٹورنٹ‘ میں گزرتا تھا۔ یہ ہوٹل مسلم لیگ (ن) کے موجودہ سینیٹر کیپٹن (ر) خالد شاہین بٹ کی ملکیت تھا۔ کیپٹن (ر) خالد شاہین بٹ ہمہ وقت میاں شہباز شریف کے ساتھ ہوتے تھے۔ اور وہ ان کے بہت سے معاملات کے رازداں بھی تھے۔ لگ بھگ اسی دوران شہباز شریف نے رازداری کے ساتھ نیو جرسی میں تہمینہ درانی کے ساتھ شادی بھی کی تھی۔ جن کے گواہوں میں کپتان صاحب کا نام بھی آتا رہا ہے۔

کسی خبر کی تردید آ جانے کا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ بہرحال حقائق اپنی جگہ مقدس ہوتے ہیں۔ چاہے انہیں ثابت کرنے کے ثبوت میسر ہوں یا نہ ہوں۔ اس خفیہ ملاقات کی ایک بار پھر تردید تو آ سکتی ہے مگر ملاقات کی اندرونی کہانی کبھی باہر نہیں آئے گی۔

شہباز شریف سے اپنی اس اہم ملاقات کے بعد اسی رات چوہدری پرویز الٰہی واپس میری لینڈ لوٹ گئے تھے۔ عام لوگوں کو بس اتنا ہی علم تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی امریکہ میں اپنے طبی معائنے اور زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے فنڈ ریزنگ کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ مگر اصل مشن شہباز شریف سے ملاقات تھی۔

تاہم یہ ملاقات اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو اعتماد میں لے کر کی گئی تھی یا وہ اس سے لاعلم تھے، اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت کے معروضی حالات میں اتنی بڑی پیش رفت بیک وقت صدر مملکت اور آرمی چیف کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ سکتی تھی۔

چوہدری برادران کے طرز سیاست سے یقیناً اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مگر چوہدری ظہور الٰہی سے لے کر چوہدری برادران تک۔ یہ فیملی سیاست میں اپنی خاندانی روایات، رواداری، مہمان نوازی اور وضعداری کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ واقفان حال کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اندرون خانہ دونوں فیملیز کے درمیان رابطے بلاواسطہ بالواسطہ کسی نہ کسی شکل میں ہر دور موجود رہے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت موجودہ سیاسی صورتحال میں چوہدری شجاعت حسین دھڑے اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی شراکت داری اور ہم آہنگی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی غمی میں بھی شرکت کرتے رہے ہیں۔

چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران حمزہ شہباز سمیت دیگر فیملی ممبران کو جب جب مشکل وقت میں انہیں کہا گیا، انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی مخالفت کے باوجود سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ جبکہ شہباز شریف کے دس سال کے دوران ہمارے خلاف مقدمات قائم کرنے سمیت ہر قسم کی انتقامی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ پھر بھی اس کے باوجود ہم تلخیاں بھلانے اور درگزر کرنے والے لوگ ہیں“ ۔

چوہدری برادران کو بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اقتدار اور طاقت کے حصول کا منبع کہاں پر ہے۔ اس لیے انہوں نے ملک کے بڑے اداروں، خصوصاً اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور صحافیوں کے ساتھ کبھی بھی بگاڑ کر نہیں رکھی۔ جس کے ثمرات سب کے سامنے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments