خواجہ سراؤں کی نسل کشی کا منصوبہ


نسل کشی کا مطلب نسلی، علاقائی، مذہبی، لسانی یا کسی بھی چیز کو وجہ بنا کر مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے کسی گروہ، قبیلے، فرقے یا قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ نسل کشی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ موجودہ دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس کی شکل بدل چکی ہے۔ مغرب ہولو کاسٹ، بوسنیا، چائنہ، روانڈا، میکسیکو، رومن سلطنت، سلطنت عثمانیہ میں ہونے والی نسل کشی کی مہم کو دنیا کی سب سے خطرناک مہم قرار دیتا ہے ساتھ ہی ہلکے پھلکے انداز میں امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ کی مقامی آبادیوں کے قتل عام کو نسل کشی کی بڑی وارداتوں میں شامل کرتا ہے۔ بھارت اور اسرائیل میں مسلمانوں کی نسل کشی کا کسی لسٹ میں ذکر نہیں۔ امریکہ جس نے پوری دنیا کو جنگ کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے۔ کرونا جیسے لیبارٹری کے وائرس میں پھنسایا ہوا ہے مغرب اس کے ظلم و ستم کا کہیں ذکر نہیں کرتا۔

دھونس، زبردستی، مذہب کارڈ، فحاشی کارڈ، حکومت اور انتظامیہ کے غلط استعمال سے کسی اقلیتی گروپ کو دبایا تو جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد کتنا نقصان ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کیونکہ اس عمل کے بعد شدت پسند نظریات عوام کے ذہنوں پر نقش ہو جاتے ہیں۔ طاقت اصل قانون کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ایک گروپ کے بعد دوسرے گروپ کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب ایک ایک کر کے تمام گروپس ختم ہو جاتے ہیں تو یہی لوگ آپس میں لڑنے لگتے ہیں اور ایک ایسی جنگ شروع ہوتی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہوتا۔

وطن عزیز میں خواجہ سراء کمیونٹی چند لاکھ کی معمولی سی اقلیت ہے۔ خواجہ سراء کو جب گھر، خاندان اور معاشرہ اپنا حصہ تصور کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اپنے جیسے لوگوں کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ بھیک، ناچ گانا اور سیکس ورک جیسے کاموں سے پیٹ کی دوزخ بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اتنی زیادتیوں کے بعد بھی معاشرے کو سکون نہیں آتا۔ خواجہ سراء بھیک مانگنے نکلے تو چھیڑ چھاڑ، ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فنکشن کرے تو انہی مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ جنسی زیادتیوں اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات میں عام لوگوں کے علاوہ پولیس کے اہلکار بھی ملوث ہوتے ہیں۔

وطن عزیز کے چاروں صوبے خواجہ سراء کمیونٹی پر تشدد کے حوالے سے اپنی مثال نہیں رکھتے۔ لیکن دو صوبوں میں حالات غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔ پہلا صوبہ بلوچستان کا ہے جہاں کے سرداری نظام کی وجہ سے خواجہ سراء اپنی شناخت ہی ظاہر نہیں کرتے۔ یہاں خواجہ سراء کمیونٹی کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے۔

دوسرا صوبہ خیبر پختون خواہ ہے۔ جسے خواجہ سراء کمیونٹی کے حوالے سے بدترین تصور کیا جاتا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں حالات سنبھلنے کے بجائے بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے۔ پولیس خواجہ سراؤں کو برائی کی جڑ قرار دے کر ان کے گھروں پر تالے لگا رہی ہے۔ خواجہ سراء نجی محفلوں میں ڈانس کے فنکشنز کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ پولیس ان فنکشنز پر پابندی لگا رہی ہے۔ مذہبی جماعتیں سیاسی جلسوں میں خواجہ سراؤں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔

خیبر پختون خواہ کے مختلف اضلاع میں عوام خواجہ سراء کمیونٹی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ خواجہ سراء فاقوں پر مجبور ہیں۔ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، این۔ جی۔ اوز، میڈیا اور سول سوسائٹی مسئلے پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کشیدگی کی بگڑتی صورتحال پر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو انسانی المیے کا خدشہ ہے۔

نادرہ خان نامی خواجہ سراء ایکٹوسٹ نے خیبر پختون خواہ کے مختلف اضلاع میں تیزی سے بدلتے حالات کے حوالے سے پولیس کے اعلامیؤں، مذہبی جماعتوں کے جلسوں کی ویڈیوز، عوامی ردعمل کا ہم سے تبادلہ کیا۔

نادرہ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی اپ لوڈ کی ہے۔ جس میں کہ رہی ہیں کہ

” خیبر پختون خواہ میں گزشتہ چند سالوں سے خواجہ سراء کمیونٹی پر تشدد کے واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ تشدد کی لہر میں سینکڑوں خواجہ سراؤں کو زد و کوب کیا گیا، بہت سو کو گولیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان واقعات پر اخبارات، میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت شور ہوا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی کی طرح ساری صورتحال دیکھ رہے ہیں۔

سوات، مردان، بنوں، کالاباغ، کوہاٹ، نوشہرہ، چار سدہ، صوابی، ایبٹ آباد، ہری پور اور مانسہرہ میں تشدد کے بے شمار واقعات کی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔ سوات اور مردان میں پولیس کے اعلٰی عہدے داران اعلان کر چکے ہیں کہ ان کے علاقوں میں خواجہ سراؤں کی کوئی جگہ نہیں انھیں شہر بدر کیا جائے۔

نادرہ پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آپ جن خواجہ سراؤں کو شہر بدر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پٹھان ہیں اور پٹھانوں کے بچے ہیں۔ قومی شناختی کارڈ رکھنے والے ہر شخص کے انسانی حقوق برابر ہیں۔ اسے تحفظ فراہم کرنا آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ ہماری کمیونٹی کے کتنے ہی افراد کو مارا گیا، تیز دھار آلوں سے کاٹا گیا، فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اس بات پر تو آپ نے کبھی ایکشن نہیں لیا۔ ویڈیو میں نادرہ نے سینیٹر مشاہد اللہ کو بھی مخاطب کیا جن کی تقاریر تشدد میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

آخر میں نادرہ کہتی ہیں کہ خیبرپختون خواہ خواجہ سراء کمیونٹی کے لئے ریڈ زون بن چکا ہے۔ حکومت، عدلیہ، این۔ جی۔ اوز اور سول سوسائٹی نے فوری ایکشن نہ لیا تو کے۔ پی۔ کے میں خواجہ سراء کمیونٹی کو ختم کر دیا جائے گا۔

نادرہ نے ہمیں اخبارات کے تراشے، پولیس کے سوشل میڈیا پیجز سے شیئر کی گئیں پوسٹس، ویڈیوز اور وائس آف امریکہ کو دیا گیا حالیہ انٹرویو ارسال کی ہیں۔

”بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے خواجہ سراؤں کے روپ میں مردوں کو کرائے پر کمرے دینے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز۔

ڈی پی او ایبٹ آباد نے تمام ایس۔ ایچ۔ اوز کو خصوصی ٹاسک سونپ دیا جلد کارروائی کا حکم ”

”معاشرے میں برائیاں پھیلانے والے خواجہ سراؤں کا روپ ڈھانپے مردوں کو مکان اور کمرے کرائے پر دینے والوں کے خلاف پولیس کی جانب سے کارروائی کا آغاز۔ ڈی۔ پی۔ او ہری پور“

”مردان خواجہ سراؤں کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ ضلع مردان میں خواجہ سراؤں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ڈی۔ پی۔ او مردان“ مردان ضلع سے خواجہ سراؤں کا خاتمہ کرنے میں مردان پولیس کا ساتھ دیں۔

تمام ایس۔ ایچ۔ اوز کو پروانہ جاری، خواجہ سراؤں کے ہر قسم کے پروگرامز پر پابندی اور مردان سے خواجہ سراؤں کو ضلع بدر کیا جائے گا۔

بحکم ڈی۔ پی۔ او مردان و ایس۔ پی۔ آپریشن مردان
آواز نیوز ”#نیوز الرٹ

” مینگورہ کے رہائشی شہریوں کا علاقے میں فحاشی پھیلانے والے خواجہ سراؤں کے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ، ضلعی انتظامیہ سے فوری ضلع بدر کرنے کا مطالبہ۔ یاد رہے مینگورہ شہر کے علاوہ ضلع کی اہم تحصیلوں میں اس قسم کی سرگرمیاں بڑی حد تک پھیل چکی ہیں جبکہ پشاور سمیت دیگر اضلاع میں صوبائی حکومت نے خواجہ سراؤں کی محفلیں سجانے پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے۔ سوات انتظامیہ صوبائی حکومت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کرے“

خیبرپختون خواہ میں خواجہ سراؤں کے خلاف بڑھتے تشدد کو نہ روکا گیا تو پہلے مرحلے میں صوبے سے خواجہ سراء ختم ہوں گے ، دوسرے مرحلے میں اقلیتوں کی باری آئے گی، پھر خواتین کی باری آئے گی اور اس کے بعد مختلف فرقے ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر ختم کرنے پر تل جائیں گے۔ یہ آگ خیبر سے نکل کر پورے ملک میں پھیل جائے گی جس کی تپش سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔

خیبرپختون خواہ کے حالات کی بگڑتی صورتحال پر فوری ایکشن لینا ہو گا۔ اگر صورتحال بے قابو ہو گئی تو پھر اسے سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments