پاکستان کو یوگنڈا جیسا سمجھنے والا خوفزدہ حبشی


پہلے یہاں گورے بھی آتے تھے۔ اب صرف کالے آتے ہیں۔ کسی گورے کو سزا دینی مقصود ہو تو اسے یہاں تعینات کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ موجودہ دور کا کالا پانی ہے۔ گوروں کی اکثریت چونکہ خوشحال ممالک میں پائی جاتی ہے لہذا پوسٹنگ کے بعد وہ مرتے زہر کھاتے ہیں۔ یہاں آ تو جاتے ہیں مگر محدود اپنے سفارت خانوں کے اندر ہی رہتے ہیں۔ ڈرتے ہیں۔ ہوا کوئی سابق جرمن سفیر مارٹن کوبلر ایسا زندہ دل و خوش مزاج، نفیس طبع، انسان دوست، وضع دار اور عاجز انسان جو اپنی مدت ملازمت میں جان مار کر کام کر گیا اور جہاں تک بس چلا یہاں کے چہرے پر ٹارچ لائٹیں مار مار کر دنیا کو روشن کر کر کے دکھاتا رہا تو دکھاتا رہا ورنہ ان کے ملازمین تک میریٹ، پی سی اور سرینا ہوٹلوں سے باہر شاذ ہی قدم دھرتے ہیں۔

وہ اس بات میں حق بجانب بھی ہیں کہ
مقابلہ جو برابر کا ہو تو کچھ کہیے
کہاں دبیقی و دیبا کہاں پلاس و حصیر

ایسا ہمیش سے نہیں تھا۔ سن پینسٹھ ستر تک یہاں کا ماحول بھی بڑا زبردست ہوا کرتا تھا۔ کرنسی بھی ٹھیک تھی۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ سیاحت کرنے بھی آتے تھے۔ اور وہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا اگلے بیس سال میں لندن، پیرس، سان فرانسسکو اور کراچی میں سے کون آگے ہو گا۔

پھر یہاں ایک گروسری والے چاچا آ گئے۔ انہوں نے تباہی و بربادی کے بیج بو دیے۔ وہ فصل کماد کی ثابت ہوئی اور تب سے اب تک بلا تعطل اگ رہی ہے اور کٹ رہی ہے۔

اب عالم یہ ہے کہ آج مجھے ایک کالا ملا۔ گلی کے نکڑ پر اپنی مخصوص افریقی طرز کی رنگ برنگی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھا۔ گلے میں چین تھی۔ صحیح قوی الجثہ تھا جیسا کہ یہ لوگ اکثر ہوتے ہیں۔ بارش کیا تھی بس پانی کی چادروں کی چادریں آکاش سے دھرتی پر گر رہی تھیں۔ یہ پٹرول پمپ کے سایہ دیوار میں بھیگنے سے محفوظ تھا اور ادھر ادھر دیکھتا تھا۔ اپنے گھر سے ہزاروں میل دور، انجانے دیس میں اجنبی لوگوں کے بیچ کسی کو مدد کے لئے پکارنا بھی بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

میں وہاں سے گزرا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کسی اور کو بلاتا ہو، مگر وہاں صرف میری ہی گاڑی تھی۔ دل میں سوچا لے بھئی محمدعلی، ہو نہ ہو اس نے تمام لوگوں کا بغور جائزہ لیا ہے اور شاید لگتا ہے کہ اس نے تجھے بھی تیرے چہرے کی سانولی رنگت کے باعث اپنا ہم وطن، ہم نسل یا پھر افریقی ضرور سمجھ لیا ہے۔ تبھی اس کی نظر انتخاب تجھ پر ٹھہری ہے۔

خیر میں رک گیا۔ گاڑی کا شیشہ اتارا۔ اس نے خاص سواحلی، عربی اور ادق افریقی لہجے والی انگریزی میں کہا

”جنتل مین! جی ایت سیکتر، سینتورس ؟“

میں اسی روٹ پر تھا سو بٹھا لیا۔ گاڑی میں تیز بے حد تیز پرفیوم کی خوشبو پھیل گئی۔ دماغ پھٹا جاتا تھا۔

میں نے توجہ بٹانے کو پوچھا
فرام ویئر؟
یوگندا۔
ہمممممم۔ ہاؤ از یور کنٹری یوگنڈا؟

بس وہ بھاری بھرکم افریقی لہجے میں شروع ہو گیا کہ بے حد غربت ہے۔ قانون قاعدے نام کی کوئی چیز نہیں۔ رشوت ستانی عام ہے۔ کوئی کسی کو مار جائے، اٹھا لے جائے شنوائی نہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ جہالت و غربت نے شادی کر لی ہے۔ یہ دونوں روز بروز بچے جن رہے ہیں۔ ملک میں بارہ گھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔ میرٹ کا قتل عام ہے۔ خوراک انتہائی غیر معیاری ہے۔ بین المذاہب تصادم عام ہیں۔ لوگ باقی دنیا سے بے خبر ہیں۔ پلیوشن اور پینے کے صاف پانی کے مسائل ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

میں شیخی سے پھول کر کپا ہو گیا اور اپنے تئیں خیال کرنے لگا کہ سویڈن میں رہتا ہوں۔ مصنوعی ہمدردی اور اصلی آکڑ خانی اور کمینگی سے میں نے پوچھا

سو وٹ اباؤٹ پاکستان؟ ہاؤ یو فیل ہیئر؟
آ آ آ آ آ۔ آئی فیل ایت ہوم ہیئر جنتل مین۔ ۔
کالے نے سپید دانت نکالتے ہوئے فلک شگاف قہقہہ مارا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments