نذر محمد راشد نے اپنے مجموعے کو ”ایران میں اجنبی“ کس وجہ سے کہا ہے؟


نذر محمد راشد نے اپنے مجموعے کو ”ایران میں اجنبی“ کس وجہ سے کہا ہے؟ اس عنوان سے دو مفہوم وابستہ ہیں۔ ایک طرف، راشد ایک پاکستانی کے طور پر روایتی اسلامی قومی شعور کو اختیار کرتے ہوئے ایران کو دینی انحطاط کے جہنم میں ڈالنے پر تنقید کر رہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا نظریہ اتنا غیر مقبول ہو گا کہ کچھ ایرانی امریکہ کے روحانی زہر کو پیتے ہوئے ان کے ساتھ ایک احساس بیگانہ پن پیدا کریں گے اور ان کو ایک ”اجنبی“ تصور کریں گے۔

یہ خیال بالکل درست ثابت ہوا ہے، جب ہم آج ایران کے تناظر میں ان کی نظموں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ دینی قدامت پرستی اور ترقی پسند دنیاداری کے درمیان تناؤ ایران کو دو قوتوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ یہاں کوئی بھی اپنے اختلافات کو ختم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مغربی قدر، جو انفرادی فلاح و بہبود کے تلاش کرنے کو انسانی وجود کے مفہوم سے جوڑتی ہے، اور اسلامی فقہ، جو مذہبی حکم کے تقدس پر زور دیتی ہے، ان دونوں کے درمیان ہم آہنگی آسان نہیں ہے، کیونکہ شاہ کی حکومت نے ایرانیوں کو اسلامی قانون کے خلاف اکسایا تھا۔ راشد نے محسوس کیا ہے کہ ایک پاکستانی اور ایرانی کے درمیان توقعات کی ناسازگاری قطعی طور پر موجود ہے۔

دوسری طرف، راشد ایرانی عوام کو امریکی کالا جادو میں بے ہوش ہوتے ہوئے دیکھ کر اس افسوسناک صورتحال پر نوحہ کناں ہوتا ہے کہ ایرانی اپنی ہی قوم سے اجنبی بن گئے ہیں۔ اجنبی کی تعریف جغرافیائی تفہیم پر مبنی ہے۔ راشد کے نزدیک انقلاب سے پہلے ایرانی ثقافتی ماحول کو شاہ کی سازشوں کے باعث شکوک اور خیانت کی خشم سے بھر پور پایا ہے جس نے نہ صرف ایرانیوں کی روحانی پاکیزگی کو آلودہ کیا ہے بلکہ دوسروں پر اعتماد کو مکمل طور پر ختم بھی کر دیا ہے۔

اگرچہ شاہ کی حکومت کے دوران ایران ایک اقتصادی طاقت تھا، لیکن سیاسی ظلم و ستم اور بد اعتمادی کا گڑھ بن جاتا ہے۔ آپ کے پڑوسی، آپ کے رشتہ دار اور آپ کے استاد، آپ ہی کے جاسوس ہو سکتے ہیں! لوگوں کی انفرادیت اور بے چینی نے اپنے آپ کو قوم سے بتدریج بہت دور کر دیا ہے۔ لہذا راشد کے لئے ایرانی انقلاب ہی روحانی انحطاط کو ختم کرنے اور فارسی ثقافت کی شان کی حفاظت کا واحد راستہ ہے۔ راشد ایک ایرانی قوم کا تصوراتی جغرافیہ پیش کرتے ہیں جو تاریخی اور مستقبل دونوں پر مشتمل نظر آتا ہے۔ یہ تاریخ ہے کیونکہ فارسی روحانی روایت ایرانی قومیت کی بنیاد ہے۔ یہ بھی ایک حقیقی مستقبل ہے کیونکہ ایرانی سرزمین ”آدم نو“ کی پرورش کا گہوارہ ہے جو سنی اور شیعہ کے درمیاں ہونے والی فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہونے کا خواب دیکھتے ہیں۔

جب ہم کسی شاعر کی اخلاقی ذمہ داری کے بارے میں بحث کرتے ہیں، تو یہ یقیناً کوئی آسان سوال نہیں ہے کہ آیا ایک پاکستانی کو ایران پر تبصرہ اور تنقید کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ آخر میں، راشد غلط تشریح کے خطرے سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے اپنے مجموعے میں مذمتی لب و لہجہ کا استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں تاکہ ایسا تاثر پیدا نہ ہو کہ وہ ایران کے خلاف ہیں۔ راشد ایران کے لئے اجنبی ہیں لیکن ایران کے ہرگز دشمن نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments